عرضِ مصنف: شیخ مجیب الرحمٰن ( 1920-1975) پاکستان کی تاریخ کی اہم اور متنازعہ شخصیتوں میں سے ایک ہیں۔ لیکن اُتنا ہی ہم شیخ مُجیب الرحمٰن کے بارے میں کم جانتے ہیں۔ شیخ مجیب الرحمٰن کی سیاسی زندگی کو پاکستان کے حوالے سے دو حصّوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک قیامِ پاکستان سے پہلے اُن کا تحریکِ پاکستان میں کردار دوسرا قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کی سیاست میں اُن کا کردار۔ اب اس کے بارے میں کیا کہا جائے کہ پاکستان میں اسکولوں اور کالجوں میں تاریخ نہیں پڑھائی جاتی۔ تاریخ کے مضمون کو “مطالعہ پاکستان” سے تبدیل کردیا گیا ہے۔ معروف تاریخ دان عائشہ جلال کے مطابق پاکستان میں اسکولوں میں تاریخ کی بجائے آئیڈیالوجی پڑھائی جاتی ہے۔ تو جو باتیں یا شخصیتیں اس آئیڈیالوجی کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتیں اُن کا ذکر غائب کر دیا جاتا ہے۔ نتیجتاً ہم قیامِ پاکستان اور پاکستان کے بعد کی تاریخ کے بارے میں نامکمل معلومات رکھتے ہیں۔
مندرجہ ذیل مضمون شیخ مجیب الرحمٰن کی خود نوشت “ادھوری یادیں” کا خلاصہ ہے)
“ادھوری یادیں” شیخ مجیب الرحمٰن کی اُن چار نوٹ بُکس پر مشتمل ہیں جو اُنھوں نے 1967 میں جیل میں قید رہتے ہوئے تحریر کی تھیں۔ اس کتاب کا نام “ادھوری یادیں” شائد اس لئے رکھا گیا ہے کہ یہ اُن کی مکمل سیاسی زندگی کا احاطہ نہیں کرتیں۔ اس کتاب میں مجیب الرحمٰن نے اپنی زندگی کے 1955 تک کے واقعات درج کئے ہیں۔ اس لئے اُن کو مکمل یادداشتیں نہیں کہا جاسکتا۔ اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ 16 دسمبر، 1971کے بعد شیخ مجیب الرحمٰن زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہے۔ بنگلہ دیش بننے کے قریباً چار سال کے اندر ہی 15 اگست، 1975 کو چند فوجی افسران کے گروپ نے اُن کو قتل کردیا تھا۔ اس واقعے میں کُل سولہ افراد کو قتل کیا گیا تھا۔ مرنے والوں میں اُن کے تین بیٹے بھی شامل تھے۔لیکن شیخ مجیب الرحمٰن کی صاحبزادی شیخ حسینہ واجد ( جو بنگلہ دیش کی موجودہ وزیرِ اعظم ہیں) اُس وقت ملک سے باہر تھیں۔ حسینہ واجد نے جلاوطنی اختیار کی اور چھ سال بعد 1981 میں اپنے وطن واپس لوٹیں۔ شیخ حسینہ واجد نے بنگلہ دیش کی سیاسی تاریخ میں طویل سیاسی جدّوجہد کی۔ حسینہ واجد 1996 میں پہلی دفعہ بنگلہ دیش کی وزیرِ اعظم بنیں اور 2001 تک اپنی مُدّت پوری کی۔ اُس کے بعد ہونے والے انتخابات میں اُن کو شکست ہوئی۔ اُس کے بعد 2009 میں حسینہ واجد دوبارہ وزیرِ اعظم بنیں اور اب تک بنگلہ دیش کی وزیرِ اعظم ہیں۔
25 مارچ 1971 کی نصف شب کو جب شیخ مجیب الرحمان نے آزادی کا اعلان کیا تو اس کے کچھ ہی دیر بعد دھان منڈی 23 نمبر سڑک پر واقع اُن کے گھر پر پاکستانی فوج نے چھاپہ مارا اور اُن کو گرفتار کر کے لے گئی۔ اُس وقت حسینہ واجد کے بقول اُن کے مکان میں لوٹ مار کی گئی اور اُن کی والدہ نے اپنے دو بیٹوں سمیت پڑوس میں پناہ لی۔ لیکن یہ نوٹ بُکس بے ضرر سمجھ کر چھوڑ دی گئیں۔
15 اگست 1975 کو جب شیخ مجیب الرحمٰن کو جب قتل کیا گیا تھا تو اُس وقت سے اُن کے گھر کو سیل کردیا گیا تھا۔ 17 مئی، 1981 کو حسینہ واجد جلا وطنی ترک کرکے بنگلہ دیش واپس آگئیں۔ اُسی سال 12 جون کو اُن کا مکان اُن کے حوالے کردیا گیا۔ اُس وقت اُن کو اپنے والد صاحب کی یادداشتیں، اُن کی ڈائریاں، اور چین کے سفر کے بارے میں لکھی گئی اُن کی نوٹ بُکس تو مل گئیں لیکن اُن کی خود نوشت پر مُشتمل نوٹ بُکس نہیں مل سکیں۔ قریباً 2004 میں اُن کو یہ چار نوٹ بُکس مل گئیں لیکن اُسی سال 21 اگست کو اُن کی ریلی پر گرینیڈ سے حملہ کیا گیا جس میں وہ محفوظ رہیں۔ اُس کے بعد اُن کو مجیب الرحمٰن کی مزید نوٹ بُکس ملیں۔ اس کتاب کو سب سے پہلے بنگلہ زبان میں تحریر کیا گیا اور 2010 میں اس کی اشاعت ہوئی۔ اس کتاب کا انگریزی ترجمعہ 2012 جبکہ اُردو ترجمہ 2013 میں اوکسفورڈ یونیورسٹی پریس پاکستان نے شائع کیا۔ اُردو ترجمعہ یاور امان نے کیا ہے۔ اس کتاب کا کئی اور زبانوں میں بھی ترجمہ کیا گیا جس میں چینی، جاپانی، فرنچ، ہندی، تُرکی، عربی، اور ہسپانوی زبانیں شامل ہیں
اس کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا حصہ کتاب کا وہ ہے جس میں شیخ مجیب الرحمٰن نے اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں بتایا ہے اور تحریکِ پاکستان کی جدوجہد میں اپنی شرکت کے بارے میں بتایا ہے۔ مجیب الرحمٰن نے اپنے علاوہ بنگال کئی شخصیات کا تزکرہ کیا ہے۔ ان میں فضلِ حق، حسین شہید سہروردی، خواجہ ناظم الدین، اور مولانا بھاشانی کے نام نمایاں ہیں۔ کتاب میں مجیب الرحمٰن کا جھکاؤ واضح طور پر حسین شہید سہروردی اور مولانا بھاشانی کی طرف دیکھا جا سکتا ہے۔
1938 میں فضلِ حق صاحب جو اُن دنوں بنگال کے وزیرِ اعلی تھے اور حسین شہید سہروردی جو اُن دنوں وزیرِ محنت تھے اُن کے علاقے گوپال گنج میں آئے۔ فضلِ حق اُن دنوں مسلم لیگ میں شامل ہوئے تھے اس لئے بنگال میں ایک طرح سے مسلم لیگ کی وزارت قائم ہوگئی تھی۔ مجیب الرحمٰن اُن دنوں اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اعصابی ورم کی وجہ سے اُن کا دل کمزور پڑ گیا تھا جس کا علاج کرانے کی غرض سے اُن کے والد اُن کو کلکتہ لے گئے۔ بعد ازاں اُن کی آنکھوں میں کالا پانی اُتر آیا جس کے لئے اُن کو پھر کلکتہ جانا پڑا۔ اس کی وجہ سے اُن کو پڑھائی چھوڑنا پڑی ۔ تو وہ اسکول کی پڑھائی میں پیچھے رہ گئے تھے۔ چونکہ بنگال کے مسلمانوں کے دو ممتاز رہنما آ رہے تھے اس لیے وہاں کے مسلمانوں میں جوش و خروش پایا جاتا تھا۔ شروع میں استقبالیہ کمیٹی میں ہندوؤں کو بھی شامل کیا گیا تھا لیکن کانگریس کے اشارے پر وہ اس سے الگ ہوگئے۔ اُس وقت جلسہ کے علاوہ ایک نمائش کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔فضلِ حق صاحب پبلک ہال اور سہروردی صاحب مشن اسکول دیکھنے گئے۔ مشن اسکول میں شیخ مجیب الرحمٰن نے اُن کا استقبال کیا جس کی وجہ سے اُن دونوں حضرات کا آپس میں تعارف ہوا۔ سہروردی صاحب نے مجیب سی پوچھا کہ اُن کے علاقے میں مسلم لیگ کی تنظیم ہے؟ جس کا اُنھوں نے نفی میں جواب دیا۔ اُنھوں نے مزید بتایا کہ یہاں مسلم طلبا لیگ بھی نہیں ہے۔ اُس وقت سہروردی صاحب نے ایک نوٹ بُک نکال کر مجیب الرحمٰن کا نام اور پتہ لکھ لیا۔ کچھ دنوں بعد مجیب کو اُن کا خط موصول ہوا جس میں اُنھوں نے مجیب کا شکریہ ادا کیا تھا اور لکھا تھا کہ اگر کبھی کلکتہ آنا ہو تو وہ اُن سے آکر ملیں۔ مجیب الرحمٰن نے اُن کے خط کا جواب دیا اور اس طرح شیخ مُجیب الرحمٰن اور حسین شہید سہروردی کے درمیان خط و کتابت کا آغاز ہوا۔
