ہم سب ذہنی طور پر تیار ہو گئے کہ اب ہماری اور ہمارے سامان کی خیر نہیں۔ ٹرین کی سپیڈ آہستہ ہونا شروع ہو گئی۔ پاکستانی مزاج کے مطابق ہم نے اپنی سیٹ سے اٹھ کر دروازے کی طرف ہلکی پھلکی پیش قدمی کرنا چاہی تاکہ سٹاپ آتے ہی باہر نکل سکیں لیکن ناکامی ہوئی۔ ہم تینوں اپنی سیٹیں چھوڑ چکے تھے اور کھڑے تھے لیکن ہماری سیٹوں پر کسی نے دو سو گز سے ٹانگیں پھیلا کر قبضے کی کوشش نہیں کی۔ سٹاپ آتے ہی ایک عجیب کام ہوا۔ ٹرین رکی اور ہمیں اترتے دیکھ کر ایک دم سے سارے مسافر ایک دوسرے کے ساتھ سمٹ گئے۔ باہر کھڑے تمام مسافر اندر آنے کی بجائے ہمارے نکلنے کا انتظار کرنے لگے… اور پھر وہی ہوا جو اس قسم کے نظم و ضبط میں ہوتا ہے۔ ہم اپنے سامان سمیت مکھن میں سے بال کی طرح نکل آئے۔
بنکاک سیاحوں کی جنت ہے۔ ہمارے ہاں تھائی لینڈ اور بنکاک کا نام ذہن آتے ہی ایک خاص قسم کا تصور ابھرتا ہے‘ اور بالکل ٹھیک ابھرتا ہے۔ یہاں وہ سب ہے جو ہم سنتے آئے ہیں‘ لیکن یہ سب تو پوری دنیا میں ہے۔ پاکستان سے باہر نکلنے کے بعد دنیا کے اپنے اصول ہیں‘ اپنے ضوابط ہیں۔ بنکاک کی راتیں جاگتی ہیں‘ روشنیوں اور میوزک کا طوفان برپا ہوتا ہے‘ ہر طرف ''بوم بوم‘‘ کی آوازیں گونج رہی ہوتی ہیں لیکن اس کے پیچھے کی کہانی بڑی اذیت ناک ہے۔ یہ وہی کہانی ہے جو ہر غریب اور مجبور انسان کی ہے۔ اس پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن پھر بہت کچھ بتانے سے رہ جائے گا‘ صرف اتنا ہی
کہنا کافی ہے کہ یہ 'صنعت‘ بھی یہاں دھیرے دھیرے ختم ہوتی جا رہی ہے۔ بنکاک میں جگہ جگہ کھانے کی دکانیں ہیں‘ ٹھیلے ہیں لیکن یہاں کھانے کا ذائقہ بہت ہی بُرا ہے۔ سور کا گوشت یہاں کی مرغوب غذا ہے اور ہر طرف اسی کے تکے کباب لگتے نظر آتے ہیں۔ چکن اور مٹن بھی ہوتا ہے لیکن سور کے گوشت کی تمام تر ''مہک‘‘ اُس میں بھی آرہی ہوتی ہے۔ یہ ایک لحاظ سے اچھا بھی ہوا کہ کافی دنوں سے وزن کنٹرول نہ ہونے والی عادت سے چھٹکارہ مل گیا۔ الحمدللہ کھانا دیکھ کر ہی بھوک مر جاتی رہی۔ قبلہ اجمل شاہ دین تو کوئی بھی چیز کھانے سے پہلے دکاندار سے باقاعدہ دریافت کرتے کہ 'کیا یہ حلال ہے؟‘۔ اصل میں یہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ صرف ذبیحہ ہی مسلمانوں کے لیے حلال ہوتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ ہوٹل کے ناشتے ایک گوشت کی ڈش دیکھ کر میں نے ویٹرس سے پوچھا ''حلال؟‘‘۔ اُس چپٹی ناک والی نازک اندام حسینہ نے مسکراتے ہوئے فرمایا ''Yes‘‘۔ ماشاء اللہ ! لہجے کے تیقن نے متاثر کیا لیکن شک کے ناگ نے اپنا پھن نیچے نہیں کیا‘ لہٰذا احتیاطاً پوچھ لیا کہ یہ ہے کیا چیز؟ جواب ملا 'سور‘۔ بوکھلا کر پوچھا کہ آپ تو حلال کہہ رہی تھیں۔ بولی‘ ہاں تو حلال ہی ہے‘ باقاعدہ ذبح کیا ہوا ہے…!!!
