بندر سے بنا نیم انسان۔۔۔ جوابھی مکمل انسان بننے کی سیڑھی پر ہے!!!
ہم جس سیارہ زمین پر رہتے ہیں، وہ نظام شمسی میں ایک مہین ذرے کی طرح، ایک معمولی ڈاٹ کی طرح، سورج کے گرد گردش کر رہا ہے ۔ اگر آپ اپنی ہتھیلی کو سورج کے سائز سے نسبت دیں تو اس پر پین سے لگائے ہوئے ڈاٹ کی وہی نسبت ہوگی جو زمین کی سورج کے ساتھ ہے۔
ہمیں اپنی بہترین ٹیکنالوجی کے ساتھ بھی، چالیس ہزار کلو میٹرفی گھنٹہ کی رفتار سے اڑنے والے جدید راکٹ ، کو اپنے قریبی سیارہ مریخ پر بھیجنے میں 6 سے 9 ماہ لگتے ہیں۔ جب کہ مریخ پر اتارے روبوٹ کو، زمین سے، دائیں بائیں موڑنے کے لئے، روشنی کی رفتار (300,000 Km/Sec) سے بھیجے ہوئے سگنل کو آنے اور جانے میں 20 منٹ درکار ہوتے ہیں۔۔۔
سورج کے بعد ہمارہ قریب ترین ستارہ (سیارہ نہیں، ستارہ)۔۔۔ الفا سن ٹورین، ہم سے 5۔4 نوری سال (ایک سال میں روشنی کا طے کیا ہوا فاصلہ ایک نوری سال کہلاتا ہے) کی مسافت پر ہے۔ ہمارے جدید ترین راکٹ کے ساتھ، ہمیں وہاں پہنچنے میں 25 ہزار سال لگیں گے۔۔۔
ہمارا نظام شمسی، ہمارا سورج اپنے نو سیاروں سمیت، دودھیا راستے والی گلیکسی، ملکی وے، کے ایک پھیلے ہوئے بازو کی گرد میں گم ہے۔ اس گلیکسی کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچنے کے لئے ، روشنی کی رفتار سے اڑ کر پہنچنے میں، 100,000 سال لگیں گے۔۔۔
ملکی واے جیسی لاکھوں، کروڑوں، اربوں کہکشائیں ، ان کہکشاؤں سے بھی بڑے بڑے مادی گرد کے بادل، اور دوسرے اجسام ، اس کائنات میں تیزی سے اڑتے ہوئے دور سے دور تک جا رہے ہیں۔۔۔
یہ ہے انسان کے مادی سائنسی علم و عقل کا نچوڑ۔
کائنات کی عظیم وسعتوں میں پھیلے ہوئے یہ لامحدود عوامل ہمارے لئے کیا معانی رکھتے ہے؟
ہم کون ہیں اور کائنات کے ایک دوردراز اور گم نام گوشے میں کیا کر رہے ہیں؟
زندگی کا راز کیا ہے؟
یہ وہ بنیادی سوال ہیں جو کبھی نہ کبھی ہر سوچ سمجھ رکھنے والے انسان کے دماغ میں ابھرتے ہیں۔ بیشتر لوگوں کے لئے ایسے سوالوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی جب کہ دوسرے اتنی بڑی کائنات میں انسان کی موجودگی کو سمجھنا چاہتے ہیں۔ ہمیں کائنات کی وسعتوں میں ، اس، حادثاتی طور پر دی گئی زندگی، کو پہچاننا ہوگا۔
مذاہب نے صدیوں سے ، تصور خدا کی روشنی میں ، ہر طرح کے سوالوں کے جواب دیئے ہیں۔ دوسری طرف انسانوں نے قدرت کی مادی تشریح بھی کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگرسوال یہ ہے کہ مادیت پر مبنی سائنس کیا انسان کو کائناتی سچائی سے آگاہ کرسکی ہے۔۔۔!!!
اکیسویں صدی کا انسان ایک دوراہے پر کھڑا ہے ۔ ایک طرف تو کم علمی، جہالت، نفرت اور تعصب کے تانے بانے ہیں جس کی بنیاد پر اس کے کئے ہوئے فیصلے اسے جنگوں، ایٹمی بموں، اور مہلک ہتھیاروں کے استعمال سے اس سیارۂ زمین کی تبا ہی و بر بادی اور اجتماعی خودکشی کے راستے پر گامزن کریں گے ۔ دوسری طرف امن آشتی، انسانیت، پیار محبت اور بھائی چارے کی منزلیں ہیں جو اسے ارتقاء کی اگلی منزلوں تک پہنچا سکتی ہیں۔ جوں جوں ہم جدید سماجی ، سیاسی، اقتصادی اور سائنسی علوم سے آگاہ ہونگے ہم نہ صرف اپنے لئے بلکہ آنے والی نسلوں کے لئے ایک بہتر اور خوبصورت دنیا چھوڑ جائیں گے۔
میری کتاب بھی اسی خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی ایک معمولی کاوش ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