مردم شماری، یا انسانوں کو گننے کی روایت پرانی رہی ہے۔ اس حوالے سے سب سے پرانی مکمل محفوظ دستاویز دو ہزار سال پرانی ہے جبکہ ہان خاندان نے چین کی مردم شماری کروائی تھی۔ اس وقت چین کی آبادی پانچ کروڑ چھہتر لاکھ اکتہر ہزار چار سو نکلی تھی۔ اس سے پرانی مردم شماریوں کا ہمیں برِصغیر میں چندرگپت موریا کی تین سو سال قبلِ مسیح جبکہ سب سے پرانی مردم شماری مصر کے فرعون آہموز اول کی کروائی گئی آج سے ساڑھے تین ہزار سال قبل کا پتا لگتا ہے۔ مردم شماری کا بنیادی مقصد نظامِ حکومت میں ٹیکس کی وصولی کی ٹھیک پلاننگ تھا۔ شماریات کے ذریعے نظامِ حکومت چلانے کی روایت یہیں سے نکلی۔
ملکی ڈیموگرافی کا ڈیٹا تفصیل سے اکٹھا کرنے میں جان گرونٹ نے کام کیا، جن کو شماریات کا خبط تھا۔ ان میں سے ایک پارٹ یہ تھا کہ جان گرونٹ نے پہلی بار اموات کا ڈیٹا اکٹھا کیا۔ اموات کا مطالعہ سماجی طور پر ممنوعات میں سمجھا جاتا تھا۔ موت خوفناک ہے لیکن گرونٹ کا کہنا تھا کہ وہ موت کو بدل نہیں رہے، صرف اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
لندن سے اکٹھے کئے گئے شماریات میں اس شہر کی آبادی تین لاکھ چوراسی ہزار تھی۔ کئی سالوں تک گرونٹ اموات کی شماریات اکٹھے کرتے رہے۔ ایک چیز جس کا انہوں نے پتا لگایا، وہ یہ کہ بھوک کی وجہ سے ہونے والی اموات ان کے اندازے سے بہت کم تھیں۔ (برطانیہ نے ان اعداد و شمار کو دیکھ کر بھکاریوں کو کھانا فراہم کرنے کا پروگرام شروع کیا اور شہر، جو بھکاریوں سے بھرا ہوا تھا، ان کی تعداد چند ہی سال میں ختم ہو گئی)۔ کم عمری میں ہونے والی اموات کی شرح ان کے اندازے سے زیادہ تھی۔ مرنے کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ طاعون تھی۔ اس کے بعد “دانت اور کیڑے” جس کی وجہ سے چودہ ہزار ہلاکتیں ہوئیں۔ تپ دق جس کی وجہ سے تیس ہزار اموات ہوئیں۔ بھوک سے ہونے والی اموات کم تھیں۔ کئی دوسری وجوہات میں “پیٹ نے کام کرنا بند کر دیا”، “اداسی”، “سستی”، “خوف”، “خارش” بھی تھے۔
اس سب ڈیٹا کی مدد سے انہوں نے اپنی کتاب 1662 میں شائع کی۔ یہ ڈیموگرافی کی پہلی کتاب تھی، جس میں کئی دوسرے اعداد و شمار کے ساتھ متوقع زندگی کے بارے میں ٹیبل موجود تھا۔ 100 بچوں میں سے صرف 74 ایسے تھے جو چھ سال کی عمر تک پہنچتے تھے۔ تین چوتھائی آبادی 26 سال کی عمر تک زندہ نہیں رہتی تھی۔ صرف دس فیصد افراد 46 سال کی عمر تک پہنچ پاتے تھے۔
سترہویں صدی کے لندن کا یہ ڈیٹا آج کا مقابلہ کیسے کرتا ہے؟ اس کے لئے ساتھ لگی تصویر میں ٹیبل بنا ہے۔ آج اس حوالے سے دنیا میں سب سے پسماندہ ممالک افغانستان اور موزمبیق ہیں۔ یہاں پر چھبیس برس تک پہنچنے والوں کی تعداد بالترتیب 67 اور 79 فیصد ہے جبکہ نصف سے زائد لوگ چھیالیس برس تک پہنچتے ہیں۔ برطانیہ، جرمنی، فرانس اور جاپان میں چھیالیس برس تک پہنچنے والوں کی شرح اب 97 فیصد سے زیادہ ہے۔ سترہویں صدی کا یہ شہر آج کے پسماندہ ترین علاقے سے بھی مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ اب ہم شہروں میں رہنا سیکھ چکے ہیں اور موت کی وجوہات میں سے کئی پر قابو پا لیا ہے۔
گرونٹ کی اپنی زندگی کا خاتمہ خوشگوار نہیں تھا۔ لندن کی بڑی آتشزدگی نے ان کے گھر اور کاروبار کو جلا کر خاکستر کر دیا تھا۔ اس سے کچھ عرصے بعد 53 برس کی عمر میں یرقان اور جگر کی بیماری کے ہاتھوں انتقال کر گئے۔
شماریات پر لکھی ان کی کتاب جو ہمیں ساڑھے تین سو سال پہلے کی زندگی کے بارے میں آگاہ کرتی ہے،
Observations on the Bills of Mortality