جنگِ عظیم دوئم کے برسوں میں فضلِ حق اور جناح صاحب کے تعلقات میں کشیدگی آگئی تھی۔ فضلِ حق نے جناح صاحب کی لیڈرشپ ماننے سے انکار کیا اور بنگال میں شیاما پرشاد مکھرجی سے مل کر متحدہ حکومت بنالی۔ مسلم لیگ اور اُس کے کارکنوں نے اُن کے خلاف تحریک شروع کی جس میں مجیب الرحمٰن نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 1942 میں مسٹر جناح صوبائی مسلم لیگ کے اجلاس میں شرکت کے لئے بنگال آئے۔ یہ اجلاس سراج گنج پبنہ میں ہونا تھا۔ مجیب الرحمٰن نے پارٹی کارکنوں کے ہمراہ اس اجلاس میں شرکت کی۔
اس دوران وہ اسلامیہ کالج میں زیرِ تعلیم تھے اور طلبہ میں بہت مقبول ہوگئے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ طلبہ یونین کے انتخابات میں اُن کے نامزد کردہ اُمیدوار نے کامیابی حاصل کی۔ بعد میں اُن کے نامزد کردہ اُمیدوار بلا مقابلہ منتخب ہونے لگے۔ مجیب کے بقول خواجہ ناظم الدّین نے اقربا پروری کی۔ 1937 کے انتخابات میں خواجہ ناظم الدّین کے خاندان کے کم از کم گیا ارکان ایم ایل ایز منتخب ہوئے۔ پھر 1943 میں جب وہ وزیرِ اعلی بنے تو اُنھوں نے اپنے چھوٹے بھائی خواجہ شہاب الدّین کو وزیرِ صنعت بنا دیا۔ مجیب الرحمٰن نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس عمل پر اعتراض کیا لیکن اُن کے اعتراض کو اہمیت نہیں دی گئی۔ اُس زمانے میں بنگال میں قحط پڑا جو شِدّت اختیار کر گیا۔ مجیب الرحمٰن نے اس سلسلے میں حسین شہید سُہروردی، جو سِول سپلائی کے وزیر تھے، کے ساتھ مل کر کام کیا۔ اُس زمانے میں انگریزوں کہ پہلی ترجیح جنگ تھی، انسان ثانوی حیثیت رکھتے تھے۔ چنانچہ ریل گاڑیوں میں پہلے اسلحہ اور گولہ بارود بھرا جاتا۔ اس کے بعد بچ جانے والی جگہ ہی اناج کی منتقلی کے لئے استعمال ہو سکتی تھی۔ مجیب الرحمٰن لکھتے ہیں کہ یہ اُس ریاست کی حالت تھی جو ایک زمانے میں اتنی امیر ہوا کرتی تھی کہ اُس کا ایک مالدار تاجر لندن شہر خرید سکتا تھا۔
اُس وقت حسین شہید سُہروردی نے لنگر خانے کھولنے کا بندوبست کیا جس میں شیخ مُجیب الرحمٰن نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس سلسلے میں اُن کو اپنی پڑھائی کا سلسلہ بھی ترک کرنا پڑا۔ مجیب الرحمٰن کے آبائی علاقہ گوپال گنج کے ساتھ ہی ضلع جیسور، کھلنا، اور باریسال واقع تھے۔ مجیب الرحمٰن نے اُن علاقوں کی طرف توجہ دلانے کے لئے مسلم لیگ کی ایک کانفرنس بھی منعقد کی۔ اس کے علاوہ یہ مقصد بھی تھا کہ لوگوں میں قیامِ پاکستان کے بارے میں آگاہی پیدا کی جائے اور اُن میں پاکستان کی حمایت کا جزبہ پیدا کیا جائے۔ وہ لوگوں پر پاکستان کا تصور واضح کرنے کے لئے ہندوستان کا ایک نقشہ ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ بنگال میں اگرچہ مسلمانوں کی اکثریت تھی لیکن ہندوؤں کی بھی کثیر تعداد موجود تھی۔ مجیب الرحمٰن کی کئی ہندوؤں سے دوستی تھی۔ لیکن ایک بات اُنھوں نے محسوس کی کہ اُن کے ہندو دوست اُن کے گھر تو آجاتے تھے لیکن اُن کو اپنے گھر نہیں بلاتے تھے۔ انگریزی زبان نا سیکھنے کی وجہ سے اُس زمانے کے مسلمان ہندوؤں سے بہت پیچھے رہ گئے تھے۔ مجیب الرحمٰن یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان کا مطالبہ ہندوؤں کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ مسلمانوں اور ہندوؤں دونوں کے مفادات کا تحفّظ کرے گا۔ اگر دیکھا جائے تو مسلم لیگ نے جس پاکستان کا مطالبہ کیا تھا اُس میں پورا بنگال اور پورا پنجاب شامل تھا۔ اگر ایسا ہو جاتا تو پاکستان میں %40 کے لگ بھگ آبادی ہندوؤں اور سکھوں کی ہوتی۔ اس صورت میں پاکستان کی تشکیل ایک مسلم سیکولر ریاست کی شکل میں ہوتی۔ جیسے کہ ملائیشیا میں ہے۔
1943 میں دلّی میں آل انڈیا مسلم لیگ کانفرنس ہوئی جس میں شیخ مجیب الرحمٰن نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں شرکت کرکے اُن کو مسلم لیگ کے مرکزی رہنماؤں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اُن کے مطابق اس کانفرنس میں ایک مُقرر نے تین گھنٹے اُردو میں تقریر کی۔ اُن کی تقریر گونجدار اور کے اشاروں سے کام لینے کا انداز زبردست تھا۔ مجیب کو اُردو تھوڑی بہت تو آتی تھی لیکن اس مقرر کی اُردو اُن کے لئے بہت مُشکل تھی۔ وہ مُقرّر نواب بہادر یار جنگ تھے جن کا تعلق حیدرآباد دکّن سے تھا۔ اور وہ ریاستی مسلم لیگ کے صدر تھے۔ اُنھوں نے دلّی کی مشہور جگہیں جیسے لال قلعہ، جامع مسجد، قطب مینار بھی دیکھیں۔
اُس زمانے میں بھی مسلم لیگ اور طلبا لیگ دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔ ایک دھڑا سہروردی صاحب کے ساتھ تھا جبکہ دوسرا خواجہ ناظم الدّین کے ساتھ۔ مجیب الرحمٰن جب سبھاش چندر بوس کی تقریریں ریڈیو پر سُنتے تو بہت پُرجوش ہوجایا کرتے تھے۔ اپنی یادداشتوں میں مجیب الرحمٰن نے کئی ہندو شخصیات کا ذکر مُثبت انداز میں کیا ہے۔ اُن ہی میں سے ایک نارائن بابو تھے۔ نارائن بابو اسلامیہ کالج میں سائنس کے اُستاد تھے اور غریب طلبا کی مدد کے لئے قائم فنڈ کے انتظام و انصرام کے ذمّہ دار تھے۔ حالانکہ نارائن بابو ہندو تھے اور اسلامیہ کالج کے تقریباً تمام طالبِ علم مسلمان، پھر بھی اُن کو یہ ذمّہ داری تفویض کی گئی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک مثالی اُستاد تھے۔ وہ ہندو یا مسلم کی کوئی تمیز نہیں کرتے تھے۔
اُس وقت روزنامہ “آزاد” بنگالی زبان کا واحد اخبار تھا جو مسلم لیگ کی تائید کرتا تھا۔ لیکن کچھ اختلافات کی بنا پر وہ مجیب الرحمٰن اور اُن کے ساتھیوں کی خبریں شائع نہیں کرتا تھا۔ اس لئے اپنے پیغام کو پھیلانے کی خاطر اُن کو اخبار کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اُنھوں نے ہفت روزہ نکالنے کا فیصلہ کیا۔ اس اخبار کو مسلم لیگ کے دفتر کی نچلی منزل میں قائم کیا گیا۔ اخبار کا نام “ملّت” رکھا گیا۔ یہ اخبار مقبول ہوا اور ہندوؤں کی بھی بڑی تعداد یہ اخبار پڑھتی تھی۔
