(Last Updated On: )
یہ بلوچستان ہےیہاں65رکنی اسمبلی میں عوام کا کوئی حقیقی نمائندہ نہیں ہے اکثر کرپٹ، قاتل، ٹھگ ،ٹھیکیدار، ڈرگ ٹریفکر، غلام فطرت جاگیردار ذہنیت، کلاشنکوف بردار جتھے دار ، جاسوس، ریاستی فنڈ اور اس کے حصے بخرے کرنے کے ماہر اس کلب کے ممبر بنتے ہیں۔یہاں ہر پانچ سالہ دور میں دو سے تین وزیراعلئی بدلے جاتے ہیں ۔ اپوزیشن نام کی کوئی چیز یہاں نہیں ہواکرتی ۔یہاں میٹنگیں سیکریٹیریٹ سے لیکر اوطاقوں تک زیادہ سے زیادہ کمیشن بٹورنے کیلئے ہواکرتی ہیں۔ منسٹرز انکلیو Inclave سب سے بڑا سرکاری فنڈ خردبرد کرنے کا فرنیچر لگا well furnished مرکز ہوتا ہے یہاں ایماندار افیسر بغیرڈیوٹی بطور OSD کے تنخواہ لیکر ریٹائر ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ تمام اسمبلی ممبران کیلئے کارآمد Beneficial آفیسر نہیں کہلاے جاتے۔ کمیشن کھانے extortion اور ideological compromises نظریات کا سودا کرنے کی کوئی قید و بند restriction نہیں ہوتی۔ایک دن قوم پرست پارٹی، دوسرے دن کنگ پارٹی تیسرے دن علما کی پارٹی، سب ایک دوسرے کیلئے پلکیں بچھاے تیارکھڑے anxiously awaiting رہتے ہیں۔ لیویز ، پولیس اور چپڑاسی تک کی نوکری پانچ سے چھ لاکھ تک بیچی جاتی ہے۔اگر کوئی زیادہ سخی ہوتا ہے تو اپنے حلقے میں اپنے ووٹر کو تاحیات ووٹ کے بدلے بیچ دیتا ہے. جمہوریت کی بنیاد انسانی حقوق کے دفاع پر ہوتی ہے جبکہ حقوق کادفاع ادارے کرتے ہیں۔جب آپ چپڑاسی تک کی نوکری بیج دوگے تو ادارے کہاں بن پائینگے۔ بجلی نام کی کوئی چیز نہیں ہے مگر دعوے اتنے بڑے کہ ماضی کے حکمرانوں نے بلوچستان سے زیادتیاں کی تھیں اب خوش قسمتی کے چشمے پھوٹ پڑے ہیں جلد ہی صنعتی ترقی کا دور دورہ شروع ہوا چاہتا ہے۔ دوسری طرف اگر ایک ضلع میں پچیس سے تیس واٹر سپلائی کی اسکیمات ہیں تو اس میں سے صرف تین چل رہی ہوتی ہیں ایک اس گاوں کی جس میں ڈی سی کا گھر ہے۔ایک وہ جس سے فوجی قلعے کو پانی کی سپلائی ہوتی ہے اور تیسری متعلقہ وزیر جوکہ عموما” سردار ہی ہوتا اس کے چھوٹے سے گاوں کو پانی Drinking water مل رہا ہوتا ہے۔ضلع میں دو سے تین ایس ڈی اوز SDOs اور ایک ایکس ای اینXEN صرف آپریشنل فنڈ اور سیکٹر کے لئے مختص نئے ترقیاتی فنڈ کھانے کیلئے تعینات ہوتے ہیں۔تمام یعنی 100 % بی ایچ یوز BHUs باوجود سٹاف کی تعیناتی بند پڑے ریتے ہیں اکثر ڈی ایچ اوز DHOs کوئٹہ میں اکیس بائیس دن گزار کرمہینے کے آخری دنوں میں حساب کتاب اور جعلی دوائیوں والے میڈیکل اسٹورں کا چکر لگا کر واپس کوئٹہ پہنچ جاتا ہے۔