بنی گالہ کے جن اور لال طوطا
خاتون کا تعارف میرے سامنے دھرا تھا۔ ایم ایس سی کے بعد اب پی ایچ ڈی بھی مکمل ہو چکی تھی۔ چھ سے سات سال پڑھانے کا تجربہ بھی تھا۔ ایک ڈگری برطانیہ سے اور باقی پاکستان کے جانے پہچانے اداروں سے جاری ہوئی تھی۔ کچھ تحقیقی مقالے بھی قومی اور بین الاقوامی جرائد میں شائع ہو چکے تھے۔ نفسیات کے لیکچرر کی جگہ خالی تھی اور اسی کے لیے اب انہیں ایک انٹرویو پینل سے بات چیت کرنی تھی۔ انٹرویو شروع ہوا۔ پینل کے ممبران مختلف سوال کرتے رہے۔ نفسیات میرا شعبہ نہیں ہے اس لیے اس دوران میرا کردار زیادہ تر خاموش تماشائی کا ہی تھا پر کچھ تو پوچھنا تھا اس لیے شیزوفرینیا پر لکھے گئے ان کے ایک مقالے کے بارے میں استفسار کر لیا۔ ہمارے دیہاتوں بلکہ شہروں میں بھی شیزوفرینیا یا ہسٹیریا کے مریضوں کے بارے میں یہ مفروضہ عام ہے کہ ان پر جادو ہو گیا ہے یا ان پر جنات کا سایہ ہے۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ ایسا یقین رکھنے والے مریض کو سائنسی طریقہ علاج پر قائل کرنے کے لیے کیا راہ اپنانی چاہیے تو سوال ان کے سامنے رکھ دیا۔ جواب میں ان کے پہلے جملے ہی نے البتہ مجھے چونکا ڈالا ۔ محترمہ نے فرمایا
“دیکھیے، ویسے تو جادو برحق ہے اور جن بھی وجود رکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔"
اس سے پہلے کہ نفسیات میں پی ایچ ڈی رکھنے والی یہ محقق کچھ اور ارشاد فرماتیں، میں نے ان کی بات کاٹ دی
“ کیا آپ کو کوئی جادوئی منتر آتے ہیں؟ یا آپ نے کبھی کسی جن سے ملاقات کی ہے؟"
اب چونکنے کی باری ان کی تھی کیونکہ ایسے دعوے پر شاید انہیں "بے شک" سننے کی عادت تھی
“نہیں۔ مجھے منتر تو نہیں آتے اور میں نے کبھی جن بھی نہیں دیکھا لیکن یہ تو لکھا ہوا ہے کہ جن بھی ہوتے ہیں اور جادو بھی کیا جاتا ہے"
ایک مستقبل کے محقق اور معلم کے منہ سے ایسی باتیں مجھے کبھی بھی محظوظ نہیں کرتیں اس لیے میں نے اگلا سوال داغ دیا
“کیا آپ کے پاس کوئی سائنسی شہادت ہے۔ کوئی ریسرچ سٹڈی ، کوئی کنٹرول گروپ ایکسپیریمنٹ ، کوئی تحقیقی مقالہ۔ صحائف کا حوالہ مت دیجیے گا کہ کسی غیر جانبدار فورم پر عقیدے کی ثبوت کے طور پر حیثیت پرکاہ کے برابر بھی نہیں ہوتی۔ اور یوں بھی میں دس تشریحات آپکے سامنے رکھ دوں گا جس میں انہی حوالوں کو لے کر شارحین ایک دوسرے کی بات ماننے کے روادار نہیں"
خفگی صرف خاتون کے چہرے پر ہی نہیں تھی بلکہ انٹریو پینل میں میرے کچھ اور دوست بھی کبیدہ خاطر نظر آ رہے تھے۔ خاتون نے منمنا کر کچھ اور تاویلات پیش کرنے کی کوشش کی ۔ کچھ اور سوال میں نے کیے۔ آخر میں نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ وہ سائنس اور سوڈو سائنس، طبعیات اور مابعدالطبیعیات، مادیت اور روحانیت دونوں کی بیک وقت معتقد تھیں۔ اور اس کے لیے ان کا عقیدہ کافی تھا۔ کسی شہادت، تجربے اور سائنسی طریق کی ضرورت اس ضمن میں وہ محسوس نہیں کرتی تھیں۔ انٹرویو ختم ہوا تو میرے سوا پینل کو ان کی اس سوچ سے کوئی خاص کد نہیں تھی اور وجہ یہ تھی کہ کسی نہ کسی درجے میں وہ سب بھی انہی اوہام کے اسیر تھے۔