1946 میں انتخابات ہوئے جس میں شیخ مجیب نے بڑھ چڑھ کر مُسلم لیگ کے لئے کام کیا۔ بنگال کی اسمبلی میں مسلمانوں کی 119 نشستیں تھیں۔ جب انتخابات کے نتائج آئے تو مُسلم لیگ نے 116 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ انتخابات میں خواجہ ناظم الدین کے دھڑے کے زیادہ اُمیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ مرکزی مسلم لیگ میں بھی شیخ مجیب کے مطابق لیاقت علی خان، خلیق الزماں، حسین امام، اور چندریگر، حسین شہید سُہروردی سے خائف تھے۔ شیخ مجیب کے مطابق سہروردی صاحب کے خلاف مُسلم لیگ میں در پردہ سازشیں ہوتی تھیں۔ مجیب الرحمٰن نے اپنی خود نوشت میں تزکرہ کیا ہے کہ 1937 کے انتخابات میں خواجہ ناظم الدّین کو شکست ہو گئی تھی۔ پھر حسین شہید سُہروردی نے، جنھوں نے دو نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی اپنی ایک چھوڑی جانے والی نشست پر خواجہ ناظم الدّین کو جتوایا۔ لیکن اُس کے باوجود خواجہ ناظم الدّین درپردہ حسین شہید سُہروردی کے خلاف رہتے تھے۔ بنگال کی مسلم لیگ کی سیاست کے اس پہلو سے شائد بہت کم لوگ واقف ہوں گے۔
اُس وقت ہندوستان کے گیارہ صوبے تھے۔ اُن میں سے چار مسلم اکثریتی صوبوں، بنگال، پنجاب، سندھ، سرحد میں سے صرف بنگال میں مسلم لیگ 1946 کے ہونے والے انتخابات میں بلا شرکتِ غیرے حکومت بنا پائی تھی۔ اُس وقت قائدِ اعظم نے دہلی میں 7 سے 9 اپریل کو دہلی میں مسلم لیگ کی مرکزی اور صوبائی کونسلوں کے ارکان کا کنونشن بلایا۔ بنگال اور آسام کے مسلمان اس کنونشن میں شرکت کے لئے ایک خصوصی ٹرین سے آئے جس کا انتظام حسین شہید سُہروردی نے کیا تھا۔ شیخ مُجیب الرحمٰن نے بھی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس کنونشن میں شرکت کی۔
اس کنونشن میں قراردادِ پاکستان میں کچھ ردّوبدل بھی کیا گیا جس کے نتیجے میں خودمختار “ریاستوں” کا لفظ نکال کر “ریاست” کردیا گیا۔ اس موقع پر مجیب الرحمٰن نے دہلی اور اُس کے اطراف موجود تاریخی مقامات کی سیر کی۔ اُس وقت انگریزوں نے ہندوستان کے مسئلے کے حل کے لئے کیبنٹ مشن کے منصوبے کا اعلان کیا تھا۔ اس منصوبہ کے مطابق دفاع، خارجہ، اور اطلاعات کی وزارتیں وفاق کے پاس رہتیں جبکہ دیگر وزارتیں صوبوں کو واپس کردی جاتیں۔ شروع میں مسلم لیگ اور کانگریس کیبنٹ مشن کے منصوبے کو تسلیم کرتی نظر آرہی تھیں لیکن بعد میں کانگریس نے اس منصوبے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔
قائدِ اعظم نے 29 جولائی کو آل انڈیا مسلم لیگ کی کونسل کا اجلاس بمبئی میں طلب کیا لیکن شیخ مُجیب الرحمٰن مالی مُشکلات کے باعث اجلاس میں شرکت نہیں کرسکے۔ اجلاس میں قائدِ اعظم نے اعلان کیا کہ 16 اگست “راست اقدام کا دن” ہوگا۔ شیخ مجیب الرحمٰن نے اس دن کی مناسبت سے بنگال میں تقاریب مُنعقد کرنے کے انتظامات کئے۔ مسلم لیگ کی کوشش اُس دن کو پُر امن طور پر منانے کی تھی لیکن کلکتہ میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان جھگڑے ہوئے جو فسادات میں تبدیل ہوگئے۔ اس کے نتیجے میں انتظامیہ کو بالآخر کرفیو نافذ کرنا پڑا۔ بہت سے لوگ بے گھر ہوئے۔ ہندو اکثریت کے علاقوں سے مسلمانوں کو گھر چھوڑنا پڑے جبکہ مسلم اکثریت علاقوں سے ہندوؤں کو۔ شیخ مجیب کے بقول فسادات کے دوران بہت سے ہندوؤں نے مسلمانوں کو بچانے کے لئے اپنی جانیں خطرے میں ڈالیں اسی طرح مسلمانوں نے اپنے ہندو ہمسایوں کا خیال رکھا۔
شیخ مُجیب الرحمٰن کے مطابق کلکتہ کی 1400 اہلکاروں پر مُشتمل پولیس میں مسلمانوں کی تعداد صرف 50 یا 60 تھی۔ مسلمان افسر بھی نا ہونے کے برابر تھے۔اس صورت میں سہروردی صاحب کے لئے حالات پر قابو پانا بڑا مشکل تھا۔ اُنھوں نے 1000 مسلمانوں کو پولیس میں بھرتی کروانے کی کوشش کی جس کا راستہ اُس وقت کے انگریز گورنر نے روکنے کی کوشش کی لیکن سہروردی صاحب پنجاب سے سابق فوجیوں کی بڑی تعداد کو پولیس میں بھرتی کروانے میں کامیاب ہوگئے۔ کلکتہ میں فسادات رکے ہی تھے کہ نوا کھا لی میں شروع ہوگئے۔ اُس کے بعد یہ سلسلہ ڈھاکہ میں بھی پھیل گیا اور ردِ عمل میں بہار میں بھی فسادات شروع ہو گئے۔ شیخ مجیب الرحمٰن نے ان تمام جگہوں پر مسلم لیگ کے رضاکار کے طور پر کام کیا۔ اس دوران مجیب الرحمٰن نے بی اے کا امتحان پاس کیا۔
3 جون 1947 کو اعلان ہوا کہ ہندوستان کو تقسیم کردیا جائے گا۔ لیکن ساتھ ہی یہ اعلان بھی ہوا کہ بنگال اور پنجاب کو بھی تقسیم کردیا جائے گا۔ کانگریس نے اس کا خیر مقدم کیا جبکہ مسلم لیگ بنگال اور پنجاب کی تقسیم کی مخالف تھی لیکن بالآخر مسلم لیگ نے بھی اس منصوبے کو تسلیم کرلیا۔ اس سے بنگال اور آسام کے مسلمانوں میں بڑی مایوسی پھیلی۔ شیخ مُجیب الرحمٰن مزید لکھتے ہیں کہ بنگال کانگریس اور مسلم لیگ نے ایک فارمولا تیار کیا جسے مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی نے متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ بنگال ایک آزاد و خودمختار ریاست ہوگی۔ عوام ایک آئین ساز اسمبلی منتخب کرے گی جو یہ فیصلہ کرے گی کہ بنگال ہندوستان یا پاکستان میں سے کس کے ساتھ شامل ہوگا یا پھر آزاد رہے گا۔ یہ فارمولا قائدِ اعظم اور مہاتما گاندھی کے سامنے پیش کیا گیا۔ شرت بوس نے یہ تحریر چھوڑی ہے کہ قائدِ اعظم نے اُن سے کہا تھا کہ اگر کانگریس یہ فارمولا تسلیم کرنے کے لئے تیار ہے تو مُسلم لیگ کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ کانگریس نے لیکن یہ فارمولہ تسلیم نہیں کیا۔
شیخ مُجیب الرحمٰن، قائدِ اعظم کے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بننے کے فیصلے کی تائید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اُن کو شک تھا کہ پاکستان کے گورنر جنرل بننے کے بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن اسے نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ بنگال کی تقسیم کے باوجود بھی بنگال کی آبادی پورے مغربی پاکستان سے زیادہ تھی۔ اس کے علاوہ بنگال وہ واحد صوبہ تھا جس میں مسلم لیگ کی حکومت تھی اور حسین شہید سُہروردی اُس کے وزیرِ اعلی تھے۔ شیخ مجیب الرحمٰن کے مطابق پاکستان کی وزارتِ عظمیٰ پر حسین شہید سُہروردی کا حق تھا۔ لیکن سہروردی صاحب کے خلاف سازشیں شروع کردی گئیں۔ بنگال کی تقسیم کے بعد مشرقی بنگال میں دوبارہ انتخابات کروائے گئے۔ مجیب الرحمٰن نے اس میں مسلم لیگ کے کارکن کی حیثیت سے کام کیا۔ انتخابات کے نتیجے میں خواجہ ناظم الدّین وزیرِ اعلیٰ منتخب ہوئے اور اُنھوں نے ڈھاکہ کو دارلحکومت بنانے کا اعلان کیا۔ خواجہ ناظم الدّین اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ڈھاکہ چلے آئے اور اُنھوں نے مغربی بنگال کے مسلمانوں کے بارے میں لمحہ بھر کے لئے بھی نہیں سوچا۔ اسی طرح بنگال کی تقسیم کے نتیجے میں بنگال کے اثاثوں کی جو تقسیم ہونا تھی خواجہ ناظم الدّین نے اُس طرف بھی کوئی توجّہ نہیں دی۔ نتیجتاً مشرقی بنگال کا جو جائز حق بنتا تھا وہ بھی اُسے نہیں مل سکا۔ جس طرح پنجاب کی تقسیم کے وقت کئی مسلم اکثریتی علاقے ہندوستان میں شامل کر دیے گئے تھے، اُسی طرح بنگال اور آسام کو تقسیم کرتے وقت بھی کئی مسلم اکثریتی علاقے بھی ہندوستان میں شامل کر دئیے گئے تھے جن کا مجیب الرحمٰن کو کافی خلق رہا۔ اُن کو بنگال کی تقسیم کا اس وجہ سے بھی دکھ ہوا کہ اگر بنگال تقسیم نہیں ہوتا تو کلکتہ پاکستان کا دارلحکومت بنتا۔