سرکاری دوائیوں کی مقدار ایک روپیہ فی کس پوری آبادی کے حساب سے کوٹہ فکس چلاآرہا ہے اس کی distribution and supply تقسیم کا کوئی سر پاوں نہیں ہوتا۔اسکول کالج میں پڑھنے پڑھانے کے علاوہ سب کچھ ہوتا ہے۔ غریب صوبے کا چوبیس فی صد تعلیم اور آٹھ فی صد صحت عامہ اور آٹھ فی صد رفاہی دراصل صرف بجٹ کی سرخیاں ہوتی ہیں۔زمین پر عملا” کچھ نہیں ہوتا۔ متعلقہ ضلع کا DC، متعلقہ محکمے کے DGs اور محکمے کے سیکریٹری کی تعیناتیاں باضابطہ طور پر ایک پیشکی معاہدےunderdeal کے بعد عمل میں آتی ہیں۔پختہ سڑک کی یہ حالت ہوتی کہ چھ ماہ بعد سڑک کے متوازی parallel کچہ روڈ تخلیق پا چکا ہوتا ہے اور تمام ٹریفک اسی سے گزر رہی ہوتی ہے ڈرائیور کو ڈر لگا رہتا ہے کہ کرش کے پتھر یعنی روڑے سے گاڑی کا ٹائر اور فریم نہ ادھڑ burst ہو جائے۔صوبائی منسٹر اس کی جملہ اولاد کا اتنا بڑا پرٹوکول ہوتا ہے کہ عزت بچانے کی خاطر سائڈ میں کھڑے ہوکر ناگواری کو ٹالنے میں عافیت سمجھی جاتی ہے۔ایم پی اے کی رضا اور کچھ دئے بغیر آپ ایک اینٹ بھی پورے ضلع میں نہیں لگاسکتے کیونکہ ووٹ نہ دینے والوں کی زندگی جتنی مشکلات میں ہونگی اتنا ہی متعلقہ لیڈر جمہوری سردار کہلانے کا مستحق سمجھاجاے گا۔بدعنوانی اس حد تک سرائیت کرچکی ہے کہ اب وزیرصاحبان سپروائزرزsupervisors سب انجینیر Sub Engineer کو SDOs پلس XENs کا اضافی چارج اس سودے بازی پر دیتے ہیں کہ بدنام زمانہ کمیشن کا اضافی حصہ بھی متعلقہ وزیر کے ہاتھ پر تھمادیا جائے ۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ وزیراعلئی ناصرف اس سارے معاملات سے آگاہ ہوتے ہیں بلکہ اس کے اقتدار کادورانیہ اس پر منحصرہوتا ہے کہ وہ اس ضمن میں کتنا بہترین سہولت کاری کرسکتا ہے۔ بالادست ریاستی آقاوں کی گزشتہ تیس چالیس سال کی محنت سے ایسی مصنوعی لیڈرشپ تیار ہو چکی ہے کہ آنکھیں ہر وقت آسمان کو اٹھتی ہیں کہ کیا کبھی اس آسیب سے گلو خلاصی ہو بھی سکے گی !! لگتا نہیں ہے عقل سے کوریBlind minded یہ غلام زہنیت پسند colonial approached ریاستی طاقت state power اب بھی مصنوعی قیادت Artificial leadership کے سر سے ہاتھ ہٹانے کا کوئی ارادہ رکھتی بھی ہے ؟ایسے میں اگر یہاں قتل و غارت گری فروغ پاتی ہے تو اس پر بےچین ہونے کی کیا ضرورت ہے۔یہ انسانوں کا معاشرہ ہے۔جو بیج بوو گے وہی فصل ضرور اتارو گے۔
“What you sow, so shall you reap”