دو سال ہوئے جب ایک دن کچھ ایسا ہوا کہ طبیبوں سے رجوع کرنا پڑا۔ دل اور دماغ دونوں کے بارے میں خدشات اٹھے تو ایک لمبی فہرست ہاتھ میں تھما دی گئی کی جائیے یہ سارے ٹیسٹ کروائیے۔ انہی میں سے ایک الٹراساؤنڈ ٹیسٹ تھا۔ ڈاکٹر صاحبہ کے دفتر کے باہر جو ایک تختی آویزاں تھی اس میں ڈگریوں کے نام پر قریبا سارے الفاظ تہجی موجود تھے۔ الٹراساؤنڈ کے دوران ڈاکٹر صاحبہ نے ازراہ رسم پوچھ لیا کہ ٹیسٹ کیوں کروایا جا رہا ہے۔ بتایا کہ ماہر امراض قلب مصر تھے اور انہیں ٹالنا ممکن نہیں تھا۔ اس پر ڈاکٹر صاحبہ ایک لحظہ ٹھٹکیں اور کہنے لگیں
“اگر دل کا کوئی مسئلہ ہو تو باقی سب چھوڑ کر آپ عجوہ کھجور کی گٹھلی کا سفوف استعمال کریں۔ صبح شام ایک چمچ پانی کے ساتھ ۔ کسی دوائی کی ضرورت نہیں پڑے گی"
میں یہ تو جانتا تھا کہ تاریخ، طب،مذہب اور سائنس سب کے ساتھ بیک وقت مجرمانہ زیادتی کرنے والے ہمارے ایک مشہور کالم نگار نے قارون زمانہ کے کاندھے پر رکھ کر عجوہ کھجور کی گٹھلی اور دل کے امراض کے بارے ایک کالم لکھا تھا جس کے بعد عجوہ کھجور کی قیمت میں راتوں رات کئی سو گنا اضافہ ہو گیا تھا اور کچھ درآمد کنندگان کے محلات کے لیے تمام سرمایہ وہیں سے نکل آیا تھا پر یہ معلوم نہ تھا کہ اب اس پر طبی تحقیق بھی ہو چکی ہے۔ اتنی سینئیر ڈاکٹر پر شک کرنے کی کوئی وجہ تو نہ تھی پر پھر بھی پوچھ بیٹھا کہ اس حوالے سے کوئی مقالہ لکھا گیا ہے، کوئی طبی تحریر کہیں شائع ہوئی ہو، کوئی مریضوں کے گروپ پر کہیں تجربات ہوئے ہوں۔ کوئی اس کے نتائج، ایف ڈی اے یا قومی ڈرگ اتھارٹی کا کوئی حکم نامہ اس حوالے سے۔
ان استفسارات کا نتیجہ ان کے ماتھے پر پڑی شکنوں کی صورت ظاہر ہوا۔ کالم نگار صاحب کا حوالہ دیا گیا۔ کچھ روایات دہرائی گئیں اور پھر چند احادیث سنا کر ہمیں حکم ہوا کہ ٹیسٹ مکمل ہو گیا ہے ۔ ڈاکٹر صاحبہ ہمارے ایمان کی کمزوری پر سخت مایوس دکھائی دیتی تھیں۔ خیر رپورٹ تھامے باہر نکلے اور یہ سوچتے رہے کہ کسی مہذب ملک میں ایک ڈاکٹر اگر دوا کے نام پر ایسی کوئی شے مریض کو تجویز کرے جس کے بارے میں ایک بھی سائنسی حوالہ موجود نہ ہو تو کیا اس کا لائسنس منسوخ نہ ہو جاوے۔
یہ تو ہماری اپنی کہانیاں تھیں لیکن یہ سب آپ نے بھی کبھی نہ کبھی سنا ہو گا۔ اوہام پرستی ہمارے یہاں عام چلن ہے۔ آجکل اس موضوع پر نئی بحث چھڑ گئی ہے جس میں خان صاحب عمران خان کی ضعیف الاعتقادی، بشری بی بی کے جنوں اور کچھ سجدوں وغیرہ کا ذکر عام ہے۔ ان کے سیاسی مخالفین ایسا تاثر دینے میں مصروف ہیں کہ یہ اوہام پرستی اور ضعیف الاعتقادی ایک پروگریسو معاشرے کے لیے زہر قاتل ثابت ہونے کو ہے۔ کچھ یہ بھی پوچھتے نظر آئے کہ آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ صاحب ایسی پسماندہ سوچ کیونکر رکھ سکتے ہیں۔
