(24اکتوبر،پروفیسرغلام اعظم ؒبرسی کے موقع پرخصوصی تحریر)
مشرقی پاکستان ابھی بھی سچے پاکستانیوں کے دل میں اسی طرح زندہ و تابندہ ہے جس طرح بنگلہ دیش سے پہلے اس خطہ ارضی کاوجوددوقومی نظریہ کی حقانیت کے ثبوت کی بنیادپر موجودتھا۔14اگست1947کی رقم کردہ فتح اور اس کی پشت پرنسلوں کی جدوجہداور شہداکی قربانیوں کو محض انتظامی تبدیلیوں سے منسوخ نہیں کیاجاسکتا۔مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنادیاگیالیکن مشرقی پاکستانیوں کے دل سے پاکستانیت کیسے نکل سکتی ہے؟؟؟آج بھی بنگلہ دیش میں پاکستانیوں کی پوری نسل پل بڑھ کر جوان ہو چکی ہے اور وہ پردیسی پاکستانی اپنے اصل پاکستان سے اسی طرح محبت کرتے ہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کرجس طرح کہ موجودہ پاکستان کے شہری اپنے وطن عزیزکو جاں سے عزیزتر رکھتے ہیں۔اگر کسی کے دل و دماغ میں یہ غلط فہمی ہو کہ سماجی یلغاراور ثقافتی بے راہ روی کے باعث پاکستان کی نوجوان نسل کی یادداشت سے ان کے ماضی کو کھرچاجاسکتاہے تو وہ اپنی اس خام خیال خیالی کو حرف غلط کی طرح وقت کی سطور سے عنقاکردے کہ 14اگست1947کامکمل پاکستان لاکھوں شہیدوں کی امانت تھا،ہے اوررہے گا۔پاکستانی قوم کو جہاں معماران پاکستا ن ازبر ہیں وہاں پاکستان توڑنے کے کردار بھی نہ صرف ان کے حافظے میں زندہ ہیں بلکہ قوم اپنے سینے میں ان مکروہ کرداروں کے لیے بے پناہ نفرت و حقارت کے جذبات رکھتی ہے اورتاریخ انسانی کی یہ کڑوی حقیقت نوشتہ دیوار ہے کہ قومیں اپنے دشمنوں کو کبھی معاف نہیں کیاکرتیں۔
انیسویں صدی کے اواخر میں دو قومی نظریہ پوری شدومد سے پیش کیاگیاکہ قومیں مذہب کی بنیادپر بنتی ہیں،وطن نامی تازہ خداؤں کے عبادت گزاروں نے اس کی تردید کی اور ثقافت،زبان اورتہذیب کے مصالحے سے قوموں کی تعمیرگرداننے کی کوشش کی۔بیسویں صدی کے آغازمیں بالشویک انقلاب نے اس نظریے کاابطال کردیاکہ مختلف مذاہب کے حامل اشتراکیت کی چھتری تلے جمع ہو گئے تھے۔14اگست1947کوایک دفعہ پھر اس نظریے میں حیات نو درآئی کہ ایک زبان،ایک،رنگ اور ایک ہی تہذیب و ثقافت کے حامل محض مذہب کی بنیاد پر جداہو گئے تھے اور دنیاکے نقشے پر اسلامی نظریہ حیات کے نام کی ایک ریاست وجود میں آ گئی تھی۔17دسمبر1971کو نااہل،نالائق،نااہل،بے دین،حب الوطنی سے بیزارا،ذہنی غلامی کی ماری ہوئی بدکرداراور شراب کے نشوں میں دھت بدمست قیادت کے ہاتھوں مسلمانوں کی سینکڑوں سالہ شاندارعسکری تاریخ پرایک قبیح و غلیظ داغ لگاجس کے نتیجے میں دوقومی نظریہ ایک بار پھر مجروح ہواکہ مذہب کے نام پر مل کررہنے والے قومیت کی بنیاد پرجدا ہو گئے۔1989میں متحدہ ریاست ہائے روس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوا اور جہاد افغانستان کے ثمرات کے طورپر چھ مسلمان ریاستوں نے امت مسلمہ کی ٹھنڈی چھاؤں میں پناہ لی اور ایک بار پھر دنیاکے سامنے دوقومی نظریہ بارآور ہوا کہ ستر سالوں تک جبرکے تحت رکھے گئے ایک ہی تہذیب و تمدن و معاشرت کے لوگ بالآخراپنے سچے دین کا نعرہ تکبیر لگاتے ہوئے اپنی اصل سے آن ملے۔
