بہت لوگ نہیں جانتے کہ لاہور چھاوٴنی میں جو گنجِ شہیداں ہے، اس کی لہو پلا کر سینچی زمینوں میں کچھ ہمارے بنگالی سپاہیوں کی قبریں بھی ہیں جو ستمبر کی جنگ میں اپنے پاکستانی بھائیوں کے شانہ بشانہ لڑے تھے ہمارے بنگالی سپاہی اپنی شجاعت کے جوہر دکھا اب ایک اجنبی سرزمین کی خاک اوڑھے آرام کرتے ہیں۔
لاہور کی اس نسبتاً خوشگوار سویر جب میں پہلے پہل یہاں آیا تھا تب مجھے بھی علم نہیں تھا کہ وہاں گنجِ شہیداں میں اس لہو رنگ گیری سے دُھلی یادگار کے پاس ان بنگالی سپاہیوں کی تربتیں بھی ہوں گی
جو مغربی پاکستان کے محاذ پر شجاعت کے جوہر دکھا ایک اجنبی سرزمین کی خاک اوڑھے آرام کرتے ہوں گے۔ فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ قیامِ پاکستان کے بعد فروری 1948 کو وجود میں آئی۔ بنگال ٹائیگر کے اوصاف پر اس رجمنٹ کا نصب العین گریس، سٹرینتھ، سپیڈ (Grace, Strenght, Speed) رکھا گیا
اور رجمنٹ کے سپاہیوں کو بنگال ٹائیگرز کا لقب مِلا۔ سب سے اول فرسٹ بنگال رجمنٹ کے سپاہی سینیئر ٹائیگرز کہلائے۔س
جہاں لاہور کے محاذ پر ہم واہگہ اور برکی سیکٹروں کی لڑائیوں کا احوال پڑھتے ہیں جو پاکستانی 10 ڈویژن کے علاقے میں لڑی گئیں وہیں لاہور کے جنوب میں بیدیاں اور قصور کے محاذوں پر ہوئی جنگ کا ذکر خال خال ہی ملتا ہے
اور جو ملتا ہے اس میں بھی فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ کے کارناموں کا ذکر قریب قریب ناپید ہے۔ سینیئر ٹائیگرز برکی کے جنوب میں بیدیاں ہیڈ ورکس کے اہم ہدف کے دفاع پر مامور تھے۔
6 ستمبر کی صبح پونے چار بجے بریگیڈ میجر کی آنکھ ایک فون کال سے کھُلی، فرسٹ ایسٹ بنگال کا ایڈجوٹنٹ لائن پر تھا کہ بیدیاں کی رینجرز پوسٹ کی طرف سے ہندوستانی شیلنگ کی آوازیں آرہی تھیں۔ ہندوستانی سپاہ کا حملہ بیک وقت شمال میں بیدیاں ، پنوآں اور بلّانوالہ پر آیا
فرسٹ ایسٹ بنگال اور 7 بلوچ کی پلٹنوں کے سامنے حملہ آور سپاہ کو ایک دلدی میدان اور کچھ جگہوں پر کمر تک کھڑے پانی نے روکے رکھا۔ رہی سہی کسر سینیئر ٹائیگرز کی دفاعی پوزیشنوں کی شست باندھتی 7 گرینیڈیئرز کی کم ہمتی نے پوری کردی۔
سات اور آٹھ ستمبر کی رات ہندوستانی سپاہ کے جان توڑ حملے کے سامنےنائیک منیرالحق کی ڈھال تھی۔وہ اپنی مشین گن کے پیچھےسینہ سپرتھا
اس کےہتھیار نےتب تک آگ اگلنی بند نہ کی جبتک کہ منیرخودشہید نہ ہوگیا
دشمن کایہ حملہ پسپاہوگیا تھا۔ نائیک منیرالحق کوبعد ازشہادت تمغۂ جرات سےسرفراز کیا گیا
اٹھارہ ستمبر کو ہوئی جھڑپ میں نائیک تاج الاسلام مشین گن دستے کی کمان کررہا تھا جس کے مہلک فائر نے ہندوستانی سپاہ کا بہت جانی نقصان کیا۔ فائر گرانے کےدوران سامنے سے آئی گولیوں کی ایک باڑھ سے تاج الاسلام کا سینہ چھلنی ہوگیا۔ ہمارے جوانمرد نائیک کو بعد از شہادت تمغۂ جرات عطا کیا گیا تو اب جیسا کہ آغا حشر کے ڈراموں میں بدلتا ہے تو منظر بدلتا ہےاور ہم خود کو ایک پرآشوب اکہتر کے مارچ میں جیسور میں پاتے ہیں۔
25/26 مارچ 1971 کی درمیانی رات جب آپریشن سرچ لائٹ کا باقاعدہ آغاز ہوا تو فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ جیسور چھاؤنی میں نہیں تھی۔
