بنگلہ دیش سے مالدیپ تک
پاکستان میں تو کرپشن کرپشن کرپشن نامی ڈرامہ ہمیشہ چلتا ہی رہتا ہے ،اب کرپشن کی کہانی بنگلہ دیش تک پہنچ گئی ہے ۔دو بار وزیر اعظم رہنے والی بیگم خالدہ ضیاٗ کو ایک عدالت نے پانچ سال کے لئے جیل بھیج دیا ہے ۔فرد جرم یہ لگائی گئی ہے کہ ایک یتیم خانے کے لئے ملنے والے عالمی فنڈ میں محترمہ نے کرپشن کی ہے ۔ڈھائی لاکھ ڈالر خرد برد کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے ۔جیسے ہی خالدہ ضیا کے خلاف فیصلہ آیا ،محترمہ کو فوری ہی جیل میں ڈال دیا گیا ۔اب بنگلہ دیش میں جھڑپیں ہیں ،تشدد ہے اور ڈھاکہ عملی طور پر باقی ملک سے کٹا ہوا ہے ۔بلکل ایسے ہی جیسے بعض اوقات اسلام آباد دھڑنوں کی وجہ سے باقی ملک سے کٹا ہوا ہوتا ہے ۔۔۔خالدہ ضیا کی پارٹی بی این پی کے ہزاروں ورکروں کو گرفتار کرکے جیل میں بند کردیا گیا ہے ۔خالدہ ضیا اور شیخ حسینہ دونوں کی سیاست موروثی ہے ۔شیخ حسینہ کے والد شیخ مجیب کو جب انیس سو پچھتر میں قتل کیا گیا تو وہ عملی سیاست کا حصہ بنیں ۔بیگم خالدہ ضیا کا شوہر جب قتل کردیا گیا تو انہیں سیاست میں آنا پڑا ۔بنگلہ دیش میں جب فوجی آمر حسین محمد ارشاد کی آمریت کا راج تھا تو یہ دونوں خواتین فوجی آمریت کے خلاف متحد تھی فوجی آمریت کے خلاف جمہوریت کے حق میں تحریک چلا رہی تھی ۔جنرل ارشاد کے آمرانہ دور کے اختتام کے بعد ان دونوں خواتین کے درمیان سیاسی دشمنی کا آغاز ہوا،یہ سیاسی دشمنی کیسے زاتی دشمنی میں بدل گئی ،اس کی بھی ایک کہانی ہے ۔2007 میں بنگلہ دیش میں کئیر ٹیکر ھکومت بنائی گئی ،اس حکومت کو پاکستان میں بنگلہ دیش ماڈل بھی کہا جاتا ہے ۔بنیادی طور پر یہ ایک فوجی ھکومت تھی ،اسی حکومت کے دور میں خالدہ ضیا اور ان کے صاحبزادے کو جیل بند کیا گیا ،2009 میں شیخ حسینہ واجد نے انتخابی سیاست میں یہ نعرہ بلند کیا کہ وہ اقتدار میں آگئی تو 1971کے غداروں سے نمٹیں گی اور انہیں پھانسیاں دی جائیں گی ۔اسی بنیاد پر شیخ حسینہ واجد کو ووٹ پڑے ۔اقتدار میں آئیں تو انٹرنیشنل وار کرائم ٹریبونل تشکیل دیا ۔پچھلے تین سالوں کے دوران اس ٹریبونل نے 13لوگوں کو سزائے موت سنائی ہے ،جن افراد کو سزائے موت سنائی گئی ہے ان میں اکثریت کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے ۔2014 میں دوبارہ انتخابات ہوئے ،حسینہ واجد نے کیئر ٹیکر حکومت بنانے سے انکار کردیا ۔خالدہ ضیا کی بی این پی کے تیرہ رکنی اتحاد نے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا ،یہ احمقانہ فیصلہ تھا ،حسینہ واجد کو واک اوورمل گیا ،ایک بار پھر حسینہ واجد وزیر اعظم بن گئیں ،اپوزیشن چیختی چلاتی رہی کہ دھاندلی ہوئی ہے ،لیکن کچھ نہ ہوا ۔اب دوبارہ دسمبر میں بنگلہ دیش میں انتخابات ہونے جارہے ہیں ،اور خالدہ ضیاجیل میں چلی گئیں ہیں ،جیل جانے سے ایک دن پہلے خالدہ ضیا نے پریس کا نفرس کے دوران کہا تھا کہ انہیں عدالتوں کے ہتھیار کے زریعے عوامی سیاست اور انتخابات سے دور رکھنے کی تیاری کی جارہی ہے ۔بات تو سمجھ گئے ہوں گے پاکستان میں بھی کچھ ایسا ہی منظر ہے ۔اب شیخ حسینہ واجد کی عوامی لیگ کے لئے انتخابات میں کوئی چیلنج نہیں ہوگا ،بی این پی کی قائد خالدہ ضیا جیل میں ہیں ،بی این پی میں کوئی ایسا لیڈر بھی نہیں جو عوامی لیگ کا مقابلہ کرسکے ،اس لئے لگتا ہے دسمبر کے انتخابات بھی عوامی لیگ یعنی شیخ حسینہ جیت جائیں گی ۔کہنے کا مقصد ہے کہ کرپشن کے ہتھیار کو طاقتور حلقے اپنے اقتدار کے لئے صرف پاکستان میں نہیں بنگلہ دیش میں بھی استعمال کررہے ہیں ۔کچھ سنی سنائی باتیں لگ رہی ہوں تو اپنی سیاست پر بھی ضرور غور کیجیئے گا ۔اس وقت بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان میں حکومت اور عدلیہ میں ٹینشن چل رہی ہے ۔اگر مالدیپ کے حالات دیکھیں تو وہاں صورتحال یہاں سے بھی بدترین ہے ۔مالدیپ میں سپریم کورٹ کے ججوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے ،صدر یامین نے فوج کے زریعے معاملات کنٹرول میں کرلئے ہیں ۔ججوں کی رولنگ کو ختم کردیا گیا ہے ۔سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ جو سیاسی قیدی جیل میں ہیں ان کو رہا کیا جائے ۔سیاسی قیدیوں میں مالدیپ کے سابق صدر محمد نشید بھی شامل ہیں ۔یہ دو ہزار نو میں صدر رہے اور جب یامین اقتدار میں آئے تو انہیں دو ہزار پندرہ میں گرفتار کرکے جیل میں بند کردیا گیا تھا ۔اس خطے میں جمہوریت اور سیاست کی جو صورتحال ہے وہ ہمیشہ نازک رہی ہے اور شاید بہت عرصے تک نازک رہے گی ۔پاکستان میں بھی نواز شریف فیملی کو کرپشن کے الزامات میں سیاست سے الگ کردیا گیا ہے ،لیکن وہ مزاحمت کی علامت بنے ہوئے ہیں ،اب پاکستان میں بھی چند ماہ بعد الیکشن ہیں ،دیکھتے ہیں نواز شریف کی مزاحمت کیا رنگ لاتی ہے اور طاقتور حلقے کیا کھیل کھیلتے ہیں ۔بنگلہ دیشن اور مالدیپ کی صورتھال بیان کرنے کا بھی کچھ یہی مقصد تھا ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