برصغیرپاک و ہند کے سیاسی حلقوں میں پروفیسرغلام اعظم،دوقومی نظریے،پاکستان کے خالق نظریے،کے ایک سپاہی کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔تقسیم پاکستان کی مخالفت ان کا بہت بڑاجرم ہے،یہ وہی فرد جرم ہے جو وقت کے طاغوت نے ہر محب وطن پر عائدکی ہے۔محسنوں کو غداربنانے کی رسم اورجاں فروشوں کو پاگل و مجنوں سمجھنے کی ریت کوئی نئی نہیں ہے،انبیاء کی تاریخ سے تحریک پاکستان تک اور قائداعظم ؒبانی پاکستان سے ڈاکٹر قدیرخان محسن پاکستان تک تاریخ نے یہ مرحلے کئی دفعہ دہرائے ہیں۔7نومبر1922کو پیداہونے والے پیرانہ سال پروفیسرغلام اعظم دوقومی نظریے سے وفاکی پاداش میں آج بنگلہ دیش کی حکومت کے زیرعتاب ہیں۔بنگلہ دیش میں وہ ایک دینی و سیاسی جماعت کے سربراہ بھی رہے اور ایک طویل عرصے تک انہوں نے اس ملک مین سیاسی خدمات بھی انجام دیں،لیکن1971کے بحران میں اپنے سچے موقف،تقسیم پاکستان کی مخالفت،پر ڈٹے رہنے کی سزاانہیں ملی اوروہ پابندسلاسل داعی اجل کولبیک کہ چکے۔مکتی باہنی کے ہاتھوں اپنے سینکڑوں نہیں ہزاروں نوجوانوں کی شہادت کے باوجود ان پر جنگی جرائم کا بے ہودہ الزام دھراگیااور1994میں بنگلہ دیش کی عدالت عالیہ سپریم کورٹ نے فیصلہ بھی دیاکہ پروفیسرغلام اعظم پر جنگی جرائم کا کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکااس کے باوجود پہلے تو وقتاََفوقتاََان پر عتاب شاہی نازل ہوتارہالیکن 11جنوری2012سے انہیں باقائدہ گرفتارکرلیاگیا۔حکومت کی ملکی اداروں پرعدم اعتماد کی اس سے بڑھ کراورکیامثال ہو گی کی عدالت عالیہ کے فیصلے کے بعداب کی بار انہیں ”انٹرنیشنل کرائم ٹرائبیونل“کے سامنے پیش کیاگیاہے۔بنگلہ دیش میں بھارت پسند گروہ اس حد سرگرم ہے کہ وہاں کے ایک باسی کو 88سال کی بزرگ عمر میں بھی دہائیوں پر محیط گزشتہ ناکردہ گناہوں کی لپیٹ میں لیاگیاہے،یہ سیکولرازم کااصل چہرہ ہے جہاں پر انسانیت بالکل ہی ناپیدہے۔
حیرانی کی بات ہے کہ نام نہاد”بین الاقوامی برادری“نے ایک ”انٹرنیشنل کرائم ٹرائبیونل“بنگلہ دیش بھیج دیاہے جو وہاں پر سالہاسال پہلے ہونے والے ایک خونین ڈرامے کے کرداروں پر چھان بین کرے گالیکن کشمیرپر منظور ہونے والی قرارداراور کشمیریوں پرتوڑے جانے والے مظالم کے پہاڑ انہیں ابھی بھی نظر نہیں آتے۔بھارتی برہمنیت کے ناک کے نیچے پرورش پانے والے یورپی سیکولرازم کے دہرے معیارات اب دنیاکے سامنے بتدریج کھلتے جارہے ہیں۔اس ”انٹرنیشنل کرائم ٹرائبیونل“نے بھی بنگلہ دیش میں سیکولربدمعاشوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے مسلمان نوجوانوں کے ذمہ داروں پر ہاتھ نہیں ڈالا بلکہ ایک اسلام پسند سیاسی راہنماکی درخواست ضمانت مستردکرکے توانہیں پابندسلاسل کیااور ان پرالزام لگایا کہ وہ ”انسانیت اورا من“کے خلاف جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں،گویاجوچاہے آپ کا حسن کشمہ ساز کرے۔پروفیسرغلام اعظم کی گرفتاری کے تین ہی گھنٹوں کے بعد انہیں بنگ بندھو شیخ مجیب میڈیکل یونیورسٹی کے اسپتال منتقل کرناپڑا کہ ان کی صحت اس کربناک اور انسانیت دشمن فیصلے کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔ان کی زوجہ محترمہ سیدہ عفیفہ اعظم کے بیان کے مطابق انہیں اسپتا ل کے جیل خانے میں رکھاگیاہے جہاں ان کی خاطر خواہ علاج نہیں کیاگیا اور وہ علالت کے باعث بہت کمزورہوگئے ہیں اور بزرگی کی عمر میں ان کا وزن بھی تین کلوگرام تک کم ہو گیاتھا اور حکومت کی طرف سے رشتہ داروں اور وکیلوں سے ملاقات میں روڑے اٹکائے جاتے رہے۔