مجیب الرحمٰن کے مطابق قائدِ اعظم جب تک زندہ رہے کسی کو بھی کھلے عام سازش کی ہمّت نہیں ہوئی، لیکن جس دن اُن کا انتقال ہوا، اسی دن سے ملک بھر میں کھل کر سازشوں کی سیاست ہونے لگی۔ تقسیم کے وقت مہاتما گاندھی کے کردار کی شیخ مجیب نے تعریف کی ہے۔ تقسیم کے وقت بنگال میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لئے حسین شہید سُہروردی نے مہاتما گاندھی کے ساتھ مل کر کام کیا۔ چونکہ مجیب الرحمٰن حسین شہید سہروردی کے ساتھ ہوتے تھے تو اُن کو مہاتما گاندھی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ شیخ مجیب الرحمٰن اور اُن کے ایک دوست یعقوب نے کلکتہ میں ہونے والے فسادات کی تصویریں کھینچی تھیں۔ اُنھوں نے اُن تصویروں کا البم بنا کر مہاتما گاندھی کو پیش کیا۔ بنگال کی تقسیم کے بعد کچھ عرصے تک حسین شہید سہروردی مغربی بنگال میں ہی رکے رہے حالانکہ اُن پر کئی بار حملے ہو چکے تھے۔ مجیب الرحمٰن بھی اُن کے ساتھ تھے لیکن بالآخر پاکستان (مشرقی بنگال) آگئے اور ڈھاکہ چلے آئے۔ اس سے قبل وہ صرف دو بار ڈھاکہ آئے تھے اور ڈھاکہ کے راستوں سے ناواقف تھے۔ اب وہ اپنی پڑھائی پر توجہ دینا چاہتے تھے اور قانون دان بننا چاہتے تھے۔
اُس وقت باریسال میں مسلم لیگ کے جلسے کا اہتمام کیا گیا جس سے شیخ مجیب الرحمٰن نے بھی خطاب کرنا تھا۔ لیکن جلسے کے دوران ہی اُن کو اپنے والد کی شدید علالت کی خبر ملی اور وہ جلسہ ادھورا چھوڑ کر اپنے والد کو دیکھنے چلے گئے۔
آل بنگال مسلم اسٹوڈنٹس لیگ کا نام بدل کر آل ایسٹ پاکستان مسلم اسٹوڈنٹس لیگ رکھ دیا گیا تھا۔ اس کی تنظیم سازی کی گئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد خواجہ ناظم الدّین نے مسلم نیشنل گارڈ کو تحلیل کرنے کے احکام جاری کئے۔ مجیب الرحمٰن کے مطابق ایسا کر کے پاکستان کو ایک منظّم ادارے سے محروم کیا گیا۔ مسلم نیشنل گارڈز میں شامل لوگوں کے تعمیری جزبہ سے کام اُٹھا کر پاکستان کے بہت کام لئے جا سکتے تھے۔ کچھ لوگوں نے اپنے طور پر مسلم نیشنل گارڈز کو چلانے کا فیصلہ کیا لیکن حکومتِ وقت نے اسے اپنے خلاف سازش سمجھا۔ ایک مقامی رہنما ظہیر الّدین کو اس کا چیف بنا دیا گیا لیکن اُن کو ڈھاکہ پہنچتے ہی پبلک سیکورٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔ اگرچہ کچھ عرصے بعد اُن کو رہا کردیا گیا لیکن لوگ خوفزدہ ہو گئے تھے۔ مجیب الرحمٰن نے محسوس کیا کہ مسلم لیگ کی حکومت آہستہ آہستہ کارکنوں سے دور ہو رہی ہے اور اُس کا دارومدار نوکر شاہی پر بڑھتا جا رہا ہے۔ اس وقت پاکستان کے لئے بہت کام کرنا تھے اور کرنے کے لئے بہت سے لوگ بھی موجود تھے لیکن اُن کی رہنمائی کرنے والا کوئی موجود نہیں تھا۔
قائدِ اعظم گورنر جنرل بن گئے تھے اس لئے چودھری خلیق الزّماں کو مسلم لیگ کا صدر بنایا گیا۔ پاکستان مسلم لیگ نے مشرقی پاکستان مسلم لیگ کو تحلیل کرکے انتظام سنبھالنے کی ذمّہ داری ایڈہاک کمیٹی کے سپرد کردی گئی۔ ایسا صرف بنگال میں کیا گیا جبکہ پنجاب کی تقسیم بھی عمل میں آئی تھی۔ شیخ مجیب کے مطابق اس کا مقصد بنگال مسلم لیگ میں خواجہ ناظم الدّین کے حمایتیوں کی اکثریت قائم کرنا تھا۔ اس عمل کے ذریعے مجیب الرحمٰن اور بہت سے مسلم لیگیوں کو تنظیم سے نکال دیا گیا۔
فروری 1948 میں کراچی میں پاکستان کی مجلسِ آئین ساز کا اجلاس ہو جس میں قومی زبان کا موضوع زیرِ بحث آیا۔ مسلم لیگ کے بیشتر ارکان، جن میں مشرقی پاکستان کے لیگی ارکان بھی شامل تھے، اُردو کو قومی زبان بنانے کے حق میں تھے۔ کومیلا کے کانگریسی رکن بابو دھریندر ناتھ دت نے بنگالی کو قومی زبان قرار دیے جانے کا مطالبہ کیا کیونکہ آبادی کی اکثریت یہی زبان بولتی ہے۔ مسلم لیگی رہنما اس پر بلکل رضامند نہیں تھے۔ بنگالیوں کی طرف سے یہ تجویز بھی پیش کی گئی کہ اردو اور بنگلہ دونوں زبانوں کو قومی زبانیں قرار دیا جائے۔ لیکن اس تجویز کو بھی نہیں قبول کیا گیا۔ مجیب الرحمٰن اُردو کو بطور واحد سرکاری زبان رائج کرنے کو بنگالیوں کے خلاف سازش قرار دیتے ہیں۔ اُردو کو بطور واحد سرکاری زبان قرار دینے کے خلاف مشرقی پاکستان میں احتجاج شروع ہوگیا جس میں شیخ مجیب الرحمٰن نے بھی حصہ لیا اور گرفتار کر لیے گئے۔ حکومت کی طرف سے یہ کہا گیا کہ بنگالی زبان کو سرکاری زبان قرار دینے کی تحریک کو سہارا دینے کے لئے کلکتہ سے ہندو طلبہ آئے تھے لیکن مجیب الرحمٰن کے بقول جو ستّر پچھتّر طلبا گرفتار ہوئے اُن میں سے ایک بھی ہندو نہیں تھا۔
اُردو کو سرکاری زبان قرار دینے کے لئے ایک دلیل یہ دی گئی کہ اُردو اسلامی زبان ہے لیکن یہ بات اُن کی سمجھ سے بالاتر تھی کہ اُردو اسلامی زبان کیسے بن گئی۔ شیخ مُجیب الرحمٰن کے الفاظ میں: “دنیا کے مختلف ممالک کے مسلمان مختلف زبانیں بولتے ہیں۔ عرب کے لوگ عربی بولتے ہیں، ایران میں فارسی بولی جاتی ہے، ترکوں کی زبان ترکی ہے، انڈونیشیا کے لوگ انڈونیشی زبان بولتے ہیں، ملائیشیا کے لوگ ملائی زبان میں بات کرتے ہیں جبکہ چین کے مسلمان چینی بولتے ہیں …….غرض مجیب الرحمٰن اور دوسرے بنگالی یہ ماننے کے لئے تیار نہیں تھے کہ زبان کا مذہب کیسے ہو سکتا ہے۔
مجیب الرحمٰن سمجھتے ہیں کہ قائدِ اعظم کو زبان کے مسئلے پر بنگالی عوام کے جوش و جذبات سے بے خبر رکھا گیا اور اُن سے اُردو کو بطور واحد قومی زبان کے طور پر اپنانے کے لیے کہلوایا گیا۔ حقیقت کچھ بھی ہو زبان کے مسئلہ کی وجہ سے مشرقی اور مغربی پاکستان کے بیچ میں دراڑ پڑچکی تھی۔ لسانی تحریک کے دوران مجیب الرحمٰن ایک سیاسی شخصیت کے زیادہ قریب ہوگئے۔ اُس شخصیت کا نام مولانا بھاشانی تھا۔ مولانا بھاشانی پیدائشی بنگالی ہیں لیکن اُنھوں نے اپنی سیاست کا آغاز 1919 میں آسام سے کیا۔ وہ شروع میں انڈین نیشنل کانگریس سے وابستہ ہوئے، خلافت تحریک میں بھی حصہ لیا۔ وہ 1937 میں مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ 1944 میں آسام کی صوبائی مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے اور تحریکِ پاکستان میں اہم کردار ادا کیا۔ 1947 میں اُنھیں آسام میں گرفتار کیا گیا۔ 1948 میں رہائی ملنے پر وہ واپس مشرقی بنگال چلے گئے۔ بنگالی زبان کے لئے چلائی جانے والی تحریک میں مولانا بھاشانی نے حصہ لیا۔