سچ پوچھیے تو ہمیں ان اعتراضات میں زیادہ جان نظر نہیں آتی۔ عقائد کا ہمارے ملک میں جمعہ بازار لگا ہوا ہے۔ ہر ایک اپنے اپنے عقائد کی دکان لگائے کھڑا ہے اور مخالف عقیدے کے ہر پیروکار کو مشرک، بدعتی اور ضعیف الاعتقاد ہونے کے طعنے دینے میں مصروف ہے۔ بشری بی بی پر نادیدہ قوتوں سے ہمکلام ہونے کو شیزو فرینیا قرار دینے والے بھول جاتے ہیں کہ اس ملک کے سو فی صد عوام بہت سی نادیدہ قوتوں پر مکمل ایمان رکھتے ہیں۔ حتی کہ ان پر بھی جن سے ہمکلامی کا الزام مستقبل کی مبینہ خاتون اول پر عائد کیا جا رہا ہے۔
ہمارے ایک دوست اس ترکیب ضعیف الاعتقادی سے سخت نالاں ہیں۔ ان کے الفاظ میں عقیدہ، خواہ وہ کوئی بھی ہو، بذاتہہ ذہنی ضعف کی نشانی ہے کہ عقیدے کی پہلی شرط یہ ہے کہ اس پر ایمان بغیر کسی شہادت کے رکھا جائے گا۔ عقیدے کو دلیل سے نفور ہے۔ اور سوال عقیدے کے لیے سم قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہم ان سے اتفاق کر کے اپنا سر گنوانا نہیں چاہتے لیکن اختلاف کرنے کے لیے بھی دامن میں کچھ نہیں ہے۔
کیا یہ پوچھا نہیں جا سکتا کہ معجزات اور کرامتیں کبھی کنٹرولڈ اینوائرنمنٹ میں وقوع پذیر کیوں نہیں ہوتیں۔ جیمز رینڈی کے دیے گئے چیلنج پر تیس سال تک کوئی ایک بھی مافوق الفطرت دعویٰ ثابت کیوں نہیں کیا جا سکا۔ اگر جادو ہوتا ہے تو کوئی ایک بھی تحریر ایسی کیوں موجود نہیں ہے جس میں جادو کا کوئی ایک منتر یا ایک فارمولا ہی مل جائے جسے اعتراض کرنے والوں کے منہ پر مارا جا سکے۔ جن اگر ہیکل سلیمانی تعمیر کر سکتے ہیں۔ روایات میں راویان احادیث سے مکالمہ کر سکتے ہیں۔ لید اور ہڈیوں کی خوراک کی تصدیق بخاری اور مسلم سے کر ا سکتے ہیں۔ صوفیان ہند کے موکل ہو سکتے ہیں۔ جوق در جوق حج اور عمرہ کر سکتے ہیں، ہر گاؤں میں کسی نہ کسی غیر شادی شدہ عورت پر عاشق ہو سکتے ہیں تو بنی گالہ میں گوشت کیوں نہیں کھا سکتے۔
اگر گاؤ موت پینے والے ہمیں احمق اور غلیظ لگتے ہیں تو اونٹ کے پیشاب کے ضمن میں موجود مصدقہ اسلامی روایات کو کدھر لے کر جائیں۔ ہماری روایات میں بندر زنا بھی کرتے ہیں اور ان کا رجم بھی ہوتا ہے۔ اندھے بینائی پاتے ہیں۔ مردے جی اٹھتے ہیں، مچھلی کے پیٹ میں زندگی قائم رہتی ہے، ایک کشتی میں دنیا بھر کے جانور سما جاتے ہیں۔ اجرام فلکی دو ٹکڑے ہو جاتا ہے، پہاڑ اونٹنی کو جنم دیتا ہے، سمندر پھٹ کر راستہ دیتا ہے، عصا اژدہا بن جاتا ہے۔ اور یہ سب برحق ہے پر ہنومان لنکا کو آگ نہیں لگا سکتا، لکشمی دولت نہیں دے سکتی، تھور کا ہتھوڑا کائنات کو زیر وزبر نہیں کر سکتا، زیوس کی تلوار سے بجلی نہیں گر سکتی۔ کیوں؟ تیرگی ہماری زلف ہی میں حسن کیوں کہلاتی ہے۔ ہم اپنے عقیدے کو سچ اور دوسرے کے عقیدے کو جھوٹ کیونکر کہہ سکتے ہیں۔ یا تو ہم سب اوہام کے اسیر ہیں یا ہم سب سچے ہیں۔ ایک وہم کو حقیقت اور ایک کو مفروضہ سمجھنا کس جواز کے تحت درست ہے۔
