قدرت اللہ شہاب ہماری ادبی اور سیاسی تاریخ کا ایک اہم باب ہیں۔ بہت کچھ اس حوالے سے لکھا گیا اور بہت کچھ سامنے آنے کا منتظر ہے۔ کچھ اہم حصے اس داستان کے جناب جمیل الدین عالی کے سینے میں محفوظ ہیں۔ خدا انہیں وقت اور صحت دئیے رکھے کہ وہ یہ کام کر ڈالیں۔شہاب صاحب کا ایک بڑا کارنامہ ادیبوں کو ایک تنظیم میں پرونا تھا۔ پاکستان رائٹرز گلڈ انہی کے زیر سایہ بنی۔ اس کے پہلے سیکرٹری جنرل بھی وہی تھے۔ آدم جی ادبی ایوارڈ جیسے انعامات قائم کئے جو ایک عرصہ تک وقیع رہے اور باعزت بھی!
اس سارے قصے میں قدرت اللہ شہاب کا ایک ممتاز کارنامہ ادبی پیش منظر پرجعفر طاہر کی آمد تھی، اگر یہ کہا جائے کہ جعفر طاہر شہاب صاحب ہی کی دریافت تھے تو شاید غلط نہ ہو ۔جعفر طاہر فوج کے شعبہ تعلیم میں ایک عام سی سطح پر کام کررہے تھے مگر کمال کے شاعر تھے! کلام پر حیرت انگیز قدرت تھی۔ لغت سامنے دست بستہ کھڑی رہتی تھی۔ عالم اسلام کی تاریخ پر گہری نظر تھی۔ ’’ہفت کشور‘‘ کے نام سے معرکے کی کتاب لکھی جس کی نظیر کم از کم اردو ادب میں نہیں ہے۔ اس میں سات مسلمان ملکوں (پاکستان، سعودی عرب، مصر، الجزائر، ترکی، عراق، ایران) کا منظوم احوال ہے۔ احوال کیا ہے ایک طلسم ہے جو اول سے آخر تک چھایا ہوا ہے۔ کتاب پر، پڑھنے والے پراوران ملکوں پر ،تاریخ بھی ہے، کلچر بھی ہے، عالمی سیاست بھی اور مستقبل کے خواب بھی۔ ہئیت کے لحاظ سے جعفر طاہر نے اس ایک کتاب میں جتنے خوشگوار تجربے کئے ہیں پورے عہد میں نہیں ہوئے۔ کینٹو بھی ہیں، گیت بھی، نظمیں بھی، غزلیں بھی، منظوم ڈرامے بھی، بحور کے عجائبات بھی ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے ایک نظم کی ایک سطر دیکھئے۔
گل و گلزار کے اورنگ ہمہ رنگ پہ یہ نغمہ و آہنگ مرے جھنگ و تلہ گنگ کی بہتی ہوئی لے
انتساب قدرت اللہ شہاب کے نام کیا اور ساتھ کیا خوبصورت اورمعنی خیز مصرع لکھا
آں مہرباں کہ آبرئوے ہفت کشور است!
لیکن یہ سب آج کی تحریر کا اصل موضوع نہیں۔
ماتم اور ہے، جعفر طاہر شاعر تو باکمال تھے تاہم روزمرہ زندگی کے معاملات میں شہرت قابل رشک نہ تھی۔ وعدے کے پکے نہ تھے، قلابے زمین و آسمان کے ملاتے تھے اور برآمد کچھ بھی نہیں ہوتا تھا، روایت ہے کہ ایک بار جب وہ مری میں تعینات تھے ،کچھ ادیب شاعر کسی سلسلے میں وہاں جمع ہوئے جعفر طاہر نے کھانے کی دعوت دی۔ ایک دن مقرر کیا ،سب کو اپنے گھر تشریف آوری کے لئے کہا اور ماحضر کی تفصیل اس وقت بتادی کہ اشتیاق پیدا ہو اور حاضری بھرپور ہو۔ مہمانوں کو بتایا کہ وہ ہرن کو سالم روسٹ کروا رہے ہیں۔ اس کے اندر بکری کا بچہ ہوگا۔ اس کے اندر مرغ ہوگا اس کے اندر بیضہ ہائے مرغ بریاں کئے ہوئے ہوں گے۔ پلائو اور خشک میوہ جات بھی ہرن کے اندر سے نکلیں گے۔ ادیبوں، شاعروں کے منہ میں پانی بھر آیا۔ دعوت سے پہلے دو یا تین جتنے بھی دن تھے ، کھانے کی تفصیلات کے تذکرے ہوتے رہے۔ شوق کو مہمیز لگتی رہی۔ اشتہا بڑھتی رہی، گھر کا ایڈریس پوچھا جاتا رہا۔ طے ہوتا رہا کہ کس نے کس کے ہمراہ پہنچنا ہے اور کس نے کس وقت کس کا انتظار کرنا ہے۔ آخر مقررہ دن مقررہ وقت پر معزز مہمانوں کا یہ قافلہ چلا اور میزبان کے عشرت کدے پر پہنچا۔ افسوس! دروازہ مقفل تھا، میزبان کا کچھ پتہ نہ تھا۔ کیا منظر تھا! تصور کیجئے۔ دلوں میں سالم روسٹ ہرن، بکری کے بچے، مرغ بریاں انڈوں، پلائو اور خشک میوہ جات کے خواب لئے، قابل رحم، معصوم مہمان خواہش اور حسرت کے ساتھ گلی میں کھڑے ہیں اور سامنے کیا ہے، ایک بند دروازہ اور اس پر پڑا ہوا قفل!