کسی اسلام پسند راہنما کے معاملے پر انسانیت کاراگ الاپنے والے سیکولرازم کے پروردہ ”دانشوروں“ کی زبان بند کیوں ہو جاتی ہے؟؟؟۔اس موقع پر ایک خاتون پر زیادتی پر پوری دنیامیں شور مچانے والے وائٹ ہاؤس اور اقوام متحدہ کے ادارے خاموش کیوں رہ جاتے ہیں،کیااب بھی اس میں کوئی شک ہے کہ عالمی طاقتوں کی اعلان کردہ جاری جنگ کسی طرح کی تہذیبی کشمکش نہیں ہے بلکہ مذہبی جدال ہے جو کہ اسلام کے خلاف جنگ کے طور پر اعلان کیا گیاہے۔
بنگلہ دیش کی حکومت اس بات کی براہ راست ذمہ دار ہے کہ ایک بزرگ سیاستدان کے ساتھ انتہائی غیرانسانی سلوک روارکھاگیا۔انٹرنیشنل بارایسوسی ایشن،ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی بنگلہ دیشی حکومت سے اس معاملے پر احتجاج کیا اور حکومتی رویے کومستردکیا۔انٹرنیشنل یونین آف مسلم سکالرزکے راہنمااوراسلامی دنیاکے عظیم مفکریوسف القرضاوی مرحوم نے بھی پروفیسرغلام اعظم کی گرفتاری کی مذمت کی تھی اورحکومت بنگلہ دیش سے مطالبہ کیاتھا کہ انہیں فوری طورپر رہاکیاجائے اور اپنے بیان میں انہوں نے مزید کہاتھا کہ چالیس سالہ قدیم مقدمات کوازسرنوزندہ کرناایک بدترین قسم کی بددیانتی ہے۔ہندوستان کے امیرجماعت اسلامی سیدجلال الدین عمری مرحوم نے بھی بھارتی شہری ہونے کے باوجود جرات کامظاہرہ کرتے ہوئے بنگلہ دیشی حکومت کے اس اقدام کی مخالت کی تھی۔پاکستان کے بزرگ سیاستدان اورسابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمدمرحوم نے بھی بنگلہ دیشی حکومت سے پروفیسرغلام اعظم کی رہائی کامطالبہ کیاتھا۔
پروفیسرغلام اعظم مرحوم سمیت اس وقت تک سینکڑوں لوگ پاکستان سے محبت کی سزابھگت چکے ہیں اور ان کا جرم صرف دوقومی نظریے کادفاع ہے کہ انہوں نے نسلی ولسانی امتیازکو مسترد کرتے ہوئے ایک کلمے کی بنیادپر اتحادواتفاق کی حمایت کی تھی اور تفریق و تخریب سے برات کااظہارکیاتھا۔بنگلہ دیشی حکومت کو یہ بات زیب نہیں دیتی کی ایک سیکولراور فاشسٹ ریاست کے ایماپر اپنی دینی برادری کے ارکان پر اس قدر ظلم و ستم کے رویے جاری کرے کہ دنیاکے شرق و غرب سے صدائے احتجاج بلند ہونے لگے۔برہمن کاکرداراگرچہ پاکستان کو دولخت کر نے میں کامیاب ہوگیالیکن پاکستانیوں کو پھر بھی دولخت نہیں ک کرسکا،اور ہندوستان کی دھرتی ماتاتوآج بھی منقسم ہی ہے۔بنگلہ دیش سمیت کل مسلمان ممالک کی قیادتوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ امت کے اتحادکاوقت بہت قریب آن لگاہے اوریہ نوشتہ دیوار ہے کہ آنے والا کل امت مسلمہ کی میراث ہے،جوچاہے اسے پڑھ لے۔ایک اسلامی ملک کو دلخت کرنے والوں کے سینوں پر بہت جلدسانپ لوٹنے کوہیں کہ شرق تا غرب کل مسلمان ممالک ایک خلافت اسلامیہ کے جھنڈے تلے جمع ہواچاہتے ہیں۔ختم نبوت اس کرہ ارض پر آخری خدائی فیصلہ ہے جو بہرصورت نافذ ہوکر رہناہے خواہ مشرکین کو کتناہی ناگوار کیوں نہ گزرے اور جبل الطارق کی فضاایک بار پھر دھوئیں سے معطر ہونے کوہے کہ مسجدقرطبہ سے صدائے بلالی بس آئی کہ آئی،انشاء اللہ تعالی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...