اس دوران قائدَ اعظم کی وفات ہوئی تو خواجہ ناظم الدّین گورنر جنرل اور نورالامین مشرقی پاکستان کے وزیرِ اعلی بنائے گئے۔ جب تک قائدِ اعظم حیات تھے وہ طاقت کا سرچشمہ تھے اُن کے بعد لیاقت علی خان کے پاس تمام اختیارات تھے۔ مجیب الرحمٰن کے مطابق لیاقت علی خان نے ملکی معاملات کو جمہوری انداز میں نہیں چلایا۔ رفتہ رفتہ مجیب الرحمٰن مسلم لیگ سے مایوس ہوتے چلے گئے۔ بنگال کے سیاست دانوں ابوالقاسم فضلِ حق، مولانا عبدالحمید خان بھاشانی، مولانا راغب احسن جبکہ خواتین جن میں خیرات حسین، بیگم انورہ خاتون شامل تھیں نے مل کر نئی سیاسی جماعت کی بنیاد ڈالی۔ اس جماعت کو “مشرقی پاکستان عوامی مسلم لیگ” کا نام دیا گیا۔ مولانا بھاشانی کو اس جماعت کا صدر جبکہ مجیب الرحمٰن کو جوائنٹ سیکریٹری منتخب کیا گیا جبکہ مجیب الرحمٰن ابھی جیل میں ہی تھے۔
عوامی مسلم لیگ کے قیام کے چند روز بعد ہی مجیب الرحمٰن کو رہا کردیا گیا۔ ابتدا میں عوامی مسلم لیگ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے جلسوں کو کرائے کے غنڈوں کے ذریعے سبوتاژ کیا گیا۔ ابھی عوام میں عوامی مسلم لیگ کو ساکھ بنانے کے لئے بہت کام کرنا تھا۔ لوگوں کے اندر ابھی بھی مسلم لیگ کی کشش تھی۔ اس دوران حسین شہید سہروردی کلکتہ سے کراچی چلے گئے تھے۔مجیب الرحمٰن تنظیم سازی میں لگے ہوئے تھے۔ اس سلسلے میں کئی جگہ جلسے کئے گئے جس میں تصادم بھی ہوئے۔ مجیب الرحمٰن کے بقول مسلم لیگ کو عوامی لیگ کا قیام بلکل بھی گوارا نہیں تھا۔ اس دوران لیاقت علی خان بنگال تشریف لائے۔ اُنھوں نے جلسے میں اعلان کیا: “جس نے بھی عوامی لیگ کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی کوشش کی، میں اس کا سر توڑ دوں گا”۔ لیاقت علی خان حزبِ اختلاف کا وجود نہیں چاہتے تھے۔ وہ اپنے آپ کو مسلم لیگ کا وزیرِ اعظم سمجھتے تھے۔
مجیب الرحمٰن، حسین شہید سُہروردی سے ملنے مغربی پاکستان گئے جو اُن دنوں لاہور میں تھے۔ وہاں اُن کی ملاقات فیض احمد فیض سے بھی ہوئی۔ فیض احمد فیض نے اُن کی بنگلہ زبان کو قومی زبان بنانے کے مطالبے کی حمایت کی۔ مجیب الرحمٰن چاہتے تھے کہ مغربی پاکستان کے ہم خیال لوگوں کو ساتھ ملا کر عوامی لیگ کا دائرہ پورے پاکستان تک بڑھایا جائے۔ اُنھوں نے اس سلسلے میں مغربی پاکستان کی کئی شخصیات سے ملاقات کی۔ مجیب الرحمٰن کو اُردو یا پنجابی نہیں آتی تھی اس لئے اُنھوں نے اکثر جگہ انگریزی میں تقریر کی۔ بعض جگہوں پر اُن کی تقریر کا ترجمعہ کیا گیا۔ وہاں اُن کی اخباری نمائندوں سے بھی ملاقات ہوئی۔ اُن کے بارے میں اخبارات میں خبریں بھی شائع ہوئیں۔ اُنھوں نے محسوس کیا کہ اُن کی نگرانی کی جارہی ہے۔ مغربی پاکستان میں تقریباً ایک ماہ گزارنے کے بعد اُنھوں نے مشرقی پاکستان جانے کا ارادہ کیا۔ وہ پہلے دہلی گئے اور وہاں سے ریل کے سفر کے ذریعے مشرقی بنگال پہنچے۔ اُنھیں خدشہ تھا کہ اُنھیں مشرقی پاکستان میں داخل ہوتے ہی گرفتار کرلیا جائے گا۔ وہ گرفتاری سے نہیں ڈرتے تھے لیکن اس سے پہلے وہ اپنے گھر والوں سے ملنا چاہتے تھے۔ وہ کسی نا کسی طرح پولیس کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنے گھر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ گھر والوں کے ساتھ کچھ دن گزارنے کے بعد وہ واپس اپنے ساتھیوں سے آملے۔ وہ عارضی طور پر اپنے کسی دوست کے گھر رہ رہے تھے کہ کسی کی مخبری کی وجہ سے پولیس کو اُن کے ٹھکانے کے بارے میں معلوم ہوگیا اور پولیس نے اُن کو گرفتار کرلیا۔ اُن سے اُن کے مغربی پاکستان کے دورے کے بارے میں پوچھ گچھ کی گئی۔ اُن کو ڈھاکہ جیل بھیج دیا گیا۔ اُن کے ساتھ مولانا بھاشانی بھی قید تھے۔ پاکستان بننے کے بعد دو سال کے اندر اُن کو تین دفعہ جیل بھیجا جاچکا تھا۔ جیل میں اُنھوں نے مولانا بھاشانی کو اپنے مغربی پاکستان کے دورے کے بارے میں بتایا۔ مجیب الرحمٰن کے مطابق حکومت کے سیاسی مخالفین پر بدترین تشدد کیا جارہا تھا۔ وہ افسوس کے ساتھ لکھتے ہیں کہ ایسا لیاقت علی خان کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران ہو رہا تھا جو جمہوریت کے نام لیوا تھے۔ اُن کے مطابق سیاسی قیدیوں پر اتنا تشدد کیا گیا کہ اُن میں سے بعض اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے اور بعض عمر بھر کے لئے معذور ہوگئے۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں،
”محمد علی جناح کے انتقال کے بعد لیاقت علی خان نے تمام اختیارات کا مالک بن کر ملک میں خوف و دہشت کی حکمرانی قائم کردی تھی۔”
لیاقت علی خان عوامی لیگ کے منشور پر بھی برہم تھے، جس میں مکمل خود مختاری پر زور دیا گیا تھا۔ پہلی دستور ساز اسمبلی میں مشرقی بنگال کے ارکان کی تعداد 44 تھی۔ پنجاب، سندھ، سرحد، اور بلوچستان سے 28 ارکان تھے۔ مشرقی پاکستان کی 44 نشستوں میں سے 6 نشستوں پر مغربی پاکستان کے باشندوں کو منتخب کروایا گیا تھا جبکہ بنگالیوں کی اکثریت ہونے کے باوجود کراچی کو دارالحکومت بنایا گیا جس پر مشرقی پاکستان کے اسمبلی کے ارکان یا عوام نے کوئی اعتراض نہیں کیا لیکن جب اُنھوں نے یہ دیکھا تمام صنعتی ترقّی مغربی پاکستان میں ہی ہو رہی تو وہ اس طرف متوجہ ہوئے۔
اپنی خود نوشت میں مجیب الرحمٰن نے لیاقت علی خان پر الزام لگایا ہے کہ وہ بنگالی اور پنجابی ارکانِ پارلیمنٹ کے درمیان تفرقہ ڈال کر حکومت کرنا چاہتے تھے کیونکہ وہ خود مہاجر تھے۔ وہ بیوروکریسی پر زیادہ انحصار کرتے تھے جن کی اکثریت مغربی پاکستان کے لوگوں پر مشتمل تھی۔ 1950 میں ڈھاکہ میں تمام جماعتوں کی طرف سے گرینڈ نیشنل کنونشن منعقد کیا گیا۔ اس کے ایک نمائندہ وفد نے لیاقت علی خان کی ڈھاکہ آمد پر اپنے مطالبات سے اُن کو آگاہ کیا۔ لیاقت علی خان نے خودمختاری کا مطالبہ رد کردیا۔
اس دوران حسین شہید سہروردی مغربی پاکستان میں سیاسی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ غلام محمد، جن کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا، قیامِ پاکستان سے قبل سرکاری ملازم تھے۔ جناح صاحب کے انتقال کے بعد اُنھیں وزیرِ خزانہ بنا دیا گیا۔ اس سے پاکستان میں نوکر شاہی (beaurucracy) کو کافی طاقت ملی۔