بالکل یہی حال آج کل ہم ا ہل پاکستان کا ہے۔ خوابوں کی وسیع و عریض دنیا ہے جس میں پرستان ہیں اور دلکش پھولوں اور رنگین پرندوں سے چھلکتے باغ، تاحد نظر مخمل کا فرش، رواں پانی کی نہریں، اڑتے بادلوں اور سنہری دھوپ سے بھرے موسم، کیسی کیسی دلکش آوازیں ہیں جو سماعتوں سے ٹکرارہی ہیں۔ ہم عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت ہیں۔ ہم ستائیسویں کو وجود میں آئے تھے۔ بال بھی کوئی نہیں بیکا کرسکتا۔ ہم اسلام کا قلعہ ہیں ، ہم عالم اسلام کے رہنما ہیں۔ کارواں سارے ہماری رہنمائی کے اور سفینے تمام ہماری ناخدائی کے محتاج ہیں۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے ہم سنگ میل ہیں۔ ہم ہی نشان منزل ہیں، چیچنیا ہو یا فلسطین سب ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے اشارہ ابرو کے منتظر ہیں کہ کب ہم بزن کا نعرہ لگاتے ہیں اور دنیا ہماری پیروی کرتی ہے۔ وائٹ ہائوس پر پرچم ہم نے لہرانا ہے اور بس وہ وقت اب قریب ہے!
ہمارے خوابوں کی وسیع و عریض سلطنت پر سورج کبھی غروب نہیں ہوتا لیکن افسوس! آنکھ کھلتی ہے تو سامنے بند دروازہ ہے اور اس پر پڑا قفل! تھر کے صحرا میں بلکتے بچے ہیں اور تعداد میں بڑھتی قبریں، سرحدوں کی طرف ہجرتیں کرتے اقلیتوں کے ارکان، مسجدوں کے لائوڈ اسپیکروں سے نشر ہونے والے احکام کہ مار ڈالو، زندہ جلا دو لاشوں کو گھسیٹو۔ ہر لحظہ بڑھتی آبادی اور ہر آن گھٹتی شرح خواندگی! وائٹ ہائوس پر جھنڈا لہرانے کے خواب دیکھنے والی قوم سات عشروں میں وزیرستان، سوات اور فاٹا کے علاقوں کو ایک یونیورسٹی، ایک کارخانہ نہ دے پائی! اسلام کا قلعہ ہونے کا مدعی یہ ملک سڑسٹھ سالوں میں ایسا نظام تعلیم نہ وضع کرسکا کہ یونیورسٹیوں کالجوں میں پڑھنے والے طلبہ قرآن کی آیات کا مفہوم اخذ کرسکیں! اکثریت کو پانچ وقت پڑھی جانے والی نماز کا مطلب تک نہیں معلوم! دنیائے اسلام کی فکری اور عسکری رہنمائی کا دعویٰ کرنے والی یہ قوم، ہزاروں مدارس میں پڑے ہوئے لاکھوں بچوں کو جو لعل و جواہر سے کم نہیں، آج تک چندے اور چٹائی سے اوپر نہیں اٹھا سکی۔ جس ملک میں عدلیہ کی بحالی کے لئے عصر رواں کی عظیم ترین تحریک چلی اسی ملک میں بیٹیوں، بہنوں، مائوں اور بیویوں کی زندگیاں پنچائیت اور جرگے کے فرمان پر اٹکی اور لٹکی ہوئی ہیں۔ سات سمندر پار حجاب پر پابندی کے خلاف احتجاج کرنے والوں کی اپنی بیٹیاں گلیوں میں آئے دن برہنہ پھرائی جارہی ہیں۔ وحدت ملت کے نعرے رات دن لگانے والے خود نصف درجن قومیتوں میں بٹے ہوئے ہیں یوں کہ سب باہم برسرپیکار ہیں۔
دکانوں کی پیشانیوں پر آیات اور درود پاک آویزاں اور اندر ملاوٹ اور جعل سازی کی شاہکار اجناس۔ دوا سے لے کر غذا تک سامان ہلاکت بکھرا پڑا ہے۔ اندر ٹیکس بچانے کے لئے دہرے دہرے رجسٹر اور باہر شاہراہ سے لے کر فٹ پاتھ تک ناروا تجاوزات اور صدقے اور خیرات!
فتح اللہ گولن نے فتویٰ دیا ہے کہ ’’فزکس ریاضی اور کیمسٹری کے علوم حاصل کرنا اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے۔‘‘ گولن نے یہ فتویٰ آج دیا ہے ایک فتویٰ نوے برس قبل برصغیر میں بھی دیا گیا تھا۔ سید سلیمان ندوی نے 1925ء میں کہا تھا ….. ’’علما ء پر آج انگریزی کا جاننا بھی فرض ہوگیا ہے۔‘‘ فزکس کیمسٹری اور ریاضی کے علوم تو دور کی بات ہے، ابھی تک یہاں ’’غیر اسلامی‘‘ زبانوں کی حلت و حرمت ہی کا فیصلہ نہیں ہوا۔ وحدت ملت! کون سی وحدت؟ قوم خود دو گروہوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک گروہ فزکس ریاضی اور سائنس انگریزی زبان میں پڑھ رہا ہے لیکن اسے یہ نہیں معلوم کہ یہی پڑھائی عبادت میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ دوسرا گروہ پہلے گروہ ہی کا منکر ہے اور پہلا گروہ دوسرے گروہ سے خائف۔
خواب اور دعوے اور نعرے …. اور سامنے بند دروازہ اوراس پر پڑا قفل!!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