سوہنی مہینوال کے بعد پچھلی صدی میں گجرات کا ایک اور رومان بھی پورے برصغیر میں مشہور ہوا۔ یہ تھا بالو اور ماہیا کا۔
اقبال بیگم عرف بالو 1910 میں گجرات کے ایک معروف وکیلوں کے خاندان میں پیدا ہوئی۔ روزانہ تانگے پر سکول جاتی تھی۔ ایک دن تانگے والا بیمار ہوا تو اپنے بیٹے کو بھیج دیا۔ چند ماہ کے اندر وہ ایک دوسرے کو دل دے بیٹھے۔ انہیں پتہ تھا کہ سماجی فرق انہیں ایک نہیں ہونے دے گا۔ سو بالو جو کچھ گھر سے لے سکتی تھی لے کر محمد علی تانگے والے کے ساتھ روانہ ہو گئی۔ ہر طرف سے ''وکیلاں دی کڑی نس گئی"سن سن کر گھر والوں نے بالو کا پیچھا کرنا ترک کردیا اور کہا کہا ہمارے لیے مرگئی۔
محمد علی اور بالو دونوں بہت سریلے تھے۔ جہاں کہیں کوئی میلہ ہوتا وہ پہنچ جاتے اور مل کر گاتے۔ انہیں سننے کیلئے ایک ہجوم جمع ہوجاتا۔ ان کے ماہئیے اور دوگانے بہت مشہور ہوئے اور محمد علی اب ماہیا کہلانے لگا۔
ان کے عشق کی داستان اتنی مشہور ہوئی کہ لوگوں نے اسے بڑھا چڑھا کر جھوٹے سچے قصے منظوم کرکے کتابچے بیچنے شروع کردیے۔
ان کی شہرت کا فائدہ اٹھانے کیلئے 1938 میں فلم کمپنی اندرا مووی ٹون کلکتہ نے بالو کو اپنی پنجابی فلم ’’ہیر سیال‘‘ میں ہیروئن کا کردار دے دیا ۔اس نے محنت اور شوق سے کام کیا اور فلم کامیاب ہوئی۔ اس کے بعد اسی ادارے نے 1939 میں اسے ’’سسی پنوں‘‘ میں سسی کا کردار دے دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں فلموں میں بالو کے بچپن کا رول (ملکۂ ترنم) نور جہاں نے کیا ۔ اس دوران ماہیا سہل پسندی اور عیش وعشرت سے ناکارہ ہوکر رہ گیا۔ محبت میں مجبور بالو نے اس کے اخراجات پورے کرنے کیلئے سب کچھ کیا۔
ان کی محبت کی داستان اتنی مشہور ہوئی کہ اس پر انڈیا میں ایک پنجابی فلم بھی بنائی گئی۔ یہ فلم ’’ بالو‘‘ 1951 میں ریلیز ہوئی۔ ماہیا کا کردار ارجن اور بالو کا کمل نے کیا۔ اس فلم میں ساحر لدھیانوی نے پہلی بار پنجابی گیت لکھے۔ اس سے پہلے1947 میں بھی ان کے عشق پر فلم ’’ماہیا‘‘ شروع ہوئی لیکن فسادات کے باعث مکمل نہ ہوسکی۔ یہ موسیقار نثار بزمی کی واحد پنجابی فلم تھی۔ اقبال بیگم نے کئی فلموں کیلئے گیت گائے۔ آخری فلم خواجہ خورشید انور کی ’’کڑمائی‘‘ تھی۔ اقبال بیگم کا 1945 میں ٹی بی کی بیماری سے انتقال ہوا۔
بالو اور ماہیا کی نشانی ان کی بیٹی صبیحہ خانم ہے، جنہوں نے فلمی صنعت میں بہت عزت پائی۔ شروع میں وہ اپنا نام صبیحہ ایم اے لکھتی رہیں(حالانکہ میٹرک بھی نہیں ہیں) یہ ایم اے والد کے نام محمد علی کا مخفف تھا.
بالو اور ماہیا کے ٹپوں، ماہیوں کی طرز پر اور لوگ بھی ماہیے لکھتے آرہے ہیں اور انہی کے ناموں کے ساتھ.
امبی دا بوٹا اے
تیرے بنا وے ماہیا۔۔ ساڈا جیونا جھوٹھا اے
باغے وچ بکری آ
سچ دس جان والیا ۔۔۔ کِتے بالو وی ٹکری آ
پانی بنی اتوں لئی جاندا
اک غم بالو دا ۔۔۔ دنیا توں لئی جاندا
چٹا رنگ اے پتاسے دا
اج کوئی نہیں ملدا ۔۔۔ بالو تیرے پاسے دا
دو چھمکاں بوڑھ دیاں
چھڈ کے نہ جایئں بالو ۔۔ سانہوں آساں توڑ دیاں
سونے دے نی کِل بالو
ذاتاں نے تے نہیں ملنا ۔۔۔ مِل جاندے نی دل بالو
سڑکے اتے فیتا ای
سچ دس نی بالو ۔۔ کدی یاد وی کیتا ای
کھکھڑی دی پھاڑی آ
آپ چن سوکھا پھرے ۔۔ جند بالو دی ساڑی آ
گز ٹُٹ گیا درزی دا
نہ سانوں گھر ملیا ۔۔ نہ ماہیا مرضی دا
ملنے دا راہ کوئی نہ
ملنا ای تے مل ماہیا ۔۔ ایس جند دا وساہ کوئی نہ
فیاض احمد اشعر کی کتاب ابتدائی پنجابی فلمی گیت سے استفادہ
“