وار فِکشن ۔ 2
عربی افسانہ
بند کھڑکی کے پیچھے سے
فاطمہ یوسف اَلعلی ( کویت )
تحریر مُکرر ؛ قیصر نذیر خاورؔ
یہ ساتویں رات تھی ۔ ولی عہد اور اُس سرکار کے وزیر کے درمیان ہونے والی ملاقات کسی معاہدے کے بغیر ختم ہو گئی اور اس نے پریشانی و تشویش کی انتہا کو چھو لیا ۔ ۔ ۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اس نے ہم سب کو پریشانی سے بھی کہیں آگے جا کر خوف میں مبتلا ہونے کا خدشہ پیدا کر دیا تھا ۔ جمعرات کی صبح دوستانہ نشریات ، معاندانہ ، امید بھری نشریات اور بار بار کئے جانے والے اعلامیوں نے ہمیں گزشتہ سیاہ رات کے سارے واقعات یاد دلا دئیے ۔ یہ پہلی بار ہوا تھا کہ کویت کا نام ایسے الفاظ کے ساتھ جوڑا گیا تھا جو ہم برے خوابوں یا بخاری بے سدھی کیفیت میں بھی نہیں سوچ سکتے تھے ؛ ’ دست اند یزی‘ ، ’ غاصب ‘ اور ’ تسلط ‘ ۔مجھے تو یقینی طور پران اصطلاحوں کا درست مطلب بھی پتہ نہ تھا البتہ ’ کسی دوسرے کے علاقے پر اچانک چڑھائی ‘ ، ’ غاصبانہ قبضہ ‘ اور’ عراقی فوج کی در اندازی‘ جیسے الفاظ کی مجھے سمجھ تھی کیونکہ یہ عام خبریں پڑھنے والوں کے عمومی ذخیرہ الفاظ کا حصہ تھے ۔
میں نے جو کچھ خبروں میں سنا تھا ، اس کا خلاصہ کیا اور ۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ ۔ اس کے کان میں چِلا کر بتایا تاکہ وہ سمجھ سکے ۔ اس کی آنکھوں میں گنگ اور نروس خوف کو دیکھ کر یہ احساس ہوتا تھا جیسے اس پر بجلی گری ہو ۔میں نے اس کی جانب حرکت کی اور جب میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھیں مجھ پر گڑھی ہوئی ہیں تو میں نے اس کی گردن کو اس زور سے جھنجھوڑا جیسے کسی جانور کو ذبح کیا جا رہا ہو ۔ اس کا خوف اور بڑھ گیا اور اس کی گُھوری مزید واضح اور منجمد ہو گئی ۔ میں یہی چاہتی تھی ؛ کہ وہ اتنی خوفزدہ ہو جائے کہ چاہے کچھ بھی ہو ، اسے گھر چھوڑنے خیال بھی نہ آ سکے ۔ میں نے اشاروں اور کچھ الفاظ کی مدد سے اسے یہ بتایا کہ ہمارے پاس زندہ رہنے کے لئے کئی دنوں کے لئے خوراک موجود تھی اور یہ کہ اس صورت حال کا کوئی نہ کوئی حل یقینی طور پر نکل آئے گا کیونکہ یہ لوگ ہمارے ملک پر یوں قابض نہیں رہ سکتے اور جھوٹ موٹ یہ ظاہر نہیں کر سکتے کہ ہم لوگ موجود ہی نہیں ہیں ۔ ہم دونوں کو بس انتظار ہی کرنا تھا ۔ میں نے آوازوں ، جو اس کی بھاری ، سوجی ہوئی زبان نے منہ سے نکالی تھیں یہ اندازہ لگایا کہ اسے اس بات کا خدشہ ہے کہ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں اور یہ کہ میں اپنی تنخواہ بھی وصول نہیں کر پاﺅں گی کیونکہ مجھے کام پر جاتے ہوئے خطرہ محسوس ہو گا ۔
