بھارت کے موجودہ صدر پرناب مکرجی کا سیاسی کیرئیر چالیس سال سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے اور اس قدر بھرپور ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ سیاست اور حکومت دونوں میں شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہے جس میں ان کا تجربہ نہ ہو۔ پچیس سال کا تجربہ صرف وفاقی وزارتوں کا ہے۔ وہ صنعتی ترقی، جہازرانی، بینکاری، محصولات، تجارت، سٹیل، معدنیات، مالیات، خارجہ امور اور دفاع کے شعبوں کے وزیر رہے۔ پانچ سال پلاننگ کمیشن کے سربراہ رہے۔ راجیہ سبھا میں لیڈر آف ہائوس رہے۔ مختلف وقتوں میں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور افریقی ترقیاتی بینک کے بورڈ آف گورنرز میں رہے۔ کانگریس کی انتخابی مہم کے سربراہ رہے۔ مغربی بنگال میں کانگریس کے چیئرمین رہے۔ سارک وزراء کونسل کے صدر رہے۔ آل انڈیا کانگریس کے جنرل سیکرٹری اور مرکزی الیکشن کمیشن کے چیئرمین رہے۔ آٹھ سال لوک سبھا میں لیڈر آف ہائوس رہے۔ پانچ کتابوں کے مصنف بھی ہیں جن میں دو Emerging Dimensions of Indian Economy اور Challenge Before Nation خاصی معروف ہیں۔
پرناب مکھر جی سے پہلے پرتاب پٹیل صدر تھیں۔ یہ بھارت کی بارہویں صدر تھیں۔ یہ خاتون ستائیس سال کی عمر میں ریاست مہاراشٹر کی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔ جب 2007ء میں وہ صدر بنیں تو عمر 73برس تھی۔ گویا 46 سال سیاست کے سمندر میں سفینہ راں رہیں۔ پندرہ سال مہاراشٹر میں مختلف صوبائی وزارتوں کی انچارج رہیں۔ راجیہ سبھا کی ڈپٹی چیئرمین رہیں۔ درجنوں پارلیمانی کمیٹیوں کی سربراہی کی۔ سالہاسال لوک سبھا میں ہائوس کمیٹی کی چیئرمین رہیں۔ تین برس راجستھان کی گورنر رہیں۔ تب کہیں 73 سال کی عمر میں صدر منتخب ہوئیں۔ حکیم سنائی نے کہا تھا: ؎
سال ہا باید کہ تایک سنگ اصلی زافتاب
لعل گردد در بدخشاں یا عقیق اندر یمن
پتھر برس ہا برس دھوپ میں پڑا رہے تب کہیں جا کر بدخشاں میں لعل یا یمن میں عقیق کی صورت اختیار کرتا ہے۔
عمرہا باید کہ تا یک کود کی از روئی طبع
عالمی گردد نکو یا شاعری شیریں سخن
ایک ننھے بچے کو نیکو کار عالم یا شاعر شیریں سخن بننے کے لیے زمانے درکار ہیں
روز ہا باید کہ تا یک مشت پشم از پشت میش
زاہدی را خرقہ گردد یا حماری را رسن
یہ جو بھیڑ کی پیٹھ سے ہم مٹھی بھر اون کترتے ہیں وہ یوں ہی تو کسی صوفی کا خرقہ یا کسی گدھے کی رسّی نہیں بن جاتی‘ اس میں ایک عرصہ لگ جاتا ہے۔
بھارت کے تیرہ کے تیرہ صدر منصب صدارت پر فائز ہونے سے پہلے ہی اپنے اپنے شعبوں میں بام عروج پر تھے۔ پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرشاد نے قانون میں ماسٹرز کا امتحان دیا تو گولڈ میڈل لیا‘ پھر الٰہ آباد یونیورسٹی سے قانون ہی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ پٹنہ یونیورسٹی کی سینیٹ اور سنڈیکیٹ کے ابتدائی ارکان میں سے تھے۔ سات کتابیں تصنیف کیں۔ دوسرے صدر ڈاکٹر رادھا کرشنن لندن اور مانچسٹر کی یونیورسٹیوں میں پڑھاتے رہے۔ تین سال آکسفورڈ یونیورسٹی میں پروفیسر رہے۔ نو سال بنارس ہندو یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے۔ اس سے پہلے پانچ برس آندھرا یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے۔ جب بھارت کے صدر بنے تو شاگردوں نے اجازت چاہی کہ 5ستمبر کو ان کی سالگرہ منائیں۔ رادھا کرشنن نے خواہش ظاہر کی کہ یہ دن یوم اساتذہ کے طور پر منایا جائے۔ چنانچہ آج بھی بھارت میں یہ دن ٹیچرز ڈے کی حیثیت سے منایا جاتا ہے۔ رادھا کرشنن نے مغربی فلسفیوں کے بارے میں کہا کہ ساری نام نہاد غیر جانبداری کے باوجود یہ حضرات اپنے کلچر کی مذہبیات سے متاثر ہیں۔ فلسفہ، تقابل ادیان اور ہندو نظریۂ حیات پر ایک درجن سے زائد کتابیں لکھیں۔ تیسرے صدر ڈاکٹر ذاکر حسین کے جد امجد حسین خان 1715ء میں کوہاٹ سے یو پی آئے تھے۔ ذاکر حسین نے برلن (جرمنی) سے اکنامکس میں پی ایچ ڈی کی۔ واپس آ کرجامعہ ملیہ اسلامیہ کے سربراہ بنے اور اکیس برس اس منصب پر فائز رہ کر تعلیم کے میدان میں ان تھک خدمات سر انجام دیں۔ تقسیم ہند کے وقت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بے پناہ مشکلات کا شکار تھی۔ ذاکر حسین وائس چانسلر بننے پر رضامند ہوئے اور آٹھ سال مسلسل محنت کرکے اسے گرداب سے نکالا۔ بھارت کا صدر بننے سے پہلے پانچ سال تک بہار کے گورنر بھی رہے۔ دو درجن سے زیادہ کتابیں تصنیف کیں۔ بچوں کی تربیت کے لیے ان کی بعض کتابیں کلاسک کا مرتبہ حاصل
کرچکی ہیں۔ ایک اور صدر شنکر دیال شرما نے کیمبرج سے قانون میں پی ایچ ڈی کی اور وہیں پڑھاتے بھی رہے۔ پانچویں صدر فخر الدین علی احمد نے کیمبرج سے قانون کی ڈگری لی۔ دسویں صدر رامن نرائن‘ جو جھونپڑی میں پیدا ہوئے‘ لندن سکول آف اکنامکس کے گریجوایٹ تھے جہاں وہ شہرۂ آفاق انگریز مفکر ہیرلڈ لاسکی کے طالب علم رہے۔ ڈاکٹر عبدالکلام صدر بننے سے پہلے سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں شہرت حاصل کر چکے تھے۔ ڈاکٹر سوما راجو اور عبدالکلام نے مل کر دل کے مریضوں کے لیے ایک نسبتاً ارزاں سٹنٹ ایجاد کیا تھا جسے ’’کلام راجو سٹنٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ عبدالکلام نے اپنی شہرت اور ملک کی صدارت سے کوئی ذاتی فائدہ نہیں اٹھایا۔ اپنے لیے کوٹھیاں تعمیر کیں نہ اپنی اولاد کے لیے۔ تعلیم کے میدان میں بے پناہ کام کیا۔ ایک درجن کتابیں تصنیف کیں۔ خود نوشت Wings of Fire ان کے علاوہ ہے۔ اس کے درجنوں ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ لاکھوں نسخے فروخت ہوئے ہیں۔ تیرہ بھارتی زبانوں کے علاوہ چینی اور فرانسیسی تراجم بھی بے حد مقبول ہوئے۔
اب آپ ان شخصیات کو دیکھیے جو پاکستان کی صدر رہیں۔
پانچ صاحبان (سکندر مرزا، ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق، پرویز مشرف) سرکاری ملازم تھے جو شب خون مار کر اقتدار پر قابض ہوئے اور غاصب ٹھہرے۔ صرف دو صدر ذوالفقار علی بھٹو اور فاروق لغاری باہر کی مشہور یونیورسٹیوں کے پڑھے ہوئے تھے۔ بھٹو کے سوا مصنف کوئی بھی نہیں۔ ایوب خان اور پرویز مشرف نے ٹھیکے پر کتابیں لکھوائیں۔ یہ کتابیں اب فٹ پاتھوں پر بھی نہیں ملتیں۔ غلام اسحاق خان کا سیاسی یا دانشورانہ کیرئیر صفر تھا۔ صرف دو صدر سیاسی کارکن رہے۔ فضل الٰہی چودھری اور فاروق لغاری۔ ہمارے کسی صدر کا پی ایچ ڈی سے یا کسی یونیورسٹی کی سربراہی سے دور دور کا تعلق نہیں رہا۔ رفیق تارڑ، آصف زرداری اور ممنون حسین جن وجوہات کی بنا پر صدر بنائے گئے تھے ان کا تذکرہ نہ کرنا، تذکرہ کرنے سے بدرجہ ہا بہتر ہے۔
آج کے پاکستان میں سرتاج عزیز ایک ایسی شخصیت ہیں جن سے صدر پاکستان کے عہدے کا وقار بڑھ سکتا تھا۔ ان کا صدر منتخب ہونا اس صحت مند روایت کے مطابق ہوتا جس کی بھارت میں پیروی کی جاتی ہے۔ میڈیا اور اہل دانش کی اکثریت ان کے نام پر متفق تھی۔ وہ اقوام متحدہ میں بلندہ مرتبہ مناصب پر فائز رہے۔ ایک بڑی یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ عالمی شہرت رکھتے ہیں۔ وہ سیاسی، اقتصادی، معاشرتی اور بین الاقوامی مسائل پر اردو اور انگریزی میں بے تکان بولتے ہیں لیکن سرتاج عزیز جیسی شخصیات کی اس ملک کو ضرورت نہیں۔ ؎
زمیں ہم شہسواروں کے لیے ہے تنگ اظہار
جبینوں پر ستارے رائیگاں روشن ہوئے ہیں
کہا تو اقبال نے بھی تھا ؎
فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں
خبر نہیں روشِ بندہ پروری کیا ہے
مگر حافظ شیرازی نے قلم توڑ کے رکھ دیا: ؎
اسپ تازی شدہ مجروح بزیرِ پالان
طوق زرّین ہمہ درگردن خرمی بینم
اس کا ترجمہ آپ خود ہی ڈھونڈیے ؎
کھنچیں میرؔ تجھ ہی سے یہ خواریاں
نہ بھائی! ہماری تو قدرت نہیں