ہومو سیپین اور علمی انقلاب
روئے زمین پر انسانوں کی اب تک پندرہ اقسام دریافت کی جاچکی ہیں جو ہم اور ہمارے اجداد سے زیادہ قدیم اور طاقت ور اور مختلف خصوصیات کی حامل پائی جاتی تھی جو موسمی تغیرسے ختم ہوگئی یا ہمارے اجداد نے ختم کردی مگر ہمارے اجداد انھیں ختم کیوں کرے گے اس کا بنیادی جواب یہ ہے کہہم ہومو سیپینس میں برداشت کا مادہ بلکل کم ہے جیسے آج رنگ نسل زبان مذہب اور قومیت جیسے محرکات ہجوم کو مشتعل کرنے اور قتل و غارت پر اکسا سکتے ہیں وہ بھی انکے خلاف جو اپنے ہو تو پھر کیسے ممکن تھا کہ ایسی انسانی پرجاتی جو ہم سے جسمانی زبانی علاقائی اور صلاحیتوں کے اعتبار سے بلکل مختلف ہو ہم اسکو بخش دیتے لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کیا ہوا کہ باقی تمام انسانوں کی اقسام ختم ہوگئی اور آج کا انسان بچ گیا۔
اس کے لیے ہمیں وقت میں تھوڑا پیچھے سفر کرنا پڑے گا ہومو سیپین یعنی ہمارے اجداد آج سے دیڑھ لاکھ سال پہلے مشرقی افریقا میں آباد ہوئے اور قریب ایک لاکھ سال پہلے ہمارے اجداد نے افریقا سے باہر قدم رکھا اور شمال لیوینٹ کے علاقے میں ہجرت شروع کی جو نیندرتھل کا علاقہ تھا مگر موسمی حالات یا مقامی پرجاتیوں سے نا آشنائی کچھ بھی وجہ ہوسکتی ہے مگر ہم وہاں اپنی جڑیں مضبوط نہ کرسکے اور ہمیں وہ علاقہ چھوڑنا پڑا جب ریسرچز نے اسکی وجہ دریافت کرنا چاہی تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ہمارے اجداد ہومو سیپین ہم جیسے دکھتے ضرور تھے مگر انکی دماغی تارو کا خدوخال ہم سے مختلف اور انکی علمی صلاحیتیں جیسےکہ سیکھنا بولنا لکھنا یاد رکھنا ہم سے بہت محدود تھا لیکن ستر ہزار سال قبل کچھ ایسا ہوا کہ ہوموسیپین نہ صرف حیران کن چیزیں کرنے لگ گئے بلکہ انھوں نے باقی تمام پرجاتیوں کو بھی اس زمین سے ختم کردیا اسکے بعد ہم نے قریب پینتالیس ہزار سال قبل یورپ اور مشرقی ایشیا کا رخ کیا اور صرف تیس ہزار سال قبل ہم نے سوئی تیر کمان چراغ اور کشتیوں کو ایجاد کرلیا اس دور کی آرٹ کا ایک نمونہ ہمیں ایک غار سے ملا جو تیس ہزار سال پرانا ہے جس کو مذہب معاشرتی رتبے کی علامت بھی کہا جاسکتا ہے
ایک شیر جس کا جسم انسان کا ہے اور چہرہ شیر کا لیکن اتنے کم وقت میں ہم انسانوں نے یہ سب کیسے ممکن بنایا ؟ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ سب علمی انقلاب کے باعث ہوا اور یہ علمی انقلاب پیدا کیسے ہوا ماہرین کی اس بارے میں تھیوری ہے کہ یہ کسی قسم کی ڈی این اے کی تبدیلی تھی جس کے بارے میں وہ مکمل طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے
لیکن اس علمی انقلاب میں ایسا کیا تھا جس نے ہماری سوچ اور زبان پر اثر کیا اور ہمیں افضل بنا دیا جبکہ ہر مخلوق کی ایک زبان ہے تو ہماری اور باقی پرجاتیوں کی زبان میں کیا فرق آیا کہ اس نے دنیا کی تاریخ اور نقشہ ہی تبدیل کردیاسب سے بنیادی جواب یہ ہے کہ ہم مختلف آواذوں اور الفاظ کی جوڑ توڑ سے ان گنت جملے مختلف معنوں کے تخلیق کرسکتے ہیں جس کی بنیاد پر ہم اپنے اردگرد کی کثیر تعداد میں معلومات اکٹھی کرسکتے ہیں جیسے کہ ایک بندر اپنے ساتھیوں کوآواذ پیدا کرکے یہ مطلع کرسکتا ہے کہ بچو! چیل آئی یا بچو !