شیخ مجیب الرحمٰن 17 مارچ 1920ء کو ضلع فرید پور میں پیدا ہوئے۔ 1947ء میں اسلامیہ کالج کلکتہ سے تاریخ اور علم سیاسیات میں بی-اے کیا۔ طالب علمی ہی کے زمانے سے انہوں نے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔
1943ء سے 1947ء تک وہ کل ہند مسلم لیگ کی کونسل کے رکن رہے۔
1945ء تا 1946ء وہ اسلامیہ کالج کے طلبہ کی یونین کے جنرل سیکرٹری رہے۔ 1946ء میں بنگال اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔
1947ء میں پاکستان بننے کے فوراً بعد مسلم لیگ سے مستعفی ہو کر پاکستان مسلم اسٹوڈنٹس لیگ قائم کر کے اردو کی مخالفت کرنا اس بات کو ظاہر کر دیتا ہے کہ شیخ مجیب شروع ہی سے مسلم قومیت کی بجائے بنگالی قومیت کے علمبردار تھے اور انہوں نے مسلم لیگ کے بہت سے دوسرے رہنماؤں کی طرح مسلم لیگ کا ساتھ محض اس لیے دیا کہ وہ اس زمانے میں مقبول تحریک تھی۔
اور اس میں شامل ہو کر اقتدار حاصل کیا جا سکتا تھا۔
عوامی لیگ
مجیب 1949ء میں طالب علم رہنما کی حیثیت سے
1952ء میں جب حسین شہید سہروردی نے عوامی لیگ قائم کی تو مجیب الرحمن نے اس کی تشکیل میں حصہ لیا۔ 1953ء میں وہ عوامی لیگ کے جنرل سیکرٹری ہو گئے اور مارچ 1954ء کے انتخابات میں وہ جگتو فرنٹ کے امیدوار کی حیثیت سے مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1956ء میں آئین کی تیاری میں انہوں نے حصہ لیا لیکن اس آئین میں صوبائی خود مختاری کی جو حدود مقرر کی گئی تھیں مجیب الرحمن اس سے متفق نہیں تھے۔ 1952ء میں انہوں نے عالمی امن کانفرنس، پیکنگ میں اور 1956ء میں عالمی امن کانفرنس، اسٹاک ہوم میں شرکت کی۔ اسی سال کے آخر میں وہ پارلیمانی وفد کے سربراہ کی حیثیت سے اشتراکی چین بھی گئے۔ فروری 1966ء میں انہوں نے پہلی مرتبہ نیشنل کانفرنس لاہور کے اجلاس میں چھ نکات پیش کیے۔
بنگلہ دیش کا قیام
مارچ 1971ء میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے
مجیب الرحمن اپنی انتہا پسندانہ سرگرمیوں کی وجہ سے کئی مرتبہ گرفتار کیے گئے۔ 1949ء میں ان کو ڈھاکہ یونیورسٹی سے نکال دیا گیا تھا اور وہ تین سال جیل میں رہے۔ اس کے بعد 1958ء اور 1959ء میں ایوب خان کے دور اقتدار میں رہے، پھر اگرتلہ سازش کے الزام میں مئی 1966ء میں گرفتار ہوئے، لیکن فروری 1969ء میں گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے بعض سیاسی رہنماؤں (جن میں ذوالفقار علی بھٹو پیش پیش تھے) کے دباؤ ڈالنے پر ان کو رہا کر دیا گیا اور مقدمہ واپس لے لیا گیا۔ دسمبر 1970ء میں جب پاکستان کے عام انتخابات ہوئے تو شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے بے مثال کامیابی حاصل کر کے مشرقی پاکستان کی نمائندگی کا آئینی حق حاصل کر لیا اور پاکستان کا نیا آئین چھ نکات کی بنیاد پر بنانے کا اعلان کیا جب صدر یحییٰ خان نے دستور ساز اسمبلی کا اجلاس طلب نہیں کیا تو مارچ 1971ء میں مجیب الرحمن نے عدم تعاون کی تحریک شروع کر دی جس کی وجہ سے 25 مارچ 1971ء کو فوج نے ان کو گرفتار کر لیا اور مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی شروع کر دی۔ دسمبر 1971ء میں جب یہ کارروائی ناکام ہو گئی اور ڈھاکہ میں پاکستانی فوجیوں نے مجیب الرحمن کی حمایت میں لڑنے والے بھارتی فوجوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تو 8 جنوری 1972ء کو مجیب الرحمن کو رہا کر دیا گیا اور وہ لندن اور دہلی کے راستے 10 جنوری کو ڈھاکہ پہنچے اور 12 جنوری کو انہیں بنگلہ دیش کا وزیر اعظم نامزد کر دیا گیا۔
بطور حکمران
کیونکہ عوامی لیگ سوشلزم اور سیکولر ازم کی حامی تھی، اس لیے بنگلہ دیش کی حکومت نے انہی بنیادوں پر اصلاحات کا کام شروع کیا۔ پٹ سن، کپڑے سازی اور جہاز سازی کی صنعتوں کی قومی ملکیت میں لے لیا گیا۔ نیا آئین سال بھر کے اندر تیار کر لیا گیا جس کے تحت بنگلہ دیش کو ایک سوشلسٹ اور سیکولر جمہوریہ قرار دیا گیا۔ نئے آئین کے تحت مارچ 1973ء کے انتخابات میں عوامی لیگ نے 300 میں سے 292 نشستوں پر قبضہ کر لیا۔ شیخ مجیب الرحمن نے ان تمام جماعتوں (بالخصوص جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ) کو جنہوں نے وحدت پاکستان کے لیے کام کیا تھا، خلاف قانون قرار دے دیا۔
مجیب الرحمن نے ہندوستان سے خصوصی تعلقات قائم کیے کیونکہ بنگلہ دیش کو پاکستان سے الگ کرانے میں سب سے بڑا ہاتھ ہندوستان کا تھا۔ چنانچہ 1973ء میں ہندوستان سے دوستی کا معاہدہ کیا گیا۔ ہندوستان نے اپنی امداد کی بھاری قیمت وصول کی۔ ہندوستانی فوجیوں نے بنگلہ دیش خالی کرنے سے پہلے بے شمار کارخانوں کی مشینیں ہندوستان منتقل کر دیں۔ خصوصی مراعات کی وجہ سے تجارتی معاملات میں ہندوستان کو برتری حاصل ہو گئی اور بنگلہ دیش کی معیشت ہندوستان کی محتاج ہو گئی۔ سازگار فضا دیکھ کر مغربی بنگال کے ہندوؤں نے بھی مشرقی پاکستان واپس آنا شروع کر دیا۔ 1974ء میں ملک میں زبردست قحط پڑا۔
آخری ایام
15 اگست 1975ء کو شیخ مجیب کو قتل کر دیا گیا
ان تمام اسباب نے بنگلہ دیش میں ایک بار پھر بے چینی پیدا کی لہر دوڑا دی اور عوامی لیگ اور مجیب الرحمن کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں۔ مجیب الرحمن نے اس بے چینی کو سختی سے دبانا چاہا۔ دسمبر 1974ء میں ہنگامی حالات کا اعلان کر دیا گیا اور آئینی حقوق معطل کر دیے گئے۔ آئین میں بھی کئی ترمیمیں کی گئیں، ملک میں صدارتی نظام نافذ کر دیا گیا اور جنوری 1975ء میں مجیب الرحمن صدر ہو گئے اور محمد منصور علی کو وزیر اعظم بنا دیا گیا ۔ مجیب الرحمن نے ان ترمیموں کے ذریعے سارے اختیارات خود حاصل کر لیے۔ بنگالی جو فطرتاً جمہوریت پسند واقع ہوئے ہیں، اس جبر و استبداد کو برداشت نہیں کر سکے اور فوج نے بغاوت کرکے 15 اگست 1975ء کو مجیب الرحمن کو ان کے اہل خانہ قتل کر دیا۔ صرف ان کی دو بیٹیاں شیخ حسینہ اور شیخ ریحانہ زندہ بچیں جو مغربی جرمنی میں تھیں۔ شیخ حسینہ واجد بعد ازاں ملک کی وزیر اعظم بھی بنیں۔۔