مکھیا کے دانت کسی اونچےنیچے پہاڑی سلسلے کی طرح تھے۔ سوجے ہوئے سیاہ مسوڑھوں میں سے تین سامنےوالے قاطع دانت ماقبل تاریخ کے سنگِ سیاہ کے آتش فشانی تودوں کی طرح تھے، جب کہ جبڑوں کے دونوں طرف تمباکو سے داغ دار کچلے دانت جا بجا بکھری ہوئی قبلِ نوح کلسی تف چٹانوں کی طرح معلوم ہوتے تھے۔ جہاں تک ڈاڑھوں کی بات ہے، تو ان کے خول میں اتنے گہرے سوراخ تھے کہ دندان ساز کے بیٹے نے بڑے سائنسی لہجے میں فیصلہ سنا دیا کہ ان دانتوں کا مالک آتشک کا مریض ہے۔ مکھیا نے اس کی تشخیص جھٹلائے بغیر منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ خراب دانت اس کے جبڑے کے بہت عقب میں اپنے پڑوسی کے نکالے جانے کے باعث پیدا ہونے والے سیاہ پلپلے سوراخ کے ساتھ واقع تھا۔ یہ ایک تنہا گلا سڑا عقل دانت تھا جو کسی ساحلی مرجان کی طرح مسام دار تھا۔ مکھیا اسے اپنی زرد زبان سے چمکارتا رہتا تھا جو اسے چمکارنے کے بعد ساتھ والے سوراخ میں گھومتی تھی اور پھر تالو میں ایک پُراطمینان چٹاخ کی آواز کے ساتھ اپنا سفر ختم کر دیتی تھی۔
اس لجلجی زبان کی مٹرگشت سلائی مشین کی ایک موٹی فولادی سوئی کے باعث رک گئی جو مکھیا کے منہ میں داخل ہوئی اور خراب دانت کے اوپر حرکت کرنے لگی۔زبان فوراً اس نووارد سے کشش محسوس کرتے ہوئے اپنا سرا اس سرد اجنبی شے کے اوپر تلے پھیرنے لگی۔ وہ کپکپائی، ذرا جھجکی، ایک تازہ جست کے لئے تیار ہوئی، اور ایک نامانوس احساس سے جوش میں آتے ہوئےسوئی کو تقریباً ایک شہوت ا نگیز مستی سے دوبارہ چاٹا۔
بوڑھے درزی نے اپنا پیر سلائی مشین کے پائدان پر رکھ کر دبایا تو اوپرنیچے ہونے والی حرکت نے سوئی کو گھمانا شروع کر دیا جو اس کو چلانے والی چرخی سے ایک دھاگے کے ذریعے جڑی تھی۔مکھیا کی زبان خطرہ محسوس کرتے ہوئے فوراً پیچھے ہٹ گئی۔ لیو عارضی برمے کو اپنی انگلیوں کےسروں کے درمیان سیدھا کرتے ہوئے اپنے ہاتھ کو مطلوبہ جگہ پر لایا۔اس نے کچھ دیر پائدان کی رفتار تیز ہونے کا انتظار کیا اور پھر مریض کے حلق سے ایک کان پھاڑ دینے والی چیخ نکلواتے ہوئے سوئی سے دانت پر حملہ کر دیا۔ لیو کے سوئی ہٹانے کی دیر تھی کہ مکھیا بستر پر سے اٹھ کھڑا ہوا جو ہم نے سلائی مشین کے ساتھ لگایا ہواتھا۔
’تم نے تو مجھے مار ہی ڈالنا تھا!‘ وہ غصے سے آگ بگولا ہوتے ہوئے بولا۔ ’کیا تم جانتے ہو تم کیا کر رہے ہو؟‘
’میں نے تمہیں خبردار کر دیا تھا،‘ درزی نے کہا۔ ’میں نے انہیں گاؤں کے میلوں میں اس قسم کا کام کرتے دیکھا ہے۔ خیر جو بھی ہو یہ تمہارا ہی اصرار تھا۔‘
