بلوچستان میں سب سے بڑا حملہ اور میڈیا
بلوچستان کے ضلع مستونگ میں انتخابی جلسے پر ہونے والے خودکش حملے میں ہلاکتوں کی تعداد 130ہوچکی ہے۔حملے میں صوبائی اسمبلی کے امیدوار سراج رئیسانی سمیت بھی مارے گئے ۔ خود کش حملے میں 200 سے زائد افراد زخمی ہیں ،جن میں سے کچھ کی حالت انتہائی تشویشاک ہے ۔اس لئے خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ضلع مستونگ میں جمعہ کے روز ہونے والے خود کش حملہ ہلاکتوں کے حوالے سے بلوچستان میں سب سے بڑا حملہ ہے۔ اس سے پہلے جنوری 2013میں علمدار روڈ پر ہونے والے ان دو خود کش حملوں میں 106افراد ہلاک اور 169زخمی ہوئے تھے۔جمعے کو ہونے والے اس حملے میں حال ہی میں بننے والی سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار نوابزادہ سراج رئیسانی کی کارنر میٹنگ کو نشانہ بنایا گیا تھا۔خود کش حملے میں آٹھ سے دس کلوگرام بال بیئرنگ استعمال کیے گئے جس کی وجہ سے زیادہ جانی نقصان ہوا۔اس حملے کی ذمہ داری دہشت گرد تنظیم داعش نے قبول کی ہے۔دہشت گرد تنظیم داعش کی نیوز ایجنسی عماق کے مطابق مستونگ میں ہونے والے اس حملے میں خودکش جیکٹ کے ذریعے دھماکہ کیا گیا۔یہ بلوچستان میں گذشتہ 24 گھنٹوں میں انتخابی جلسوں پر تیسرا حملہ ہے۔ایک اندازے کے مطابق بلوچستان میں 2013 سے اب تک 50سے زائد خود کش حملے ہوئے ۔بلوچستان پاکستانی ریاست کا وہ واحد بدنصیب صوبہ ہے جہاں کی خبریں میڈیا پر بہت ہی کم آتیں ہیں،جو خبریں بلوچستان سے رپورٹ کی جاتی ہیں ،وہ بھی بہت خوفناک ہوتی ہیں۔بلوچستان خون میں نہلادیا گیا،
لیکن میڈیا کے کیمروں کا رخ کبھی آسمان پر اڑتے جہاز کی طرف تھا ،کبھی جہاز کے اندر کی صورتحال دیکھائی جارہی تھی اور کبھی لاہور کی زمینی ریلیوں کی کیفیت بتائی جارہی تھی ۔ادھر کوئٹہ کے اسپتالوں میں جگہ نہیں تھی ،سرد خانے لاشوں سے بھر گئے تھے ،اسپتالوں میں بلڈ بنک ختم ہو گئے تھے ،لیکن میڈیا کے کیمروں نے بدقسمت بلوچستان پر توجہ نہیں دی ۔انسانیت بلوچستان کی سرزمین پر تڑپ رہی تھی اور ہمارا میڈیا بے حس ہو کر ایک سیاستدان کی مختلف کیفیتیں دیکھارہا تھا ۔کیا یہ وقت بلوچ بہن بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہونے کا نہیں ہے؟بلوچستان کے ایک سو تیس گھروں میں صف ماتم بچھا ہوا ہو اور نیوزچینلز پر سیاستدانوں کے سیاسی اشتہاری چل رہے ہوں ،ڈھول بج رہے ہوں ،گانے چل رہے ہوں ،تو ایسے میڈیا کے بارے میں کیا کہنا چاہیئے؟بطور انسان ،بطور میڈیا اور بطور پاکستانی ہمارے اندر بنیادی انسانی رویئے ختم ہو کر رہ گئے ہیں۔میڈیا اپنی بنیادی زمہ داریاں سمجھنے سے قاصر ہے ،یہ بدنصیبی نہیں تو اور کیا ہے ؟دہشت گرد پاکستان میں ریاست کی کریڈیبیلیٹی کو برباد کررہے ہیں اور ہمارے میڈیا کا رخ آسمان کی جانب ہے ؟