اس دوران مجیب الرحمٰن کو جیل سے رہا کیا گیا لیکن رہا کرتے ہی اُن کو دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔ حکمران مجیب الرحمٰن، مولانا بھاشانی اور دوسرے بنگالی رہنماؤں کی لسانی تحریک سے خائف تھے اس لئے اُن کو طویل عرصے تک کسی نا کسی بہانے سے جیل میں رکھنا چاہتے تھے۔ مجیب الرحمٰن نے اپنی خود نوشت میں چند بنگالی ہندو رہنماؤں کا بھی تزکرہ کیا ہے جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا اور وہ سماجی سرگرمیوں میں سرگرم رہتے تھے اور بلاتفریق ہندوؤں اور مسلمانوں کے کام آتے تھے۔ اُن میں ایک نام چندرا گھوش کا بھی ہے۔ اُنھوں نے کافی اسکول تعمیر کروائے، ایک ڈگری کالج بھی قائم کروایا، نہریں کھدوائیں، سڑکیں بنوائیں۔۔ قیامِ پاکستان کے بعد اُن کو ایک جھوٹے مقدمے میں پھنسا کر سزا دے دی گئی۔ جیل میں جب مجیب الرحمٰن بیمار پڑے تو گھوش بابو نے اُن کا بہت خیال رکھا۔ مجیب الرحمٰن کو بنگال کی مختلف جیلوں میں رکھا گیا جس میں ڈھاکہ کی جیل شامل تھی۔
مجیب الرحمٰن نے مسلم لیگ کے ایک کارکن محی الدّین کا ذکر بھی کیا ہے جو مسلم لیگ میں مجیب الرحمٰن کے مخالف گروہ سے تعلق رکھتے تھے اور کئی موقعوں پر اُن کی مخالفت کی تھی۔ مجیب الرحمٰن کے مطابق محی الدین تحریکِ پاکستان کے بہترین کارکن تھے۔ اُن کو بظاہر فرقہ ورانہ فسادات میں ملوث ہونے کے الزام کے تحت گرفتار کیا گیا تھا، لیکن اُن کا یہ کہنا تھا کہ مسلم لیگ میں دو گروپ بن گئے تھے اور وہ نورالامین کے مخالف گروپ میں تھے۔اس وجہ سے وہ مسلم لیگ سے بد دل ہوگئے تھے۔ جیل میں مجیب الرحمٰن کی محی الدّین سے دوستی ہوگئی حالانکہ اُن کو پتہ چلا تھا کہ محی الدّین نے حسین شہید سُہروردی کے خلاف لیاقت علی خان کے کان بھرے تھے۔
مجیب الرحمٰن، مولانا بھاشانی کے ساتھ ابھی جیل میں ہی تھے کہ 1951 میں اکتوبر کے مہینے میں لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں ایک جلسے میں گولی ماردی گئی۔ مجیب الرحمٰن سمجھتے تھے کہ لیاقت علی خان اُسی سازشی سیاست کا شکار ہوگئے تھے جس کی اُنھوں نے شروعات کی تھی۔ حالانکہ لیاقت علی خان کے حکم پر ہی وہ جیل میں تھے لیکن اُن کو لیاقت علی خان کی موت نے افسردہ کردیا تھا۔
لیاقت علی خان کی موت کے بعد خواجہ ناظم الدّین پاکستان کے وزیرِ اعظم بنے۔ اُنھوں نے ایک اعلی سرکاری افسر ، چودھری محمد علی کو وزیرِ خزانہ بنا لیا۔ اور غلام محمد جو اُس وقت وزیرِ خزانہ تھے اُن کو گورنر جنرل بنا دیا گیا۔ اس طرح حکومتی اُمور میں بیوروکریسی کا عمل دخل بڑھتا چلا گیا۔ خواجہ ناظم الدین کی کابینہ میں دو گروپ بن گئے تھے۔ ایک پنجابی اور دوسرا بنگالی گروپ۔ وزیرِ اعظم بننے کے بعد خواجہ ناظم الدّین جب مشرقی پاکستان آئے تو اُنھوں اُردو کو ہی واحد قومی زبان بنانے کا اعلان کیا۔ یہ خواجہ ناظم الدین کی طرف سے اُن کے پچھلے تمام دعوں کی نفی تھی۔ اُنھوں نے تحریری معاہدے میں اس بات پر اتفاق کیا تھا تھا بنگلہ مشرقی بنگال کی سرکاری زبان ہوگی اور وہ قومی اسمبلی میں بھی مرکزی حکومت سے بنگلہ کو قومی زبان بنانے کی درخواست کرینگے۔ لیکن وزیرِ اعظم بننے کے بعد کے بعد وہ بدل گئے۔
مجیب الرحمٰن کو جیل میں 26 مہینے ہوگئے تھے۔ اس دوران اُن کی آنکھوں کا اور دل کا علاج بھی ہوا تھا۔ اُنھوں نے اپنی رہائی کے لئے بھوک ہڑتال شروع کردی تھی۔ 21 فروری کو قومی زبان کا دن منانے کا فیصلہ ہوا۔ اُس دن احتجاج ہوا، ریلیاں نکالی گئیں۔ مظاہرین پر فائرنگ کی گئی اور کئی لوگ اس میں ہلاک ہوئے۔ کچھ دن بعد مجیب الرحمٰن کو رہا کر دیا گیا۔ لیکن اُن کی صحت بہت گر گئی تھی۔ جب وہ گھر پہنچے تو اُن کی بیوی نے اُن کے بھوک ہڑتال کرنے پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ اُن کو تقریباً ایک مہینہ اپنے گھر پر گزارنا پڑا۔ بظاہر بنگالی زبان کی تحریک کو کچلا جاچکا تھا لیکن یہ چنگاری ابھی بجھی نہیں تھی۔ کچھ عرصہ بعد اپنے دوست کے بلانے پر وہ ڈھاکہ چلے گئے۔ ڈھاکہ میں نواب پور میں عوامی لیگ کا دفتر قائم کیا گیا۔ زبان کے مسئلے پر چلائی جانے والی تحریک کو جس طرح دبایا گیا تھا لوگ خوفزدہ ہوگئے تھے اور عوامی لیگ کے دفتر آنے سے بھی کتراتے تھے۔ مسلم لیگ کو حکومت یہ الزام لگا رہی تھی کہ ان مظاہروں میں کلکتہ کے ہندو طلبہ نے پائجامے پہن کر اور مسلمانوں کا روپ دھار کر شرکت کی ہے۔ مجیب الرحمٰن نے مسلم لیگ کے دعوے کو رد کرتے ہوئے کہا کہ فائرنگ سے مرنے والے 5 یا 6 طالبِ علم مسلمان تھے اور گرفتار شدگان میں 99 فیصد مسلمان تھے۔
عوامی لیگ نے یہ طے کیا کہ مجیب الرحمٰن خود مغربی پاکستان جا کر وزیرِ اعظم خواجہ ناظم الدّین سے ملاقات کرکے سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کریں۔ حسین شہید سہروردی بھی اُن دنوں مغربی پاکستان میں تھے۔ مجیب الرحمٰن اُن سے بھی ملاقات کرنا چاہتے تھے۔ اُس وقت عوامی لیگ پنجاب، سرحد، سند، اور کراچی میں بھی قائم ہو چکی تھی لیکن اس کا نام جناح عوامی مسلم لیگ رکھا گیا تھا۔ لیکن مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کی ورکنگ کمیٹی اس بات پر متّفق نہیں تھی کہ پارٹی کے نام میں کسی شخصیت کا نام استعمال کیا جائے اور اُنھوں نے اپنی جماعت کا نام تبدیل نہیں کیا۔
مجیب الرحمٰن کراچی میں عوامی لیگ کے ارکان سے ملے اور اُن کے اجلاس سے خطاب کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ اُنھوں نے انگریزی میں تقریر کی۔ وہ اُردو میں تقریر نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اُن کی پارٹی کے مغربی پاکستان کے ارکان نے اُن سے کہا کہ اُنھیں ایک پریس کانفرنس بلا کر مشرقی پاکستان کے حقائق کے بارے میں مغربی پاکستان کے لوگوں کو معلومات فراہم کرنی چاہئے۔ وہ کراچی میں خواجہ ناظم الدّین سے بھی جاکر ملے اور اُن کے سامنے تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ دہرایا اور مشرقی پاکستان میں لوگوں پر ہونے والے تشدد کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