بنکاک کی سب سے اچھی ڈش یہاں کے صاف ستھرے پھل ہیں‘ میٹھے آم‘ میٹھے تربوز‘ کیلے اور ٹھنڈا کوکونٹ واٹر۔ اجمل شاہ دین تو ہر گھنٹے بعد اطمینان سے کسی فروٹ والے ٹھیلے پر رکتے اور بلاجھجک آرڈر دیتے ہوئے کہتے 'Give me tarbooz‘ اور حیرت انگیز طور پر ٹھیلے والی بھی یہ بات سمجھ جاتی۔ یہاں بین الاقوامی فوڈ چینز بھی جا بجا ملتی ہیں۔ ذائقے میں وہی ہمک… سو آپ کہہ سکتے ہیں کہ تھائی بڑی ''سورما‘‘ قوم ہے۔ بنکاک میں ایک چیز عام نظر آتی ہے کہ ہر دوسری جگہ پر ان کے بادشاہ سلامت کی تصویر آویزاں ہوتی ہے۔ ایک مقامی صاحب سے اس کی بابت پوچھا تو پتا چلا کہ بادشاہ کی سیاسی حیثیت تو کچھ نہیں لیکن تھائی لوگ انہیں بدھا کے بعد ''سیمی گاڈ‘‘ مانتے ہیں۔ بنکاک کے عوام کی کافی چیزیں ہم جیسی ہیں‘ یہ بھی ٹیکسی میں میٹر کے حساب سے پیسے لینے کے حق میں نہیں لہٰذا کوشش کرتے ہیں کہ میٹر کے بغیر ہی معاملات طے کر لیں۔ یہاں بھی سڑکوں پر گھسٹتے فقیر دکھائی دیتے ہیں‘ یہاں بھی گرمی ہے لیکن لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی اور شاید بجلی سستی ہے کیونکہ ہر جگہ اے سی لگے ہوئے ہیں۔ یہاں مردوں سے زیادہ عورتیں کاروبار سنبھالے ہوئے ہیں‘ کھانے پینے کے ٹھیلوں سے لے کر چھوٹی بڑی دکانوں تک عورتیں ہی عورتیں بھری نظر آتی ہیں۔ یہاں کا 'فٹ مساج‘ کمال کی چیز ہے‘ بازاروں میں جگہ جگہ لوگ آرام دہ کرسیوں پر بیٹھے فٹ مساج کرواتے نظر آتے ہیں۔ اس مساج میں آکوپنکچر ٹائپ کے طریقے سے ایک چھڑی کے ذریعے پائوں کے مختلف پوائنٹس کو دبایا جاتا ہے اور مالش کی جاتی ہے‘ جس کے بعد ساری تھکن ایک دم غائب ہو جاتی ہے۔
میرا اور اجمل شاہ دین کا وہی پرابلم ہے جو شکی لوگوں کا ہوتا ہے‘ ہمیں بنکاک کا ہر کھانا مشکوک لگ رہا تھا۔ ایسے میں انڈین ریسٹورنٹ نعمت ثابت ہوئے۔ بنکاک میں پاکستانی ریسٹورنٹ کی نسبت انڈین ریسٹورنٹ زیادہ ہیں اور گاہکوں کو گھیرنے کے لیے انہوں نے اپنے بورڈز پر 'حلال‘ لکھوا رکھا ہے۔ لیکن ہم نے بھی قسم کھا رکھی تھی کہ یہاں سے گوشت نہیں کھانا لہٰذا بھنڈی منگوا لیتے یا کڑی پکوڑا… ذائقے میں فرق تو ہوتا لیکن بہرحال کام چل ہی جاتا رہا۔
یہاں فٹ مساج کے دوران ایک مقامی دانشور 'یاجنگ‘ سے بھی ملاقات ہوئی‘ موصوف ایک مکینکل انجینئر تھے اور آدھی سے زیادہ دنیا گھوم چکے تھے۔ انگلش اچھی بولتے تھے۔ ان سے بات ہوئی تو کہنے لگے کہ میں کچھ عرصہ پہلے مسلمان ہونے لگا تھا‘ لیکن پھر رُک گیا کیونکہ مجھے پتا چلا کہ مسلمان ہونے کے بعد اگر میں نے مذہب تبدیل کیا تو میں مرتد اور واجب القتل ہو جائوں گا۔ یہ صاحب پاکستان کی سیاست سے بھی مکمل طور پر واقف نکلے۔ میں نے ان سے شکایت کی کہ کیا وجہ ہے ہر بندہ یہی کہتا ہے کہ تھائی لوگ اب ویسے نہیں رہے جیسے دس بارہ سال پہلے خوش اخلاق اور دھیمے مزاج کے ہوا کرتے تھے۔ یاجنگ نے میری بات سے اتفاق کیا اور فٹ مساج کرنے والی تھائی خاتون کو طعنہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ دیکھو‘ اب غیر ملکی بھی ہم سے نالاں ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کے بعد موصوف نے میری طرف رخ کیا اور فرمایا 'میں لوگوں کو سمجھاتا رہتا ہوں کہ مذہب کو صرف عبادت گاہوں تک محدود نہ رکھیں‘ اپنے دل میں بسائیں‘ مہمانوں کی عزت کریں‘ آواز نیچی رکھیں اور کسی کو تکلیف نہ دیں‘۔ مسٹر یاجنگ کا لہجہ اُسی بے بسی سے بھرا ہوا تھا جو ہمارے ہاں بھی ایسے لوگوں کے لہجوں میں پائی جاتی ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ 'تھائی لوگ بھی پیسوں کے اسیر ہوتے جا رہے ہیں۔ یہاں بھی کمرشل ازم آ گیا ہے اور اسی مادہ پرستی نے مذہب کو پس پشت ڈال دیا ہے‘۔ بنکاک کے ہائی وے پر سفر کرتے ہوئے ایک بڑے سے بورڈ پر نظر پڑی جس پر تحریر تھا کہ 'بدھا کا مجسمہ صرف ڈیکوریشن کے لیے نہ رکھیں‘ اسے دل میں بسائیں۔
آج کا بنکاک ایک عجیب سی اکتاہٹ کا شکار ہے‘ لوگ آپ سے صرف مطلب کے لیے بات کرتے ہیں؛ تاہم یہ ضرور ہے کہ ٹیکسی ڈرائیور بھی اگر آپ سے ایک دفعہ پیسے طے کر لیتا ہے تو پھر اس پر قائم رہتا ہے۔ اتنی سی شرم ابھی تک یہاں باقی ہے‘ ورنہ دیگر کئی معاملات میں بنکاک یکدم بہت پیچھے جا چکا ہے۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“