میرا خیال ہے اُس وقت میں چھوٹا تھا جب میں نے پاکستانی فلم 'بنکاک کے شعلے‘ دیکھی تھی۔ تب سے مجھے بڑا شوق تھا کہ بنکاک ضرور جائوں اور وہاں کے شعلے دیکھوں۔ میرے ذہن میں بچپن سے بیٹھا ہوا تھا کہ بنکاک میں ہر طرف آگ ہی آگ ہوتی ہے اور آگ کے انہی شعلوں کی وجہ سے فلم کا نام مجبوراً ''بنکاک کے شعلے‘‘ رکھنا پڑا۔ یہ خیال درست ثابت ہوا۔ برادرم یاسر پیرزادہ اور اجمل شاہ دین جیسے دوست ہمراہ ہوں تو سفر کا مزا دوبالا ہو جاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہم نے کیا کھانا ہے‘ کیوں کھانا ہے‘ کب کھانا ہے‘ کتنا کھانا ہے اور سفر میں کون سا گانا سننا ہے‘ یہ طے کرنے کا اختیار سو فیصد یاسر بھائی کے پاس ہوتا ہے۔ جہاز میں سوار ہوتے ہی انہوں نے ڈکٹیٹرشپ کی ایک نئی مثال قائم کرتے ہوئے ہماری سیٹوں کے سامنے لگی ہوئی ایل ای ڈی میں فلمیں بھی اپنی پسند کی لگا دیں۔ میں نے اور اجمل شاہ دین نے احتجاج کیا کہ حضور ایل ای ڈی تو آپ کے سامنے بھی لگی ہوئی ہے‘ آپ اپنی مرضی کی فلمیں دیکھیں اور ہمیں اپنی مرضی کی فلمیں دیکھنے دیں۔ یہ سنتے ہی حکم ملا کہ جو فلمیں میں نے منتخب کی ہیں وہی آپ کو پسند آئیں گی۔ اصل میں یاسر بھائی کہنا یہ چاہتے تھے کہ جو فلمیں میں نے منتخب کی ہیںآپ کو ہر صورت وہی پسند آنی چاہئیں۔ اللہ جانتا ہے میں فلم شروع ہونے سے پہلے ہی گہری نیند میں جا چکا تھا‘ اجمل شاہ دین کی طرف دیکھا تو وہ بھی آدھی رات کو کالی عینک لگائے پوری توجہ سے فلم دیکھتے ہوئے دھیمے سُروں میں خراٹے لے رہے تھے۔
خوش مزاج تھائی میزبانوں نے کھانا پیش کیا تو ان سے عرض کی کہ گوشت وغیرہ کی بجائے کوئی سبزی دال ہے تو عنایت فرما دیں۔ ایک محترمہ نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں واضح کیا کہ 'دال سبزی نوں چھڈو تے گوشت کھائو‘۔ میں نے خراٹے لیتے اجمل شاہ دین کو جھنجوڑا ور پوچھا کہ آپ تو آدھی دنیا گھوم چکے ہیں‘ رہنمائی کیجئے کہ کیا تھائی میزبانوں کی فرمائش پر چکن وغیرہ کھا لیا جائے؟ وہ ایک جھٹکے سے اٹھے اور چلائے 'نہ کھانا… ایناں دی گوشت دی کوئی آئٹم نہ کھانا‘۔ اگرچہ مجھے احساس تھا کہ معاملہ کیا ہو سکتا ہے لیکن بھوک بڑی لگی تھی اور سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کھایا جائے‘ میں نے پوچھا 'کوئی اور چیز ہے؟‘ جواب ملا 'چاول کھا لیجئے‘۔ سبحان اللہ! دل خوش ہو گیا‘ چاولوں میں چونکہ حرام حلال کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا لہٰذا بے دھڑک کہہ دیا کہ چاول لے آئیے۔ ایک نازک اندام حسینہ تھوڑی ہی دیر میں مسکراتی ہوئی نمودار ہوئی اور ابلے ہوئے چاولوں کی ایک پلیٹ میری طرف بڑھا دی۔ میں نے بسم اللہ پڑھ کر پہلا چمچ منہ میں ڈالا اور تھائی میزبانوں کا قائل ہو گیا… ایسا لگا جیسے منہ میں روئی کا گولا ڈال لیا ہے۔ نمک نہ مرچ… پھیکے چاول اور وہ بھی اتنے جڑے ہوئے کہ پاکستان میں ہوتے تو بلاشبہ 'پپا‘ کہلاتے…!!!