’بھئی یہ تو بہت عذاب دہ تھا۔‘ مکھیا بولا۔
’درد ہونا یقینی ہے،‘ لیو نے کہا۔ ’کیا تمہیں انداز ہ ہے کہ ایک ہسپتال میں برقی رندے کی رفتار کیا ہوتی ہے؟ یہ سینکڑوں گردشیں فی سیکنڈ میں ہوتی ہے۔ رفتار جتنی کم ہو گی درد اتنا ہی زیادہ ہو گا۔‘
’دوبارہ کوشش کرو،‘ مکھیا اپنی ٹوپی سیدھی کرتے ہوئے ہمت سے بولا۔ ’میں پہلے ہی ایک پورا ہفتہ نیند اور خوراک کے بغیر گزار چکا ہوں۔ بہتر ہو گا کہ ایک ہی دفعہ اس مسئلے کا حل کیا جائے۔‘
اس نے آنکھیں بند کر لیں تاکہ سوئی کو اپنے منہ میں داخل ہوتے نہ دیکھ سکے لیکن نتیجہ پہلے والا ہی تھا۔ درد کی شدت نے اسے اس حالت میں بستر سے دور پھینکا کہ سوئی منہ ہی میں پھنسی ہوئی تھی۔
اس ہڑبونگ میں لالٹین بھی گرنے والی تھی، جس کے اوپر میں نے ایک چمچ میں قلعی کا ٹکڑا نرم ہونے کے لئے رکھا تھا۔
یہ ایک عجیب مضحکہ خیز صورت حال تھی لیکن کسی نے میری گرفتاری کا موضوع دوبارہ چھڑ جانے کے ڈر سے ہنسنے کی جرأت نہ کی۔
لیو نے سوئی واپس نکالی، اسے صاف کیا، قریب سے معائنہ کیااورپھر یہ تجویز دی کہ مریض پانی سے اپنا منہ کھنگال لے۔مکھیا نے ایسا ہی کیا اور زمین پر اپنے سر سے پھسل کر گری ہوئی ٹوپی کے ساتھ ہی کُلی کر دی ۔ پانی گلابی رنگ کا تھا۔
بوڑھا درزی حیران پریشان رہ گیا۔ ’تمہارا خون بہہ رہا ہے، ‘ وہ بولا۔
’اگر تم چاہتے ہو کہ میں تمہارا دانت ٹھیک کروں،‘ لیو نے گری ہوئی ٹوپی اٹھا کر اسے مکھیا کے الجھے ہوئی بالوں پر جماتے ہوئے کہا، ’تو مجھے اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ نظر نہیں آتا کہ میں تمہیں پلنگ سے باندھ دوں۔‘
’مجھے باندھو گے؟‘ مکھیا غصے میں چلایا۔ ’تم بھول رہے ہو کہ میں اس علاقے کے حاکم اعلی کا منصب رکھتا ہوں۔‘
’لیکن چونکہ تمہارا جسم بے قابو ہو جاتا ہے مجھے ڈر ہے کہ ہمیں یہ انتہائی اقدامات کرنے ہوں گے۔‘
میں دم بخود رہ گیا۔ یہ جابر سردار، یہ سیاسی اور معاشی طور پر مطلق العنان حاکم، یہ پولیس چیف کیسے اپنے آپ کو اس طریقے سے حراست میں لئے جانے میں آمادہ ہو سکتا ہے جو نہ صرف تحقیر آمیز تھا بلکہ شدید مضحکہ خیز بھی تھا؟ اس میں ایسا کونسا آسیب سرایت کر گیا تھا؟ اس وقت میرے پاس اس سوال کے بارے میں سوچنے کا وقت نہ تھا اور آج بھی یہ سوال مجھے حیران کئے رکھتا ہے۔ بہرحال ہوا یہ کہ لیو نے اسے تیزی سے بستر کے ساتھ باندھ دیا اور درزی نے، جسے مریض کا سر دونوں ہاتھوں سے تھام کر اسے حرکت سے روکنے کا حیرت انگیز کام سونپا گیا تھا، مجھے اشارہ کیا کہ میں اس کی جگہ پائدان سنبھال لوں۔