مستونگ جیسے خوفناک حملے پر بھی سیاسی تبصرے ہوتے رہے ،جب کہ مستونگ واقعے کی کوریج نہیں کی گئی ،سیاسی اور فوجی قیادت اگر متحد نہیں ہوگی ،میڈیا اپنے کردار پر غور نہیں فرمائے گا تو دہشت گرد تو اس کا فائدہ اٹھائیں گے ۔ہم کب بلوچستان کے عوام کے دکھ ،درد،غم اور کرب کو سمجھیں گے ؟جب کچھ لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ بلوچستان میں شدت پسند تنظیم داعش مظبوط ہورہی ہے ،ریاست پاکستان کو اس حوالے سے سوچنا چاہیئے؟تو اس وقت ان کا مزاق اڑایا جاتا تھا ،کہا جاتا تھا کہ یہ افسانوی خیال ہے کہ بلوچستان داعش کا گڑھ بنتا جارہا ہے ؟
قاضی فائز عیسی رپورٹ میں شدت پسند تنظیموں کی بلوچستان میں بڑھتی طاقت پر بات کی گئی ،بلوچستان کی محرومیوں کا زکر تفصیل سے کیا گیا ،کیا اس رپورٹ کو رہاست پاکستان کے اداروں نے سنجیدہ لیا ؟ایک رپورٹ کےمطابق بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں کسی ایک شاہراہ پر ٹریفک سگنلز تک کام نہیں کررہے ،کوئٹہ کی تمام سڑکیں ٹوٹیں ہوئی ہیں،پسماندگی انتہاوں کو چھورہی ہے۔جب کسی صوبے کے دارالحکومت کی یہ کیفیت ہوگی تو اس صوبے کے باقی علاقوں کا کیا حال ہوگا؟جہاں پسماندگی ہوتی ہے وہی شدت پسندی ہوتی ہے ،وہی داعش جیسی تنظیمیں پرورش پاتیں ہیں جو کہ ایک ہی حملے میں سینکڑوں افراد کو قتل کردیتی ہیں؟بلوچستان کی محرومیوں پر کیا کبھی کسی نیوز چینلز نے توجہ دی ہے؟سیاستدانوں نے بلوچستان کو ریاستی اداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے اور ریاستی اداروں نے بلوچستان کو کسی اور کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے اور میڈیا کی پہنچ سے کیونکہ بلوچستان بہت دور ہے تو وہ تو توجہ ہی نہیں دیتا ۔ایسا ہوگا تو پھر داعش جیسی تنظیمیں اس طرح کا قتل و عام تو کریں گی؟ادھر سیاسی جماعتوں کی اخلاقی جرات کو ملاحظ کریں کہ بلوچستان میں سینکڑوں افراد کی لاشیں پڑی تھی اور ادھر میڈیا پر سیاسی جماعتوں کے ڈھول باجے والے اشتہارات چل رہے تھے ۔ایک سو تیس خاندان اجڑ گئے ،دو سو سے زائد زخمی افراد زندہ درگور ہو گئے ،بچے یتیم ہوئے،عورتیں بیوا ہوگئی ،لیکن میڈیا پر سیاسی فلم چلتی رہی ؟کیا یہ بلوچستان کے عوام کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ وہ جائیں بھاڑ میں ،کسی کو ان کی پرواہ نہیں ؟ریاستی اداروں ،حکومت اور میڈیا کو اپنے چہروں کو آئینے میں دیکھنا ہوگا کہ وہ کیا ہیں؟عوام کی لاشیں مستونگ میں پڑی تھی ،دکھ ،درد اور تکلیف سے وہاں چیخ و پکار کا عالم تھا ،لیکن میڈیا پر بیہودہ اشتہارات چل رہے تھے ،ایک مسافر جہاز کو دیکھایا جارہا تھا ؟مستونگ میں حملہ بھی ایک سیاسی جماعت کے جلسے پر کیا گیا تھا ،وہاں بھی سیاسی جماعت کے ورکرز ظلم کا نشانہ بنے تھے ،بلکل ایسے ہی جیسے کچھ قوتوں کے خیال میں نوازشریف پر ظلم ہورہا ہے ؟پھر کیوں میڈیا نے بلوچستان کی طرف توجہ نہیں دی ؟زرا سوچیئے بطور ریاست ہم کہاں جارہے ہیں؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