لاہور سے لگ بھگ ساڑھے چار گھنٹے اڑان کے بعد جہاز ''سورن بھومی ایئرپورٹ‘‘ کے اوپر چکر لگانے لگا تو سپیدہء سحر نمودار ہو رہا تھا اور جہاز کی کھڑکی سے بنکاک اورنج کلر میں نہایا ہوا لگ رہا تھا۔ ذرا سا نیچے ہوئے تو پتا چلا کہ یہاں تقریباً ہر چھت اورنج کلر کی ہے جس کی وجہ سے تھوڑی بلندی سے یوں لگتا ہے جیسے چھتوں پر مالٹے بکھرے ہوئے ہیں۔ یہ بالکل ایسا تھا جیسے پاکستان کی حدود میں داخل ہوتے ہی جہاز سے جھانکیں تو چھتوں پر پانی والی نیلی ٹینکیاں نظر آتی ہیں۔ ایک تصور تھا کہ بنکاک بڑا خوبصورت ہو گا‘ اور کچھ نہیں تو کم ازکم دوبئی جیسا تو ضرور ہو گا لیکن ایئرپورٹ پر لینڈ کرتے ہی ایسا لگا جیسے جہاز غلطی سے سانگلہ ہل اُتر گیا ہے۔ سورن بھومی بنکاک کا ایک انٹرنیشنل ایئرپورٹ ہے لیکن میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ لاہور ایئرپورٹ اس سے کہیں زیادہ خوبصورت ہے۔ سورن بھومی ایئرپورٹ پر ہر وقت درجنوں فلائٹس اترتی ہیں لیکن بہرحال ایئرپورٹ ایسا نہیں جیسا ہونا چاہیے۔ دوران پروان ہمیں ایئرلائن انتظامیہ کی طرف سے ایک امیگریشن کارڈ فراہم کیا گیا تھا جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ اسے ایئرپورٹ پر امیگریشن کائونٹر پر دکھا کر ہی بنکاک میں داخلے کی اجازت ملے گی۔ ہمیں یہ کارڈ پُر کرنا تھا تاہم الفاظ اتنے باریک لکھے ہوئے تھے کہ ہر خانے کا خانہ خراب ہوا اور جہاں نام لکھنا تھا وہاں ایئرلائن کا نام لکھ دیا‘ جہاں پاسپورٹ نمبر لکھنا تھا وہاں فون نمبر گھسیڑ دیا۔ ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے گوجرانوالہ کے ایک بٹ صاحب نے تسلی دی کہ جو مرضی لکھ دو‘ امیگریشن والوں نے کون سا پڑھنا ہے۔ بٹ صاحب کے لہجے میں اتنا یقین تھا کہ میں نے بھی اسے سیرئس نہیں لیا اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ بنکاک پہنچتے ہی امگریشن کائونٹر پر بیٹھے فرعون کے سالے نے غور سے امیگریشن کارڈ پڑھا اور پوچھنے لگا کہ کیا تمہارا نام 'تھائی ایئرلائن ہے؟‘ میں نے بوکھلا کر جلدی سے شناختی کارڈ نکال کر اپنا نام دیکھا اور بتایا کہ میرا نام تو گل نوخیز اختر ہے… اس نے امیگریشن کارڈ میرے سامنے لہرا دیا‘ جس پر میرے نام کے خانے میں ایئرلائن کا نام لکھا ہوا تھا۔ اس کے بعد اس نے مجھے پر باقاعدہ شک کا اظہار کر دیا‘ اور پوچھنے لگا کہ میں نے نام کیوں غلط لکھا ہے؟ میں نے آہستہ سے آگے کو جھکتے ہوئے کہا 'چاچا جی میری نظر بہت کمزور ہے‘ مجھے تو سامنے کی چیز نظر نہیں آتی‘ اتنا چھوٹا سا کارڈ کیسے پڑھ سکتا ہوں؟‘‘۔ اس نے گھور کر میری طرف دیکھا‘ پھر اپنا سر کھجایا‘ کارڈ کے مندرجات خود پُر کیے اور پاسپورٹ پر ٹھپہ لگا کر جاں بخشی کر دی…!!!