میں نے اشاروں اور الفاظ کے سہارے اسے بتایا کہ میں ، خدا کا یقین کرو، جو ایک سکول میں ’ سٹاف اسسٹنٹ ‘ کے طور پر ایک سکول میں کام کرتی ہوں ، وہاں چھٹیاں ہیں اور یہ کہ میں پچھلے ماہ کی تنخواہ گزرے ہفتے میں وصول کر چکی ہوں اور اگلے مہینے کے شروع ہونے پر اور اگلی تنخواہ ملنے کے دن خدا یقینی طور پر ہمارے لئے تن آسانی پیدا کرے گا ۔ اس کے مرجھائے ہونٹوں پر ایک ٹیڑھی مسکراہٹ کا سایہ سا آیا ۔ وہ چوکڑی مار کر بیٹھی ، اپنی رانوں کا تَکنے لگی اورمتوازن آہنگ و تواتر سے خدا کی حمد وثنا میں مصروف ہو گئی گو اس کے الفاظ کی کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی ۔ لگتا تھا کہ وہ کچھ ایسے مخصوص الفاظ استعمال کر رہی تھی جو وہ خود اور اس کا خالق ہی سمجھ سکتا تھا ۔
سیدھی بات ہے کہ میں نے بھی ویسا ہی کیا جیسا میں نے اپنی ماں کو کرنے کی ہدایت کی تھی ، تاکہ وہ میری ہدایات کو نظرانداز نہ کر پائے ۔ میں اس کے ساتھ بیٹھ گئی اور میں کبھی ریڈیو اور کبھی ٹیلی ویژن لگاتی اور ساتھ ہی ساتھ اس نزدیکی کھڑکی سے باہر بھی دیکھتی جو مرکزی سڑک پر کھلتی تھی ۔ گو ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر الفاظ کی ندیاں بہے جا رہی تھیں لیکن مرکزی سڑک اور اس سے آ کر ملنے والی ساری ثانوی سڑکیں مکمل طور پرسنسان تھیں ۔ کبھی کبھار ، البتہ ، ایک پولیس کار ، فوجی گاڑی یا ایک آدھ عام گاڑی تیزی سے وہاں سے گزر جاتی لیکن مجھے وہاں کوئی عراقی نظر نہیں آیا ۔ میں سوچتی کہ وہ کیسے ہوں گے ۔ میں نے پہلے کچھ کو دیکھا تھا لیکن وہ حالات کچھ اور تھے ۔ ان میں سے کچھ کی بچیاں بغداد سکول ، جہاں میں کام کرتی تھی ، میں پڑھتی تھیں ۔ یہ عراقی آدمی سکول کے گیٹ کے پاس کھڑے اپنی بچیوں کا انتظار کرتے ، ان میں سے کچھ اپنی کاروں ، جن کے شیشے نیچے ہوتے ، سے ٹیک لگائے بھی کھڑے ہوتے ۔ یہ بالکل ویسے ہی والدین تھے جیسے کے کویتی ۔ مجھے ان میں کوئی فرق نظر نہیں آتا تھا ۔ اپنے عبا میں لپٹی جب کبھی کوئی عورت آ کر اپنی بیٹی کے لئے درخواست کرتی تو وہ نرم مزاجی اور انکسار کے ساتھ وہاں کھڑی ہوتی ۔ جب وہ لفظ ’ آئنی‘ برتتی تو مجھے پتہ چل جاتا کہ وہ عراقی ہے اور میں اس کی بیٹی اسے لا دیتی ۔ لیکن موجودہ دست اندیزی کے بعد ، جبکہ مجھے اس لفظ کا صیحح مطلب بھی معلوم نہ تھا میں سوچتی کہ کاروں سے ٹیک لگائے عراقی مرد یا عورتیں اب بھی میرے لئے ’ آئنی‘ کا لفظ استعمال کریں گی ۔
میں تقریباً ساری رات جاگتی رہی اور کھڑکی سے سڑک کو دیکھتی رہی ۔ میں نے سینکڑوں بارگھڑی کو دیکھا کہ فجر کی نماز کا وقت ہوا کہ نہیں اور میں سوچتی کہ کیا کوئی یہ جرا
ٔن نے مغرب کی اذان دینے کے لئے ’ اللہ ہو اکبر ‘ کہا دو لڑکیاں بھاری بھرکم کپڑے پہنے اندر داخل ہوئیں ۔ اس سے پہلے کہ میں اٹھ کر انہیں خوش آمدید کہتی ان کے لبادے فرش پر گر چکے تھے اور دو جوان آدمی میرے سامنے تھے ۔ ان میں سے ایک جوان کے جسم پر کئی جگہیں خون آلود پٹیوں میں جکڑی ہوئی تھیں ۔ اس نے کہا کہ میں اسے اَل حکم کہہ سکتی ہوں ، گو یہ اس کا اصلی نام نہ تھا ۔ اور یہ کہ وہ صفائی کرنے والے ایک ادارے کا مالک تھا اور وہ اس وقت زخمی ہو گیا تھا جب اس نے اپنی کمیونٹی سے چوہوں اور آوارہ بلیوں سے پاک کرنا اپنا فرض جانا ۔ مجھے اس کے لئے صرف یہ کرنا تھا کہ اسے ایک کمرے میں رکھوں اور اس کی کمر اور گردن کے ان جلے ہوئے حصوں پر دن میں دوبار مرہم لگاﺅں جہاں اس کا اپنا ہاتھ نہیں پہنچ پاتا ۔ میں نے یہ ذمہ داری قبول کر لی ۔ اس ذمہ داری کی وجہ سے میں نے خود کو آزادی کے لئے لڑنے والی سمجھ لیا تھا اور میں سخت ذہنی دباﺅ کے باوجود خوش بھی تھی ۔ مجھے یہ قبول کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میں نے زندگی میں پہلی بار کسی مرد کی پشت دیکھی ۔ پہلے کچھ دن تو میں جھجکی ، ڈری بھی اور میرے ہاتھ اس وقت کانپے بھی جب میں روئی کو مرہم میں بھگو کر اس کی جلد پر لگاتی ۔ وہ ، لیکن میرے حوصلے کو بڑھاتا اور کہتا کہ زخم کو زور سے دبانے سے مت ڈرو ، یوں اس سے پیپ نکل جائے گی ۔ اس کے اس جملے سے مجھے چوراہے پر کھڑے رنگ بدلتے اور گلتے سڑتے ٹینک یاد آ جاتے ۔ یہ ہمارے گھر سے پچاس میٹر کی دوری پر ہی تو تھے لیکن اب مجھے انہیں دیکھنے کی فرصت ہی نہ تھی کیونکہ میں نے ایک اہم ذمہ داری سنبھال لی تھی ۔
مجھے معلوم نہیں کہ کتنا عرصہ لگا تھا لیکن اَل حکم کے زخم بالآخر بھر گئے ۔ اب وہ چلنے پھرنے کے قابل ہو گیا تھا اور اس کی ساری پٹیاں بھی اتر چکی تھیں ۔ اس نے اپنے ساتھیوں کے پاس واپس جانے کا فیصلہ کیا ۔ جانے سے پہلے اس نے مجھے ایک تحفہ دیا تاکہ میں اسے یاد رکھ سکوں ۔ یہ اب بھی میرے پاس ہے اور میں اسے اپنا سب سے قیمتی اثاثہ سمجھتی ہوں ۔ یہ وہ دستانے تھے جو وہ اس وقت استعمال کرتا تھا جب وہ مزاحمت کاروں میں تقسیم کرنے کے لئے بارود تیار کرنے کے لئے مختلف کیمیاوی اجزاء کو آپس میں ملاتا تھا ۔ان سے ہولناک کیمیاوی بو آتی تھی لیکن میرے لئے یہ عنبر اور کستوری جیسی خوشبو تھی ۔
گھر میں ایک بار پھر صرف میں اور میری ماں رہ گئے تھے ۔ میں نے ایک بار پھر سوچنا شروع کر دیا کہ میں چٹخنی لگی کھڑکی کے پیچھے سے باہر جھانکنا شروع کرکے اپنا وقت گزاروں لیکن مجھ میں یہ احساس جاگا کہ مجھے باہر جانا چاہیے اور اَل حکم اور اس کے جھتے کو ڈھونڈنا چاہیے اور ان سے کوئی نئی ذمہ داری ، جسے وہ مناسب گردانیں ، لینی چاہیے ۔ تب میں نے دیکھا اور میں یہ نظارہ کبھی نہیں بھول سکتی جس نے ، ساری ابدیت کے ساتھ ، مجھ میں گلیوں میں نکل جانے ،خوشی سے گانے اور رقص کرنے کاسماں باندھ دیا تھا ۔ جب میں نے احتیاط کے ساتھ کھڑکی میں سے جھانکا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ چوراہے پر تباہ شدہ ٹینکوں کی قطار میں واضح طور پر اضافہ ہو چکا ہے ۔ شاید وہ سات تھے ، یا شاید ستر، میں انہیں گن نہ پائی کیونکہ کھڑکی ایسی جگہ پر نہ تھی کہ میں قطار کے آخرتک دیکھ سکتی ۔ وہ سب پیپ زدہ تھے اور ان پر سبز رنگ کے مختلف النوع پرندے بندھے ہوئے تھے ؛ جن میں کچھ نر اور کچھ مادہ تھے ۔ ان میں سے کچھ تو ابھی بچے ہی تھے ۔ یہ جنوری کا ایک سرد دن تھا ۔ تازہ ہوا کا ایک جھونکا آیا اور اس نے پہلے سے موجود ہوا کو تروتازہ کر دیا جب یہ ٹینکوں کی قطار پر پہنچا تو وہ آپس میں مدغم ہو کر ایک بڑے ، خوفناک ٹڈے میں بدل چکے تھے جو گل سڑ رہا تھا اور جسے دیکھ کر قے آتی تھی ۔ اس کی ہیت فریبی اور قابل نفرت تھی جس نے ہم میں خوف پھیلا دیا تھا ۔ ٹھنڈی باد نسیم نے اس کے پھولے ہوئے ڈھانچے کو تباہ کر دیا تھا اور اس کی جلد وہیں الگ ہو کر نیچے گر رہی تھی جہاں وہ کھڑا تھا ۔ یہ کچھ ایسا ہی تھا جیسے سانپ کی کینچلی زمین پر پڑی ہو جس سے صحرائی ہوا کھلواڑ کرتی ہے اور اسے جھاڑیوں کے درمیان آگے پیچھے اچھالتی رہتی ہے ۔ اسی دوران سبز پرندے بھی اڑ کر آسمان سے باتیں کرنے لگے ۔ ان کی فردوسی چہچہاہٹ ہر طرف گونجنے لگی جسے میں تو سن ہی رہی تھی ، ہماری کمیونٹی کے ہر کونے میں بھی ان کی چہک کی باز گشت لہرانے لگی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2 ، اگست 1990 ء کو عراق نے کویت پر حملہ کرکے دو دن میں اس پر قبضہ کر لیا تھا ۔ یہ سات ماہ تک جاری رہا لیکن اس دوران ہی جنوری 1991 ء کے وسط میں امریکی سربراہی میں اقوام متحدہ کی اتحادی فوج نے عراق پر حملے شروع کر دئیے ۔ یہ ایک ماہ سے زیادہ جاری رہے اور بالآخر 25 فروری 1991 ء کواس اتحادی فوج نے امریکی سربراہی میں کویت کو عراقی قبضے سے آزاد کرا لیا تھا ۔ کویتی عوام نے اس غاصبانہ قبضے کے خلاف مزاحمتی تحریک بھی شروع کی تھی ۔ اس تحریک کی وجہ سے بہت سے کویتی سویلین مارے گئے ۔ اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ اموات اس تحریک میں شامل عام عوام کی ہوئیں اور یہ لوگ زخمی بھی زیادہ ہوئے اورمزاحمتی تحریک سے جڑے لوگ ہی تھے جنہوں نے عراقیوں کے تشدد اور سفاکی کو سب سے زیادہ برداشت کیا تھا ۔
فاطمہ یوسف اَلعلی کی یہ کہانی اسی تناظر میں لکھی گئی ہے اور اس کے افسانوی مجموعے ’ Blood on the Moon‘ میں شامل ہے ۔ اس مجموعے میں شامل تمام کہانیوں کا پس منظر یہی جنگ ہے ۔
فاطمہ 1953 ء میں پیدا ہوئی ۔ قاہرہ یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ ہے ۔عربی میں لکھتی ہے۔ کویت کی پہلی خاتون ناول نگار اور افسانہ نگار مانی جاتی ہے ۔ اس کی کہانیوں کا مرکزی موضوع کویتی خواتین ہوتی ہیں ۔ اس کا ناول ’ Faces in the Crowd‘ کسی کویتی خاتون کا پہلا ناول گردانا جاتا ہے ۔ اس کی کہانیوں کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں ۔ اس کی کہانیوں کی خواتین کسی ایک طبقے سے تعلق نہیں رکھتیں بلکہ وہ کویتی معاشرے کی ہر پرت سے اپنے کردار وضع کرتی ہے ۔’ Her Face is a Nation‘ اور ’ A Feminine Ending‘ اور ’ Lismira and Her Sisters‘ اس کے نمایاں افسانوی مجموعے ہیں ۔ اس کے افسانے انگریزی کے علاوہ فارسی میں بھی ترجمہ ہو چکے ہیں ۔ چونکہ وہ ایک کٹر معاشرے میں رہتی ہے اس لئے اس کی تحاریر چھپ نہیں پاتیں اور اسے انہیں چھپوانے کے لئے خاصی دشواریوں کا سامنا رہتا ہے ۔ اس سب کے باوجود ، وہ پیچیدہ عرب معاشرے کی جنسی زندگی کو کھل کر صاف گوئی سے بیان کرنے کی ہمت رکھتی ہے ۔ وہ اس علاقے میں امریکی مداخلت کی حامی نہیں ہے اور حکایاتی انداز اختیار کرتے ہوئے اس کو تنقید کا نشانہ بناتی ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