رنگ پور کے پاس ایک موجود ایک چھوٹے سے پانی کے تالاب کے پاس ایک بنجارے کا ڈیرہ ہے ، جو صدیوں سے کو کتے سوالوںکے جواب ڈھونڈنے میں مگن ہے ، نہ صاحب ہوتا ہے پورے سے نہ سدائ ، نہ عاشق نام کہلاتا ہے نہ عشق کا ڈیرہ چھوڑ کر جاتاہے ، اندر کے شور سے بھرا ہوا اور خاموشی کا شیدائ ہے ، اسے لگتا تھا کہ وہ دنیا کا راز کھوج لے گا ، اتنا کتابوں میں گم ہو گا دلکے سب اسرار جان لے گا ایک دن آۓ گا جب عشق اسے اپنا مان لے گا ، اسی تگ و دو میں جب اپنا کاسۂ سوال اٹھا کر چلا توسرکنڈوں کے قریب ایک عام سی عورت کو اپنے سر پر لدے بہت سے وزن کے ساتھ لڑتے دیکھا تو اس کا سا وزن بانٹ لیا ،وزن کی منزل دور تھی تو راستے میں سادگی کے وجود نے پوچھا کس سوچ میں گم ہو ، بنجارہ ہنس کر بولا تم میرے سوال سمجھ نہ پاؤ گی، اچھا ! چلو نہ سہی
بے پروائ بنجارے کو پسند نہ آئ ناک اونچا رکھنے کو بولا ، دنیا کو کھوجنے نکلا ہوں اس تالاب سے گھر کے سفر کے علاوہ سفر کیا ہے،
اس عورت نے مڑ کے بنجارے کی طرف مڑ کے دیکھا اور مسکرائ ، کیا ضرورت ہے دنیا دیکھنے کو اتنا پینڈا کرنے کی ، دنیا تو بسایک شخص ہوتا ہے ، اس کو ڈھونڈ لو اور دن رات اسے دیکھتے رہنا بنجارہ حیرت زدہ سا بولا ، اس ایک شخص کو میں کیسے پاؤں عورت پھر مسکائ اور بولی جو تمھیں تم سے ملا دے وہی تمہاری دنیاکہلاۓ ، مجھے دنیا سونپنے کی قیمت وہ کیا لے گی ، وہ تمھیں تم سے مانگ لے گی ، منظور تو ٹھیک ورنہ بھٹکتے رہو
تم نے یہ سب کیسے جانا اجنبی عورت ؟ ایسے کہ میں نے دنیا گھومی نہیں ، بس اس ایک شخص کو دنیا بنایا، سچ کہتی ہوں اب میراجہان پورا ہے تم بھی اپنا جہان ڈھونڈو یہ پتھر ماس کی دنیا نہیں
گھر آ گیا میں چلتی ہوں تمہارا سفر باقی ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...