ایئرپورٹ سے باہر آتے ہی امامت کے فرائض یاسر پیرزادہ نے سنبھال لیے اور فرمایا کہ ہم ٹرین پر ہوٹل جائیں گے۔ میں نے بے بسی سے کہا کہ ٹرین لیٹ ہو گئی تو مارے جائیں گے۔ جواب ملا، یہاں ٹرین لیٹ نہیں ہوتی۔ حیرت انگیز طور پر ان کا کہا ایک بار پھر سچ پایا اور ٹھیک پانچ منٹ بعد ٹرین آن موجود ہوئی۔ بنکاک کی ٹرینوں میں زنانہ مردانہ کی کوئی تخصیص نہیں نیز ایئرپورٹ پر آتے ہی ٹرین لگ بھگ خالی ہو جاتی ہے لہٰذا ایئرپورٹ سے سوار ہونے والوں کو آسانی سے جگہ مل جاتی ہے۔ ہم تینوں اپنے جہازی سائز کے سوٹ کیسوں کے ہمراہ ٹرین میں سوار ہوئے تو خوش قسمتی سے سامنے کی لمبی سی سیٹ ہماری منتظر تھی۔ اب ٹھیک پانچ سٹیشن بعد ہمیں 'مکاسان‘ کے سٹیشن پر اترنا تھا لیکن ٹرین میں سوار ہوتے ہی پہلا سٹیشن آیا تو عوام الناس کا ایک ناقابل یقین ریلا ٹرین میں سوار ہو گیا۔ یہ لوگ ایک دوسرے کو دھکے تو نہیں دے رہے تھے لیکن خواتین و حضرات کچھ اس طرح سے چپک کے کھڑے تھے کہ بقول یوسفی صاحب 'درمیان میں نکاح کے علاوہ اور کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی‘۔ ہر سٹیشن پر جونہی گاڑی رکتی‘ مزید لوگ سوار ہو جاتے۔ ہم یہ سوچ سوچ کر ہی خوفزدہ ہوئے جا رہے تھے کہ جب ہمارا سٹیشن آئے گا تو اس بدترین رش میں سے ہم کیسے اپنے سوٹ کیس اٹھا کر باہر نکلیں گے۔ خوف کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کسی سٹیشن پر کوئی صاحب یا صاحبہ باہر نہیں اتر رہے تھے‘ بلکہ ٹرین دھڑادھڑ سواریاں اٹھاتی جا رہی تھی اور سواریاں بھی ایسی جو 35 ڈگری سینٹی گریڈ کی گرمی میں ململ کے سکرٹ پہنے اطمینان سے ٹرین میں کھڑی تھیں اور مرد اتنے بے حس تھے کہ کھڑے کھڑے اونگھ رہے تھے۔ اچانک اعلان ہوا کہ اگلا سٹیشن 'مکاسان‘ آ رہا ہے… ہمارا دل اچھل کر حلق میں آ گیا‘ اب ہمیں اترنا تھا… (جاری ہے)
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“