شیر آیا لیکن ہم انسان اس علمی و زبانی انقلاب کے نتائج میں یہ بتا سکتے ہیں کہ میں نے فلاں ندی کے پاس ایک شیر کو دیکھا جو پانی پی رہا تھا جس کی جسامت ایسی تھی اور وہ تنہاء تھا جس کے ذریعے ہم معلومات زیادہ تفصیل سے مہیاء کرسکتے ہیں جس کو جانتے ہوئے سب سر جوڑ کر ایک لائحہ عمل تخلیق کرسکتے ہے اور یہ نتائج اخذ کر سکتے ہیں کہ اس شیر کی جانب کون کون سا رستہ جاتا ہے اور اس پر حملہ یا اس سے بچاو کیسے ممکن ہے
اس بنیادی تبدیلی نے اور معلومات کی ترسیل نے آج کے انسان کو باقی تمام پرجاتیوں سے افضل بنا کر بچائے رکھا
لیکن اتنی تفصیل سے معلومات کی ترسیل کیسے شروع ہوئی ؟ اس بارے میں گوسپ تھیوری کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے یعنی گپ شپ کرنا ایک دوسرے سے چہ مگوئیاں کرنا ہومو سیپین ایک دوسرے کے سماجی تعلقات کے بارے میں بہت دلچسپی ظاہر کرتے ہیں جیسا کہ آج کل کے اخبارات خبریں ہو یا گھر میں بیٹھے دو مرد یا عورتیں
اگر دو سائنسدان چائے کی بریک پر مل بیٹھتے ہیں تو آپ سمجھتے ہے کہ وہ کیا ریلیٹو تھیوری ڈسکس کرتے ہیں؟ نہیں ایسا نہیں وہ اس بارے میں زیادہ دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں کہ فلاں کی بیگم کا کس کے ساتھ چکر ہے یا فلاں کو کیا مسائل ہیں
جو کہ سماجی رابطے کے لیے بہت اہم اور ضروری بھی ہے ہمارے معاشرے کی تمام معلومات کی بنیاد ان ہی گوسپس پر منحصر کرتی ہے اور اس ہی کے باعث ہماری زبان کا ارتقاء ممکن ہوا ہے لیکن کیا زبان کے ارتقاء کا مقصد یا اس افواہ اور گپ شپ کا مقصد صرف معلومات کی ترسیل تھا؟ ایسا بھی نہیں ہے اسکا ایک بہت خاص پہلو بھی ہے جو کہ ہے فکشن جس سے خدا مذہب اور وہم نے جنم لیا یعنی ہومو سیپینس ان چیزوں کے متعلق بھی گفتگو کرسکتے تھے جو موجود ہی نہیں وہ اس چیز کے بارے میں بھی ایک ابہام بنا سکتے تھے جو صرف انکا اپنا تخیل ہیں
یعنی میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے رات کو آسمان میں ایک گھوڑے کو اڑتے دیکھا جس کے پر سفید اور بدن چاندی جیسا تھا اور وہ اڑتا جاتا تھا اور روشنی بکھیرتا جاتا تھا ممکن ہے اگر یہ بات میں اس وقت کے انسان کے سامنے کرتا جو اس بات کی عقلی تنسیخ نہ کرسکتا تھا تو آج یہ بات بھی رائج ہوسکتی تھی کہ مکمل چاند کی وجہ ایک چاندی گھوڑا ہے جس کے سفید پنکھ ہیں جیسے ہمارے ہاں چاند پر چرکھا کاٹتی عورت کا تصور ہے بلکل ایسے ہی اوتر قدیم زمانے کی اس فکشن کا ایک نمونہ
اوپر دی گئی تصویر میں آپ دیکھ سکتے ہیں ایک شیر جس کا انسانی دھڑ ہے جو شائد کسی شیر جیسے بہادر انسان کی یاد میں بنایا گیا ہے اسکے علاوہ مصر کے فرعونوں کے بارے میں بھی ممکن ہے آپ جانتے ہو کہ کوئی سورج کا دیوتا ہے یا کوئی بارش برساتا ہے وغیرہ لیکن ان ابہام نے ہومو سیپین کو زیادہ تعداد میں ایک ہوکر کام کرنے کی ہمت دی چاہے وہ ثواب کی نیت سے ہو فتح یابی کا جوش یا عظیم انقلاب کی تیاری یہ سب ان سب ابہام افواہوں اور گپ شپ سے ہی ممکن ہوا۔
مصر کا فرعون عبادت کررہا ہے تاکہ سورج نکلے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...