اس نئی ذمہ داری نے میرے اندر سنسنی دوڑا دی۔ میں نے اپنے جوتے اتارے اور پائدان پر اپنے پیر کا اگلا حصہ رکھ کر اپنی پوزیشن سنبھال لی۔
لیو کی طرف سے اشارہ ملتے ہی میں نے چرخی چلا دی اور جلد ہی میرے پیر تیزی سے چلتےہوئے مشین کو اس کے سنگ دل آہنگ میں لے آئے۔ کسی جھکے ہوئے سائیکل سوار کی طرح میں تیز سے تیز تر ہوتا جا رہا تھا۔ سوئی تیزی سے لرزتے ہوئے ایک بار پھر بے وفا دانت کے ساتھ جا ملی اوراسی وقت بے حرکت پڑے مکھیا کے حلق سے ایک ہیبت ناک غرغراتی ہوئی آواز سنائی دی۔ نہ صرف وہ کسی فلم کے ولن کی طرح اپنا بدلہ پانے کے لئے چارپائی کے ساتھ ایک مضبوط رسی سے بندھا تھا بلکہ اس کا سر بھی بوڑھے درزی کے شکنجہ نما ہاتھوں میں کسا تھا۔اس کے چہرے پر موت کی زردی تھی اور منہ سے جھاگ بہہ رہا تھا۔
اچانک میں نے اپنے اندر ایذا پسندی کی ایک ناقابلِ برداشت لہر دوڑتی محسوس کی جیسے کوئی آتش فشاں پھٹنے کے قریب ہو۔ میرے ذہن میں تعلیمِ نو کی تمام اذیتوں کی تصویر ابھری اور آہستہ آہستہ پائدان کی حرکت سست ہوتی گئی۔
لیو نے میری طرف ایسے نگاہ ڈالی جیسے میرے جرم میں شریک ہو۔
اب میں پیر کو اس نیت سے مزید آہستہ چلانے لگا کہ میں اسے گرفتاری کی دھمکی دینے کی سزا دے سکوں۔ اس طرح تھا جیسے برما کسی بھی لمحے ٹوٹ جائے گا۔ وہ اب بمشکل حرکت کررہا تھا، کیا خبر ایک چکر فی سیکنڈ یا شاید دو؟ بالآخر گلی سڑی ہوئی جگہ میں پوری طرح گھسنے کے بعد فولادی نوک آخری بار لرزی اور پھر جوں ہی میں نے کسی ایسے سائیکل سوار کی طرح جو اپنے آپ کو ڈھلان کے حوالے کر چکا ہو، پائدان سے پیر اٹھائے تو مکمل طور پر رک گئی۔ ایک لمحہ تذبذب کی جان لیوا کیفیت طاری رہی۔ میں نے اپنی آنکھوں میں سلگتی نفرت پر پردہ ڈالنے کے لئے چہرے پر ایک معصومیت اور پرسکون تفکر کی کیفیت طاری کر لی اور ذرا جھک کر چرخی پہیے کے اوپر چڑھی بیلٹ کا معائنہ کرنے لگا۔ پھر میں نے دوبارہ پائدان کو اپنے پیر سے دبایا اور سوئی ایک بار پھر سست رفتاری سے لرزتے ہوئے گھومنے لگی جیسے سائیکل سوار کوئی عمودی چڑھائی چڑھ رہا ہو۔ اب وہ کسی بھیانک ماقبل تاریخی چٹان کو کاٹتی فولای چھینی میں تبدیل ہو چکی تھی جس سے شقاق زدہ زرد مٹی کے ننھے ذرات اڑ رہے تھے۔ میں اب ایک ایذاپسند شخص میں تبدیل ہو چکا تھا، ایک سر تا پا ایذاپسند شخص۔
___________________________________
(دائی سیجی، ’بالزاک اور پری پیکر چینی درزن‘ سے ایک اقتباس، ترجمہ: عاصم بخشی)
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