مجیب الرحمٰن سے ملاقات میں خواجہ ناظم الدّین نے عوامی لیگ کو حزبِ اختلاف کی جماعت کے طور پر تسلیم کیا۔ مجیب الرحمٰن نے اخباری نمائندوں کے ساتھ دو گھنٹے کی پریس کانفرنس کی اور اُن کو مشرقی پاکستان کے لوگوں کے مطالبات سے آگاہ کیا۔ “پاکستان ٹائمز”، اور “امروز” اخبارات نے اُن کی پریس کانفرنس کو نمایاں جگہ دی۔ وہاں اُن کی ملاقات پرانے مسلم لیگی کارکنوں سے بھی ہوئی۔ وہ حسین شہید سُہروردی سے ملنے کراچی سے حیدرآباد بھی گئے جو ایک مقدمے کی وکالت کے سلسلے میں وہاں مُقیم تھے۔ مجیب الرحمٰن یہ چاہتے تھے کہ حسین شہید سُہروردی عوامی لیگ کی سربراہی کریں لیکن سُہروردی صاحب جناح عوامی مسلم لیگ میں شامل تھے اور مجیب الرحمٰن سیاسی تنظیم کے ساتھ کسی شخصیت کے نام کو لگانے کے خلاف تھے۔ مجیب الرحمٰن نے حسین شہید سُہروردی کو عوامی لیگ کی سربراہی کرنے پر راضی کر لیا اور اُن کا تحریری پیغام بھی لیا جو اُنھوں نے مشرقی پاکستان میں اپنی پارٹی کی ورکنگ کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں پیش کرنا تھا۔ سہروردی صاحب نے مجیب الرحمٰن سے وعدہ کیا کہ مقدّمہ ختم ہونے کے بعد وہ مشرقی پاکستان کا دورہ کریں گے۔
مجیب الرحمٰن نے واپسی براستہ لاہور رکھی۔ لاہور میں بھی اُن کو پریس کانفرنس کرنے کا کہا گیا۔ وہاں اُنھوں نے علامہ اقبال کے مزار پر بھی حاضری دی اور “جاوید منزل” میں بھی کچھ وقت گزارا۔ اُنھوں نے اپنے آپ کو خوش قسمت محسوس کیا کہ اُن کو اُس مکان میں رہنے کا موقعہ ملا جس میں علامہ اقبال نے غور و فکر کرتے ہوئے اپنا وقت گزارا تھا۔ اس سے پہلے اُن کی حمید نظامی سے شناسائی ہوئی ہوئی تھی لیکن اس دفعہ اُن سے تفصیلی ملاقات ہوئی
اُنھوں نے جب پریس کانفرنس کی تو موقف کو تفصیل سے سمجھایا۔ اُنھوں کے صحافیوں کو بتایا کہ مشرقی پاکستان کے لوگ اُردو اور بنگلہ دونوں زبانوں کو قومی زبانیں بنانا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اُنھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ عوامی لیگ میں وہی لوگ شامل ہیں جنھوں نے تحریکِ پاکستان میں حصہ لیا تھا۔ وہ واپس ڈھاکہ پہنچے اور ورکنگ کمیٹی کا اجلاس طلب کیا جس میں سب کو سُہروردی صاحب کے خیالات سے آگاہ کیا۔ الحاق کرنے پر سب نے اتفاق کیا۔
اس دوران مولانا بھاشانی بیمار پڑگئے۔ اُن کو ہسپتال میں تو داخل کرایا گیا لیکن حکومت نے اُن کے علاج کے اخراجات برداشت کرنے سے انکار کردیا۔ مجیب الرحمٰن نے اُن کے علاج کے لئے چندہ جمع کیا۔ اُنھوں نے عوامی لیگ کی تنظیم سازی کی۔ اُس زمانے میں چین میں بیجنگ میں “امن کانفرنس” کا انعقاد ہوا جس میں شرکت کے لئے پاکستان سے بھی وفد گیا۔ مجیب الرحمٰن بھی اس وفد میں شامل تھے۔ وہاں اُنھوں نے بیجنگ کی سیر بھی کی۔ امن کانفرنس میں 37 ممالک سے 338 نمائندے شرکت کے لئے آئے تھے۔ کانفرنس میں جب اُنھوں نے دیکھا کہ لوگ انگریزی کے ساتھ چینی، روسی، اور ہسپانوی زبانوں میں تقریریں کر رہے ہیں تو اُنھوں نے بنگلہ میں تقریر کی۔ اس کانفرنس میں پاکستان اور بھارت کے وفود نے ایک مُشترکہ اعلامیہ بھی جاری کی جس میں بھارتی نمائندوں نے تسلیم کیا تھا کہ مسئلہ کشمیر پُر امن طریقے سے رائے عامّہ کے ذریعے حل ہونا چاہئے۔ کانفرنس کے بعد منتظمین نے اُن کو کچھ جگہوں کی سیر کروائی۔ ایک بات جو اُنھوں نے محسوس کی کہ پاکستان 1947 میں آزاد ہو جبکہ چین نے 1949 میں آزادی حاصل کی۔ چین میں چینی حکومت اپنے عوام کی صلاحیتوں کو اپنے ملک کی تعمیر و ترقّی میں بہتر طریقے سے استعمال کر رہی تھی جبکہ پاکستان میں اس کے برخلاف عوام کو دبایا جا رہا تھا۔
کانفرنس سے واپس آکر اُنھوں نے دوبارہ عوامی لیگ کی تنظیم سازی میں حصہ لیا۔ حسین شہید سُہروردی نے بھی مشرقی بنگال کا دورہ کیا جس سے عوامی لیگ کی تنظیم سازی میں اُن کو بہت مدد ملی۔ 1953 کے آغاز میں سیاسی اور طلبا تنظیموں کے کارکنان کو رہائی ملنا شروع ہوئی۔ عوامی لیگ کہ ایک کارکن شمس الحق جنھوں نے تحریکِ پاکستان میں بھی حصہ لیا تھا بھی رہا ہوئے لیکن اس حال میں کہ وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے تھے۔ شمس الحق مشرقی بنگال کی مسلم لیگ کے نمایاں کارکنوں میں سے تھے۔ لیکن سیاسی اختلاف کی پاداش میں اُن کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا تھا۔ مجیب الرحمٰن کے خلاف عوامی لیگ کے اندر سے بھی کئی لوگوں نے سازش کرنے کی کوشش کی۔ مجیب الرحمٰن لکھتے ہیں، “مشرقی پاکستان کی سیاست اور مغربی پاکستان کی سیاست میں بہت فرق ہے۔ مغربی پاکستان میں بڑے بڑے تاجر، زمیندار، اور نواب وقت گزاری کے لئے سیاست کرتے ہیں۔ اس کے برعکس، ملک کے مشرقی بازو میں متوسط طبقہ سیاست میں زیادہ سرگرم ہے …….”
مجیب الرحمٰن نے پنجاب میں ہونے والے مذہبی فسادات کا ذمّہ دار مذہبی طبقہ کو ٹہرایا ہے۔ ان فسادات میں وہ لکھتے ہیں کہ بچّوں تک کو زندہ جلا دیا گیا۔ وہ لکھتے ہیں، “پاکستان کو ایک جمہوری ملک ہونا چاہئے تھا۔ یہاں تمام عقائد کے ماننے والوں کو نسل اور مذہب سے قطع نظر، مساوی حقوق ملنے چاہئے تھے۔ یہ بد قسمتی کی بات ہے کہ جن لوگوں نے تحریکِ پاکستان کے دوران قیامِ پاکستان کی مخالفت کی تھی، آج پاکستان کو ایک مذہبی ریاست کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور مذہب کے نام پر اپنے اپنے مفادات حاصل کرنے کے لئے ملکی سیاست میں زہر گھول رہے تھے۔ معاشی و سماجی اصلاحات کے منصوبے بنانے کی بجائے مسلم لیگ کے رہنما ہم آواز ہو کر صرف ایک ہی نعرہ لگا رہے تھے: “اسلام”۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اُنھیں عوام کی معاشی خوشحالی کی کوئی پرواہ نہیں ہے، جبکہ قیامِ پاکستان کا مقصد ہی یہ تھا جس کے لئے متوسط طبقے، کسانوں اور مزدوروں نے تحریکِ پاکستان کے دوران بڑی بڑی قربانیاں دی تھیں۔”
مجیب الرحمٰن کے خیال میں مشرقی پاکستان کی معیشت سے کمایا جانے والا زرِمبادلہ مغربی پاکستان میں صنعتیں اور کارخانے لگانے میں استعمال ہو رہا تھا۔ خواجہ ناظم الدّین کی حکومت کے دو دھڑے بن گئے تھے۔ ایک گروپ “بنگالی گروپ” کہا جاتا تھا جس کی سربراہی فضل الرحمٰن کر رہے تھے۔ دوسرا گروپ جس کی سربراہی چودھری محمد علی کر رہے تھے “پنجابی گروپ” کہلاتا تھا۔ مرکزی حکومت میں شامل بنگالی رہنما اپنے ملک کا دارلحکومت، فوجی ہیڈ کوارٹر، تمام اعلیٰ سرکاری عہدے، اور ملک کی تجارت کا بڑا حصہ اپنے پنجابی بھائیوں کے ہاتھ میں دے کر بھی چودھری محمد علی کو خوش نہیں کر پائے تھے۔ دستور ساز اسمبلی میں بھی اپنے مغربی پاکستانی بھائیوں کو چھ نشستیں دینے کے باوجود بنگالی اکثریت میں تھے۔ مجیب الرحمٰن کے مطابق بنگالی رہنما مشرقی پاکستان کے مفادات کا تحفّظ کرنے میں ناکام رہے تھے۔ اور نتیجتاً وہ مشرقی پاکستان میں اپنی ساکھ کھو بیٹھے تھے۔
