(Last Updated On: )
کوئی شک نہیں کہ ایک مدت سے اندرونی خلفشار کے شکار ملک کو سکیورٹی فورسز نے بے پناہ قربانیوں کے بعد پرامن بنا دیا۔سوات آپریشن کے بعد ضرب عضب جیسے کامیاب فوجی آپریشن تھے ۔ جبکہ آپریشن ردالفساد جو کہ ناجائز اسلحہ بارود کے خاتمے اور ملکی سرحدوں کی حفاظت کے لیے شروع کیا گیا کہ خاطر خواہ نتائج برامد ہوے ۔خود کش حملے اور قتل وغارت کے واقعات میں نمائیاں کمی واقع ہوئی ۔مگر کچھ دنوں سے ایک بار پھر ملک کے مختلف علاقوں میں دہشت گرد کاروائیوں کی ایک نئی لہر کا آغاز ہوا ہے۔
گزشتہ سال 2021 میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلکٹ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق صرف بلوچستان میں ایک سال کے دوران 104 دہشت گردی کی کاروائیاں ہوئیں جن میں 177 افراد جاں بحق اور 344 کے قریب زخمی ہوئے۔رواں سال کا آغاز بھی بلوچستان کے لیئے امن نا لاسکا۔صرف جنوری میں دہشت گردی کی 10 کاروائیاں ہوئیں جس میں 14 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 23 افراد شہید اور 32 افراد زخمی ہوئی ۔ 25 اور 26 جنوری کی درمیانی شب کو ضلع کیچ میں دہشت گردوں نے ایک چوکی پر حملہ کیا اور اس حملہ کے نتیجے میں سیکیورٹی فورسز کے 10 اہلکار شہید ہوگئے ۔
فروری کے پہلے تین دنوں میں دہشت گردوں کی طرف سے تین حملے ہوئے جس میں نوشکی اور پنجگور کے دو بڑے حملے شامل ہیں ۔بدھ کی رات ضلع پنجگور اور نوشکی میں سیکیورٹی فورسز کے کیمپ پر کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بلوچ لبریشن آرمی) نے حملہ کیا۔آئی ایس پی آر کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے جوابی کاروائی کرت ہوئے نوشکی میں 9 دہشت گردوں اور پنجگور میں 4 دہشت گردوں کو ماردیا ہے ۔جبکہ نوشکی اور پنجگور میں ایک افسر سمیت سات اہلکار شہید ہوے ہیں ۔آئی ایس پی آر کے مطابق دہشت گردوں کے انڈیا اور افغانستان میں موجود اپنے مددگاروں سے رابطے کا انکشاف ہوا ہے ۔جبکہ بی ایل اے نے ایک ای میل کے زریعہ نوشکی اور پنجگور میں ایف سی ہیڈ کوارٹرز پر حملہ کی زمہ داری قبول کی ہے۔
بلوچستان میں ایک دم سے دہشت گردی کی اتنی بڑی کاروائیاں پریشان کن ہیں اور خاص طورپر ایک ایسے وقت میں جب وزیراعظم چین کے دورے پر روانہ ہونے والے ہوں ۔دہشت گردی کے لیے اس وقت کا انتخاب بڑٰی اہمیت کا حامل ہے۔وزیراعظم پاکستان کے دورہ چین میں سی پیک پر کام کی رفتار کو تیز کرنے کے حوالے سے بات چیت ہونی ہے اور ایسے وقت میں دہشت گردی کے واقعات سے چینی حکام اور دنیا کو یہ تاثر دینا ہوسکتا ہے کہ بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال ابتر ہے اور حکومت کے کنٹرول سے باہر ہے۔
یہ تو طے ہے کہ یہ مٹھی بھر دہشت گرد ریاست کے خلاف سوائے بزدلانہ کاروائیوں کے کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکتے مگر ان کا مکمل سدباب ازحد ضروری ہے ۔اور ان دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان اور ایران کے بارڈرپر باڑ کا کام جلد ازجلد مکمل کیا جائے اور ان دہشت گرد تنظیموں کو جن دشمن ممالک سے بھاری امداد مل رہی ہے اس کو بھی روکا جائے ۔اس ضمن میں ہندوستان کی خفیہ ایجنسی را کے رابطے دہشت گرد تنظیموں سے ہیں کا سدباب بہت ضروری ہے ۔