سینیئر ٹائیگرز بھارت کی سرحد پر جگدیش پور گاؤں کے اطراف جنگی مشق میں مصروف تھے۔ 29 مارچ تک جب ایسٹ بنگال رجمنٹ اور ایسٹ پاکستان رائفلز کی یونٹیں باقاعدہ بغاوت کرچکی تھیں سینئیر ٹائیگرز کی صفوں میں سکوت تھا۔
کمانڈر جیسور بریگیڈیئر درانی کے احکام کی بجا آوری میں 25 بلوچ کے کرنل ڈین 30 مارچ کی صبح ہتھیار رکھوانے سینیئر ٹائیگرز کے کمانڈنٹ آفس پہنچ گئے۔ کیپٹن آفتاب بتاتے ہیں کہ اس حکم پر کمانڈنٹ فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ کرنل ضیاء الجلیل سناٹے میں آگئے۔
یونٹ کے صوبیدار میجرعظیم خان ستارۂ جرات نے شدید احتجاج کیا۔ ایس ایم عظیم نے یہ ستارہٗ جرات بیدیاں کے محاذ پر دادِ شجاعت دیتے ہوئے اپنے نام کیا تھا۔ جب مغربی پاکستانی کمانڈر کرنل ڈین اپنی مجبوری کی داستان سنا چکے تو فرط جذبات میں کرنل ضیاء نےاپنے شولڈر رینک اور صوبیدار میجر نے چھاتی کے وہ تغمے جن میں لاہور کے محاذ پر جوانمردی کی گواہی دیتا ستارۂ جرات جھلملا رہا تھا اتار پھینکے۔
25 بلوچ کے کرنل ڈین نے وائرلیس پربریگیڈ کمانڈر کو فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ کی بغاوت کی خبر دی اور جیپ میں ساتھ بیٹھے اپنے کمپنی کمانڈر کو بغاوت کچلنے کا حکم۔
بغاوت کا علم بلند نہ کرنے کی پاداش اور حکم کی تعمیل میں سرحدی علاقے سے ایک لمبے اور کٹھن مارچ کی تھکاوٹ میں پلٹے سینیئر ٹائیگرز کو 25 بلوچ کے مارٹر اور 55 فیلڈ رجمنٹ کی توپوں کے گولوں نے آدبوچا۔ ایک افراتفری کی دھکم پیل میں جو بچے وہ مشین گن کی گولیوں سے بھون دیئے گئے۔
1965 میں بیدیاں کے دفاع میں 15 جانوں کا نذرانہ دینے والی فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ سے 1971 کے جیسور میں اس کی اپنی فوج کی گولیوں نے 185 جوانوں کو نگل لیا تھا۔
سینئیر ٹائیگرز کے پہلے بنگالی کمانڈنگ افسر کرنل محمد عطاالغنی عثمانی نے بعد ازاں مکتی باہنی کے کمانڈر کی حیثیت سے شہرت پائی اور آزاد بنگلہ دیش میں بنگابیر کا لقب پایا
بی آر بی کےمورچوں پر سینہ تان کر لڑنے والالانس نائیک ابوالہاشم جسےحکومتِ پاکستان سے تغمۂ جرأت عطا ہوا تھا جب اسی پلٹن کےباغی ہونے کے بعد اپنے پیٹی بھائیوں کے خلاف لڑا توایک آزاد بنگلہ دیش کی حکومت نے اسے بہادری کے اعزاز بیر بکرم سے نوازا
لاہور میں رائل آرٹلری بازار کی قربت میں گنجِ شہیداں کی ایک یادگار بیدیاں کے محاذ پر لڑنے والے سینیئرٹائیگرز کو یاد کرتی ہے۔ سب سے اوپر شہیدوں کو حیاتِ جاودانی کی بشارت دیتا فرمانِ ربی ہے اور نیچے ایک دو کالمی کتبے پر نفیس انگریزی رسم الخط میں پندرہ نام درج ہیں۔
بیدیاں کےمحاذ پر کام آئے یہ نام اب بیگانے ہوچلے ہیں مگر آج بھی مشرقی بنگال کے آتش بجانوں کی محبت میں میجر(ریٹائرڈ) آفتاب احمد یہاں سُرخ گلاب رکھ جاتے ہیں۔ کتنی ہی برساتیں آئیں اور بیت گئیں مگر ایک اجنبی زمین پر گرے خون کے یہ دھبے ہیں کہ دُھل کے ہی نہیں دیتے۔
میں نے دیکھا ہے انہیں مانندِ تیغ بے نیام
مشرقی بنگال کے آتش بجانوں کو سلام
حوصلے ان کے جواں تھے ولولے ان کے مدام
اُن کا نعرہ انتقام و انتقام و انتقام
مشرقی بنگال کے آتش بجانوں کو سلام