اپریل 1953 میں گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی توڑ دی اور خواجہ ناظم الدّین کو برطرف کردیا۔ اُس وقت امریکہ میں مقیم پاکستان کے سفیر محمد علی بوگرہ کو وزیرِ اعظم مقرّر کیا گیا۔ مجیب الرحمٰن اُس وقت عوامی لیگ کے ایک جلسے میں شرکت کر رہے تھے جب اُن کو اس واقعے کی اطلاع ملی۔ مجیب الرحمٰن کے خیال میں خواجہ ناظم الدّین کے ساتھ جو ہوا وہ اُس کے حقدار تھے۔ اُنھوں نے آئین سازی کرکے انتخابات کروانے کی بجائے پاکستان کو سازشی سیاست میں دھکیل دیا تھا۔ خواجہ ناظم الدّین کی برطرفی پر پاکستان بھر میں صرف عوامی لیگ کی طرف سے احتجاج کیا گیا۔ مسلم لیگ کے رہنما ایک ایک کرکے محمد علی بوگرہ کی کابینہ میں شمولیت اختیار کرنے لگے۔ محمد علی بوگرہ سیاسی آدمی نہیں تھے۔ وہ ویسا ہی کرتے تھے جیسا غلام محمد چاہتے تھے۔
بنگال میں مسلم لیگ کے رہنما غیر مقبول ہوگئے تھے اور اُن کے جلسوں میں عوام شرکت نہیں کرتے تھے۔ فضل الرحمٰن نے عربی رسم الخط میں بنگلہ لکھنے کا طریقہ متعارف کروانے کی کوشش کی جس کو عوامی لیگ نے ناکام بنایا۔ اس وقت مسلم لیگ کے کچھ رہنما پورے ملک میں مرکزی حکومت کے نفاز کی کوششیں کر رہے تھے۔ جبکہ عوامی لیگ صوبائی خودمختاری کے ساتھ وفاقی حکومت کے قیام کے لئے کوشاں تھی۔ 1953 کے وسط میں مشرقی بنگال میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کروانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس وقت تک عوامی لیگ نے بنگال میں اپنی تنظیم سازی مکمّل کرلی تھی اور انتخابات کے لئے پوری طرح تیار تھی۔ انتخابات کا انعقاد مارچ 1954 میں کیا گیا۔ انتخابات سے پہلے بہت سیاسی ہل چل مچی۔ بہت سے موقع پرست عوامی لیگ میں داخل ہونا چاہتے تھے۔ عوامی لیگ کے کچھ لوگ اپوزیشن پارٹیوں کا ایک متحدہ محاذ (یونائیٹد فرنٹ) تشکیل دینا چاہتے تھے۔ مجیب الرحمٰن نے صوبہ بھر میں عوامی لیگ کی انتخابی مہم چلائی۔ انتخابات سے قبل عوامی لیگ کے کئی کارکنوں کو گرفتار بھی کیا گیا لیکن یہ سارے ہتھکنڈے مسلم لیگ کو انتخابات میں بدترین شکست سے نہیں بچا سکے۔ جب انتخابات کے نتائج آئے تو اسمبلی کی تین سو نشستوں میں سے مسلم لیگ کو صرف نو نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔ عوامی لیگ نے 140 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی اور واحد بڑی پارٹی کے طور پر اُبھری تھی۔ مسلم لیگ کے بڑے بڑے رہنما انتخابات ہار گئے تھے جن میں وزیرِ اعلیٰ نورالامین بھی شامل تھے۔ لیکن عوامی لیگ کے مخالفین نے اپنی کوششیں جاری رکھی تھیں اور وہ عوامی لیگ کو اقتدار سے دور رکھنا چاہتے تھے۔ عوامی لیگ نے دوسری جماعتوں کے ساتھ اتحاد کیا تھا جس کو یونائیٹڈ فرنٹ کا نام دیا گیا تھا۔ اتحادیوں نے مل کر 223 نشستیں حاصل کی تھیں اس لئے اتحادی فرنٹ نے حکومت بنائی۔ شروع میں عوامی لیگ کابینہ میں شامل نہیں ہوئی لیکن بعد میں عوامی لیگ کے ارکان کو بھی کابینہ میں شامل کرلیا گیا۔ مجیب الرحمٰن بھی حلف اُٹھانے والوں میں شامل تھے۔ ابھی اُنھوں نے وزارت کا حلف اُٹھایا ہی تھا کہ اُن کو اطلاع ملی کہ آدم جی جوٹ ملز میں بنگالی اور غیر بنگالی مزدوروں کے درمیان زبردست فساد ہوا ہے۔ اس فساد کے نتیجے میں 1500 افراد مارے گئے۔ مجیب الرحمٰن سمجھتے تھے کہ اُن فسادات کا مقصد اُن کی حکومت کو غیر مُستحکم کرنا تھا۔
بعد میں فضلِ حق صاحب کے ساتھ اُن کا کراچی جانا ہوا جہاں اُن کی ملاقات محمد علی بوگرہ سے بھی ہوئی۔ ملاقات میں اُن کی محمد علی بوگرہ سے تلخ کلامی بھی ہوئی۔ وہاں اُن کی سُہروردی صاحب سے بھی ملاقات ہوئی جو اُن دنوں کافی علیل تھے۔ اُن کی ملاقات گورنر جنرل غلام محمد سے بھی ہوئی۔ اُن کی واپسی براستہ کلکتہ ہوئی۔ جب وہ ڈھاکہ واپس پہنچے تو ایئرپورٹ پر ایک بڑے مجمع نے اُن کا استقبال کیا۔ یونائیٹڈ فرنٹ کی حکومت 25 مارچ کو قائم ہوئی تھی جبکہ 30 مئی کو مرکزی حکومت نے دفعہ 92(A) کا استعمال کرتے ہوئے صوبائی کابینہ کو تحلیل کردیا۔ میجر جنرل اسکندر مرزا کو مشرقی بنگال کا گورنر اور این ایم خان کو چیف سیکریٹری مقرّر کر دیا گیا۔
مجیب الرحمٰن کو دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔ اے کے فضلِ حق پر یہ الزام لگا کر کہ وہ پاکستانی بنگال اور ہندوستانی بنگال کا الحاق کرنا چاہتے ہیں “غدّار” قرار دیا گیا جبکہ مجیب الرحمٰن کو “فسادی”۔ اس وقت حسین شہید سُہروردی علاج کی غرض سے زیورخ جبکہ مولانا بھاشانی برطانیہ میں تھے اور مجیب الرحمٰن جیل میں۔ عوامی لیگ کی طرف سے کوئی تحریک چلانے والا نہیں تھا۔
مجیب الرحمٰن کے بقول مشرقی پاکستان کا گورنر بننے کے بعد اسکندر مرزا نے آدم جی جوٹ مل میں ہونے والے فسادات کے ذمّہ داران کے خلاف کاروائی کرنے کی بجائے سیاسی کارکنوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا تھا۔ اُنھی دنوں گورنر جنرل غلام محمد اور وزیرِ اعظم محمد علی بوگرہ کے درمیان کشیدگی پیدا ہوگئی جس کا نتیجہ دستور ساز اسمبلی کے ٹوٹنے کی صورت میں نکلا۔اُس وقت کی آئین ساز اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدّین خان نے اس عمل کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کیا تھا۔ 1947 سے لے کر 1954 تک دستور ساز اسمبلی نے کوئی آئین تشکیل نہیں دیا تھا۔
کچھ عرصہ بعد حسین شہید سُہروردی صحت یاب ہوکر کراچی پہنچے تو اُنھیں عوامی لیگ نے ایک بڑا استقبالیہ دیا۔ سُہروردی صاحب کو دھوکہ دے کر عبوری حکومت کا وزیرِ قانون بنا دیا گیا۔ مجیب الرحمٰن کے مطابق ایسا اس لئے کیا گیا کیونکہ حسین شہید سُہروردی کی شخصیت وزیرِ اعظم بننے کی اہل تھی۔ مجیب الرحمٰن، حسین شہید سُہروردی کے اس فیصلے سے خوش نہیں تھے۔ لیکن وہ کچھ نہیں کر سکتے تھے کیونکہ وہ جیل میں تھے۔ اس دوران مجیب الرحمٰن کے والد سخت بیمار پڑگئے اور حکومت نے اُن کو رہا کردیا۔ کچھ دن وہ اپنے والد کے پاس رہے۔ اُسی وقت حسین شہید سُہروردی نے اُن کو کراچی بلایا۔ مجیب الرحمٰن چونکہ سُہروردی صاحب سے شدید ناراض تھے اس لئے وہ کراچی پہنچنے کے فوراً بعد اُن سے نہیں ملے جس کو سُہروردی صاحب نے بھی محسوس کیا۔ سُہروردی صاحب نے مجیب الرحمٰن کو بتایا کہ غلام محمد نے اُن سے کہ دیا تھا کہ اگر اُنھوں نے کابینہ میں شمولیت اختیار نہیں کی تو وہ اقتدار فوج کے حوالے کر دیں گے۔ یونائیٹڈ فرنٹ میں شامل دوسری جماعت کریشک شرامک پارٹی محمد علی بوگرہ کی حمایت کرنے لگی تھی جس کی وجہ سے عوامی لیگ اور اُس میں اختلافات بڑھنے لگے۔ عوامی لیگ اے کے فضلِ حق کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کا سوچنے لگی تھی۔
حیوانی جبلت، مکھیوں کا دیوتا، مکڑیوں بھرا جزیرہ اور ہم
( نوبل انعام یافتہ ولیم گولڈنگ کے ناول ’ لارڈ آف فلائیز ‘، 1954ء پر تبصرہ ) یہ پچھلی صدی...