یہ ایک محاورہ ذہن میں آیا تو سوچا کچھ دانش کے موتی پروئے جاٸیں اس محاورے کو سامنے رکھتے ہوئے دراصل ہم لوگ خود کو ہر کام کا اہل جانتے ہیں مگر قدرت نے یہ نظام ایسا نہیں بنایا ہوا سب لوگ سب کام نہیں کر سکتے اور جب تک اس حقیقت کو تسلیم نہ کیا جائے آگے بڑھنے کا راستہ دھندلا ہی رہے گا ، یونيورسٹی کے زمانے کے واقعہ سے ابتدا کرتی ہوں کہ ایک رات میں اپنے کمرے میں اکیلی تھی اچانک دروازہ کسی نے کھٹکھٹایا کھولا تو سامنے ایک ہاسٹل فیلو کھڑی تھی جس سے آتے جاتے ہیلو ہائے ہو جاتی، ہاتھ میں ایک تھیلا لیئے اندر آگٸی اور کہنے لگی کہ مجھے کچھ دیر اپنے کمرے میں بیٹھنے دو میں بھی پاس بیٹھ گٸی، اب جو اس نے شاپر کھولا تو اندر سے ایک رشٸین سیلڈ کا پیک اور ساتھ ایک سوٹ نکلا، وہ بڑے مزے سے بیٹھ کر سیلڈ کھاتی رہی اور سوٹ بھی گود میں رکھا رہا میں بڑے غور سے اسے دیکھتی رہی اصل بات پوچھنے کی ہمت نہ ہو کہ نہ کوٸی خاص جان پہچان نہ دوستی اور کیوں میرے پاس آٸی ،جب اس نے اکیلے ہی وہ سیلڈ ختم کر لیا تو خود ہی کہنے لگی کہ میں یہ سب لے کر اپنی روم میٹس کے پاس نہیں جا سکتی تھی اس وجہ سے ادھر آگٸی یہ سوٹ اور سیلڈ میرے بوائے فرینڈ نے مجھے لے کر دیا ہے، مجھے سن کر حقیقی معنوں میں بہت تکلیف ہوٸی کہ زبان کے معمولی سے ذاٸقے سے لطف اندوز ہونے کے لیئےیہ لڑکی کیسے کسی کے ساتھ چلی گٸی وہ سیلڈ کا پیک کتنا اہم تھا اس کے لیئے جو ہماری روز مرہ زندگی میں عام سا تھا، وہ سوٹ کتنا قیمتی تھا اس کے لیئے جسے ہم درخور اعتنا ہی نہ سمجھتے تھے۔
وہ جس دور افتادہ علاقہ سے تعلق رکھتی تھی وہاں ایسی چیزوں کا کا تصور محال تھا۔ اس دن میں نے طے کیا کہ گھر میں رکھے ہوے ملازم ہوں یا دور افتادہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے سادہ زندگی بسر کرنے والے لوگ، انھیں اچھا کھانا ضرور کھلاٸیں مگر جو چیزیں ان کی روزمرہ زندگی میں شامل نہیں انھیں وہ دے کر ذاٸقے کی نٸ دنیا سے آشنا کروانا انھیں برباد کرنے کے مترادف ہے کیونکہ فاختہ کا کھانا کوا نہیں کھاتا اور شیر کا کھانا ہاتھی نہیں کھاتا، یہ جو سب برابر کا نعرہ ہے ڈاٸیلاگ کی حد تک اچھا ہے مگر اصل زندگی میں سب برابر نہیں ہر کوٸی الگ ہے،پہلے ذاتیں برادریاں بہت اہم ہوا کرتی تھیں اس کی بھی یہی وجہ تھی کہ ایک برادری کے لوگوں میں بہت کچھ قدر مشترک ہوا کرتا ہے پھر لوگ کہتے تھے کہ دریا کے پار لڑکی نہیں بیاہیں گے تو ان سب کہاوتوں کی کسی حد تک حقیقت موجود ہے ایک برادری کے لوگ کافی حد تک ایک دوسرے کی خامی و خوبی سے واقف ہوتے ہیں اور رشتے بناتے وقت یہ باتیں بہت اہم ہوتی ہیں ،اسی طرح کچھ لوگ ساٸنس کے مضامین اچھی طرح پڑھ سکتے ہیں کچھ کو حساب کتاب اچھا آتا ہے اور کچھ تصویریں خوب بناتے ہیں یہ سب زندگی کے مختلف شعبے ہیں جو انسانی معاشرہ کو مضبوط بناتے ہیں، کسی کو زیب نہیں دیتا کہ وہ دوسرے شعبے کو حقیر جانے ،ہر کوٸی زندگی کی دیوار میں کڑی بن کر اپنا اپنا کام کر رہا ہے پریشانی تب شروع ہوتی ہے جب ہم ہر کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر کچھ بھی نہیں کر سکتے، مذہب اور ساٸنس کی بحث ہو یا ادب اور میڈیسن کی سب ہی ایک دوسرے کو کمتر ثابت کرنے پر تلے ہوتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ یہ ہمارا کام نہیں، ہمیں جو ہنر یا کام آتا ہے اس کے بارے میں بات کی جائے تو شاٸد دوسرا انسان قاٸل بھی ہو۔