چلیے دوسرے مذاہب کو چھوڑ دیجیے۔ اپنے ہی مذہب میں ایک فرقے کو تاریخ کچھ نظر آتی ہے۔ دوسرے کو کچھ اور۔ ایک ہی حوالے کو استعمال کرتے ہوئے ایک کے نزدیک ایک شخص ولی ٹھہرتا ہے اور دوسرے کے نزدیک غاصب۔ ایک نور پر یقین رکھتا ہے دوسرا بشر کہنے پر مصر ہے۔ ایک کو مہدی کا انتظار ہے، ایک کا مہدی آ چکا ہے اور ایک کا مہدی طے ہے پر غائب ہے۔ ایک مزاروں پر ماتھا ٹیکتا ہے ، دوسرا اسے شرک کی دکان کہتا ہے، ایک سماع پر وجد میں آتا ہے، دوسرا اسے حرام ٹھہراتا ہے۔ ایک ماتم کرتا ہے، دوسرے کو اونچی آواز میں رونا بھی منع ہے۔ پھر ہم اپنے اپنے عقیدے کے علم اٹھا کر نکلتے ہیں اور دوسرے کی گردن مارنے کو مباح سمجھتے ہیں۔ یہ فیصلہ کوئی ایک کیسے کر سکتا ہے کہ اس کا سچ درست ہے اور دوسرے کا سچ گناہ ہے۔ ہم عقیدے کو ذاتی کیوں نہیں سمجھ سکتے۔ جس کا جو دل کرے، جس کا دل جس پر مطمئن ہو۔ اسے کرنے دیا جائے۔ وہم، عقیدے اور ایمان پر تنقید کا حق ہمیں دیا کس نے ہے۔ نہ الف سائنسی ہے نہ ب سائنسی ہے۔ نہ لام کی ناقابل تردید شہادت ہے نہ میم کا کوئی مشاہدہ ہے، نہ جیم پر کوئی تجربہ کیا گیا ہے نہ خ پر کوئی تحقیقی مقالہ موجود ہے۔ جب تک میرا ذاتی عقیدہ آپکی دہلیز پھلانگ کر آپ کو اس کی اتباع پر مجبور نہیں کرتا، آپ کو اس پر انگشت نمائی کا حق نہیں پہنچتا۔
ہمارے اندر ایک قدیم اوہام پرست انسان ابھی مرا نہیں ہے۔ ہم جانوروں کا خون بہا کر آج بھی آسمانی قوتوں کو خوش کرتے ہیں، ہم اجتماعی مناجات سے آج بھی بادل اور بارش کو بلاتے ہیں۔ کوئی پتھروں کو چومتا ہے کوئی ان پر کنکر برساتا ہے کوئی ان کے آگے جھکتا ہے۔ سب نے برکت کی اپنی اپنی راتیں اور اپنے اپنے دن طے کر رکھے ہیں۔ کوئی بھوکا رہتا ہے، کوئی صلیب پر مصلوب ہوتا ہے، کوئی سلاخیں جبڑوں میں پروتا ہے۔ کسی نہ کسی طرح اپنی ذات کو تکلیف دے کر ہم راہ نجات ڈھونڈتے ہیں۔ پر ایک مذہب کے فرائض دوسرے مذہب کے اوہام قرار پاتے ہیں ۔ ایک مسلک کے طریق دوسرے مسلک کے لیے بدعت بن جاتے ہیں اور پھر ہم اپنی وحشت کی تسکین کے لیے کبھی چیختے ہیں، کبھی چلاتے ہیں اور جب جہاں بس چلتا ہے، زمین کو خون رنگ کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔
اگر فرید گنج شکر کے مزار پر ماتھا ٹیکنا اوہام پرستی ہے، ضعیف الاعتقادی ہے ، شرک ہے، بدعت ہے تو پھر ہر سال سات محرم کو بہشتی دروازے سے گزرنے والے لاکھوں زائرین کے بارے میں کیا خیال یے۔ سابقہ وزیر خزانہ کا داتا گنج بخش کی قبر کو سینکڑوں من عرق گلاب سے غسل دینا کیسا ہے، زرداری صاحب کے ان پیر صاحب کے بارے میں کیا خیال ہے جن کے ہوتے ہر روز ایوان صدر میں کالے بکرے صدقہ ہوتے رہے۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف جن محترم سے چھڑیاں کھا کر اقتدار کی دعائیں کراتے رہے، ان کا کیا کریں۔ خانہ کعبہ پر کروڑوں کی مالیت کے غلاف چڑھانے سے کون سے رد بلا ہوتی ہے۔ میلاد کی محافل کیوں ہوتی ہیں۔ مجالس کیوں بپا ہوتی ہیں۔ تبلیغی چلوں سے کونسا انقلاب آتا ہے۔ یہ مخدوم جاوید ہاشمی، یہ شاہ محمود قریشی، یہ یوسف رضا گیلانی ، یہ پیر آف پگارا ، یہ مخدوم فہیم آف ہالہ شریف، یہ سیالوی، یہ عید گاہ شریف والے،یہ گولڑہ والے، یہ سب کیا اوہام پرستی کہ کمائی نہیں کھاتے۔ کیا سپہ سالار بھی عقیدے کی مضبوطی کا ثبوت پیروں کے ساتھ تصاویر کھنچوا کر نہیں دیتے۔ یہ طارق جمیل، ذاکر نائیک ، بلال فلپ وغیرہ کیا اعتقاد کی دکان لگائے نہیں بیٹھے ہیں۔ یہ جمعیت علماء اسلام، جمعیت علماء پاکستان، جماعت اسلامی، تحریک یا لبیک، نفاذ فقہہ جعفریہ، جماعت الدعوہ وغیرہ کیا مذہب اور مسلک کا چورن ووٹ کے بدلے فروخت نہیں کر رہے۔ یہ پارلیمان اور مقننہ کیا مذہبی تشریح کے نام پر انسانی حقوق کا گلا گھونٹنے والے قوانین کا تحفہ قوم کو دینے کے سزاوار نہیں ہیں۔ جب یہ سب برداشت ہے تو پھر بنی گالہ کے جن اور بابا فرید کی چوکھٹ پر کاہے کا اعتراض
ہم مان کیوں نہیں لیتے کہ ہر ایک کو اپنا اپنا عقیدہ رکھنے کا حق ہے اور ہمیں اس پر تنقید کرنے کا حق صرف اس وقت ملتا ہے جب ہم سے بھی اسی عقیدے کی حقانیت پر اصرار کروایا جائے۔ بہت سوں کے لیے تو مذہب کا کارخانہ ہی مربوط توہم پرستی کے سوا کچھ نہیں تو کیا ہر مذہبی آدمی کو سینگوں پر اٹھا لیا جائے۔ اصل مسئلہ ہماری اس عصبیت کا ہے جو بہانہ ڈھونڈتی ہے کہ جس کو ہم پسند نہیں کرتے اس کے بارے میں کہاں کچھ ڈھونڈ پائیں کہ تماشہ لگایا جا سکے۔ ایک پرانی چینی کہاوت کے مطابق جب ایک انگلی مخالف پر اٹھتی ہے تو چار اپنی جانب ہوتی ہیں۔ ہم سب شیشے کے گھروں میں پتھر کے ڈھیر اکٹھے کرتے جا رہے ہیں۔ عقیدوں کو اجتماعی موضوع بحث بنانے کے نتیجے ہم علمدار روڈ، گونر فارم ، لاہور ، جوزف کالونی اور یوحنا آباد میں دیکھ چکے ہیں پر سیکھنے کو ہم تیار نہیں ہیں۔
ایسی نکتہ چینی پر مجھے ہمیشہ یوسفی صاحب یاد آتے ہیں۔ چلتے چلتے یہ چھوٹا سا شذرہ آپکی نذر ہے۔ سمجھ آ جائے تو مسکرا دیجیے گا۔ نہیں تو اعتراض کی راہ کھلی پڑی ہے۔ ہم جیسے تو یوں بھی ٹھوکر مار کر پرے کر دیے جاتے ہیں۔
’’سلسلہ تجلیات کو جاری رکھتے ہوئے نحاس پاشا کنجو نے ارشاد کیا، انتالیسویں شب کو شب نیم ماہ تھی، تہجد کے اول وقت کھجور کھا کر گٹھلی تھوکی تو وہیں پیپل کا درخت اگ آیا۔ اب جو حوض میں چلتے ہوئے فوارے کے اوپر کھڑے ہو کر غسل کرنے لگا تو دیکھتا کیا ہوں کہ ہر بوند کا ایک لال طوطا بن گیا ہے اور پیپل کے ایک ایک پتے پر بیٹھ کر حمد باری تعالیٰ کر رہا ہے۔
’لال طوطا‘؟ ہم سے رہا نہ گیا
خان سیف الملوک نے ہمیں ٹہوکا دیا۔ کہنے لگے ’چپ کر بد بختا! یہاں اور کون سی بات سائنس کے مطابق ہو رہی ہے جو تجھے طوطے کے رنگ پہ اچنبھا ہو رہا ہے۔‘‘
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