رہی بات بلوچستان کے ان نوجوانوں کی جن کو یہ دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں ان نوجوانوں کو قومی دھارے میں واپس لانے کی ضرورت ہے ۔ضروری ہے کہ محب وطن بلوچوں کو بات چیت کے لیے آگے لایا جائے جو ان نوجوانوں کے تحفظات کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور دہشت گرد تنظیموں میں بھرتی ہونے سے روکیں ۔اس طرح کی کوششیں مشکل ضرور ہوسکتی ہیں مگر ناممکن نہیں ہیں اگر مخلصانہ کوششیں کی جائیں تو خاطر خواہ کامیابی مل سکتی ہے۔
اس ضمن میں دوسری پریشان کن بات یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اس ماہ اور اگلے ماہ سے بطور احتجاج لانگ مارچ شروع کررہی ہیں ۔پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے 27 فروری سے کراچی سے لانگ مارچ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ پی ڈٰی ایم میں شامل سیاسی جماعتیں مارچ میں لانگ مارچ کا اعلان کرچکی ہیں اور 23 مارچ کو اسلام آباد میں دھرنے کا پروگرام ہے ۔
اگرحالیہ دہشت گردی کی کاروائیوں کو دیکھا جائے تو اپوزیشن کے لانگ مارچ دہشت گردوں کے لیے آسان حدف ہوسکتے ہیں ۔جہاں ہزاروں لوگ سڑکوں پر ہوں وہاں پر دہشت گردی کی کاروائی کرنا بہت آسان ہوجاتا ہے اور اگر خدانخواستہ دہشت گرد ان عوامی اجتماعات تک پہنچ گئے تو اس سے بہت زیادہ جانی نقصان ہونے کا اندیشہ پیدا ہوجائے گا۔اس ضمن میں اپوزیشن جماعتوں کو ایک بارپھر سے اپنی حکمت عملی پر غورکرنا ہوگا اورسوچنا ہوگا کہ کیا لانگ مارچ محفوظ بھی ہونگے یا نہیں۔اور اگر پھر بھی لانگ مارچ ناگزیر ہیں تو ان کی سیکیورٹی فول پروف کیسے بنائی جاسکتی ہے۔
اپوزیشن کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی ان معاملات کو سنجیدگی سے لینا ہوگا کہ اگر اپوزیشن احتجاج کے لیے نکل پڑٰی تو ان کی حفاظت کو کیسے یقینی بنایا جائے ۔ممکنہ دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کیسے کی جائے اور سیاسی قیادت سمیت عام سیاسی ورکر کی حفاظت کو کیسے یقینی بنایا جائے ۔اس ضمن میں حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیکیورٹی فورسز پر دوہری زمہ داری عائد ہوتی ہے ۔
سیاسی جماعتوں کے لانگ مارچ سے قطع نظر حکومت کو ملکی حالات کو سنجیدگی سے سنبھالنا ہوگا۔مہنگائی ، غربت ، بے روزگاری سے تنگ عوام دہشت گردی کے واقعات کو کیسے جھیل پائے گی ۔عام شہری اور سیکیورٹی فورسز کے جوان کب تک دہشت گردی کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے ۔کب تک بے گناہ خون بہایا جاتا رہے گا ۔حکومت کو چاہیے کہ دہشت گردی کی حالیہ لہر کے ساتھ اس کے زمہ داروں اور اس میں آلہ کار بننے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹے تاکہ ملک کا امن وامان محفوظ بنایا جاسکے اور عوام کی جان ومال کی حفاظت کی جاسکے ۔