بندیال، ضیا اور قدرت کا قانون
یہ اپنی نوعیت کا حیران کن واقعہ ہے، جس کی پاکستانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
قدرت نے فاروق بندیال سے چالیس برس بعد ایسا انتقام لیا، جو ناممکن لگتا ہے، جس کا کل تک تصور بھی محال تھا۔
اسے گم نامی سے نکال کر لایا گیا، اور لعنت بنا دیا گیا۔
وہ جرم، جسے شاید خود بھی وہ بھول چکا ہو، وہ گناہ، جو اس کے آس پاس بسنے والوں کے ذہنوں سے محو ہوگیا ہو، وہ مکروہ عمل، جس سے اٹھارہ کروڑ عوام بے خبر تھے، اور بندیال سہولت سے کاروبار اور سیاست کر رہا تھا، چالیس سال بعد ۔ ۔ ۔ یک دم سامنے آگیا۔ اخباری تراشوں سمیت، تمام تر تفصیلات کے ساتھ۔
فاروق بندیال کا نام بدی کی علامت بن کر فقط چند گھنٹوں میں پورے ملک میں پھیل گیا۔ ایک شخص، جس کا کروڑ افراد کل تک نام بھی نہیں جانتے تھے، یک دم ایک وحشی، جنسی درندے کا روپ دھار گیا، ایک مجرم، ایک ظالم۔
وہ شخص، جو مہنگی گاڑی میں سفر کرتا، نفیس لباس میں، خوشبو پہنے نئے سیاسی سفر کے لیے نئی سیاسی جماعت کے قائد سے ملنے گیا تھا، چند گھنٹوں بعد برہنہ ہوگیا۔
اگر چالیس سال قبل فاروق بندیال کو سزائے موت ہوجاتی، تب بھی یہ سزا اس سزا سے کم ہوتی، جو آج، میڈیا اور سوشل میڈیا کے اس ظالم دور میں، اسے ملی۔
وہ چالیس سال قبل کیے ہوئے گناہ کے باعث (جسے زیادتی کے بجائے ڈکیتی کیس کہا جاتا تھا) چالیس سال بعد پورے ملک میں رسوا ہوا، وہ جن سے ہاتھ ملانے گیا تھا، انھوں نے ہاتھ کھینچ لیا۔ اور اسے مجرم اور رئپسٹ ٹھہرا کر نکال باہر کیا۔
فاروق بندیال کے خاندان میں ضرور بیٹیاں اور بہوئیں ہوں گی، نواسیاں، پوتیاں ہوں گی، ان کے لیے یہ باپ، چچا، نانا، دادا ہوگا،
مگر اب ۔ ۔ ۔ اب یہ ان کے لیے ایک رئپسٹ ہے۔
ان بیٹیوں بہوئوں کے لیے، نواسیاں، پوتیوں کے لیے، ان کی سہلیاں کے لیے، ان سہلیوں کے خاندان والوں کے لیے، اب فاروق بندیال کا نام ایک داغ ہے۔
یہ ہے قدرت کا انتقام، وہ وار، جو کاری ثابت ہوا۔
اب وہ ان پارٹیوں کے لیے بھی لعنت ہے، جن سے پی ٹی آئی میں شمولیت سے قبل اس کا تعلق تھا۔
اور قدرت نے یہ انتقام ایک اور شخص سے بھی لیا، وہ شخص، جس نے اسلام کو اپنے مفاد میں استعمال کیا، جس نے بار بار وعدہ خلافی کی، جس نے مقدس کتاب پر ہاتھ رکھ کر جھوٹی قسمیں کھائیں، جس نے اپنے محسن سے دغا کیا۔
وہ ضیا الحق، جس نے نصرت بھٹو کی آخری معافی کی اپیل کو رد کر دیا تھا، اسی نے فاروق بندیال کی سزائے موت معاف کر دی تھی۔
آج قدرت نے فاروق بندیال کے ساتھ ضیا الحق کے چہرے سے بھی نقاب اتار دیا۔
گو ضیا کے معاملے میں یہ پہلا موقع نہیں ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“