پاکستان کے تمام علاقوں کی خصوصیات انمول ہیں یہ ملک اللہ تعالٰی کی خاص دین ہے، گرم علاقاجات ہیں تو کہیں برفاب وادیاں سمندر کے گہرے پانی اور چٹیل میدان بھی ہمیں رب تعالی کی مہربانیوں کی صورت میں عطا ہوے، یورپ یا رشیا۶ کو دیکھا جاۓ تو کراچی اور کوٸٹہ جیسے جیسے ساحلی علاقوں کی قدر وقیمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے پاکستان میں ایک طرف گلگت کا پہاڑی سلسلہ ہے اور دوسری طرف بلوچستان کے سرمٸ بلند و بالا پہاڑ بڑی شان سے اس سر زمین کی زینت بنے ہوے ہیں،بلوچستان معدنیات کی دولت سے مالا مال خطہ ہے مگر دشوار گذار پہاڑی سلسلہ کی وجہ سے باقی دنیا سے کٹا ہوا ہے،بلوچستان میں پتھروں کے دور میں بھی آبادی تھی مہر گڑھ میں سات ہزار سال قبل مسیح کے نشانات ملے ہیں سکندر اعظم کی فتح سے قبل بلوچستان پر سلطنت ایران کی حکومت تھی اور یہ علاقہ ”ماکا“ کہلاتا تھا،کوٸٹہ بلوچستان کا صدر مقام اور سب سے بڑا شہر ہے یہاں بلوچ،پٹھان پشتون،ہزارہ،پنجابی،سراٸیکی،السندیین قومیں آباد ہیں اور بلوچی،پشتو،براہوی،سندھی ،اردو زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں.کوٸٹہ پشتو لفظ سے نکلا ہے جس کے لغوی معنی قلعہ کے ہیں یہ پیالہ نما سکل میں ہے اور چاروں اطراف خشک پہاڑ ہیں سطح سمندر سے 5000فٹ کی بلندی پر ہونے کی وجہ سے موسم پر پر فضا ہے ،پاکستان کے دوسرے علاقوں سے گرمی کے موسم میں بڑی تعداد میں لوگ کوٸٹہ آکر قیام کیا کرتے تھے مگر افغان جنگ کے بعد حالات خراب ہونے سے سیاحت کا شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے،مستونگ،قلات،خضدار،چمن،زیارت،کان مہتر زٸ،سبی،مچھ بلوچستان کے کچھ اہم علاقوں کے نام ہیں بلوچستان میں بانسری بجانا نوجوانوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے خاص طور پر گرمیوں میں جب چاندنی کی سفید روشنی چاروں طرف پھیلی ہوتی ہے تو نوجوان ٹولیوں کی صورت میں اکٹھےہوکر بانسری پر مدھر دھنیں چھڑتے ہیں جس کی آواز بلندوبالا پہاڑوں سے ٹکرا کر ایک عجب رنگ پیدا کر دیتی ہے ، بلوچستان میں شاعری کے اولین نمونے وسطی بلوچستان کی ریاست قلات کے وزیراعظم ملا محمد حسن براہوی کے ہاں ملتے ہیں جو کم وبیش دو صدیوں کی تاریخ ہے جس میں گدوڈوم، زرک خان لاشاری زیرک، میر مولا داد بنگلزئی، ملا ہزار بنگلزٸغلام فقیر وغیرہ نے بلوچی و براہوی کے ساتھ اردومیں بھی شاعری کی، بیسیویں صدی کے آغاز پر بلوچستان میں اردو شاعری اپنے روایتی انداز میں برٹش بلوچستان کے دور دراز علاقے لورالاٸ اور بعد میں کوٸٹہ میں جلوہ گر ہوٸ جہاں سردار محمد یوسف پوپلزٸ ،عابد شاہ عابد،قتح چند نسیم نے مشاعروں کا آغاز کیا اور پہلا اردو جریدہ ”قندیل خیال“ متعارف کرایا دوسری دہاٸ میں کوٸٹہ کے نواحی علاقے نواں کلی کرانی کے سید عابد شاہ کا مجموعہ کلام ”گلزار عابد“ دیو بند سے شاٸع ہوا جو بلوچستان سے اردو شاعری کا پہلا مجموعہ تھا 1920 کے بعد اردو شاعری ومحافل کو عوامی سطح پر لانے اور تحریک پاکستان میں شامل ہونے کا سہرا نواب یوسف عزیز مگسی ،میر محمد حسن عنقا گل خان نصیر اور ان کے رفقا۶ کے سر جاتا ہےجدید اردو شاعری کو بلوچستان میں متعارف کروانے میں عطا شاد کا نام بہت اہم ہے ،عطا شاد فیض سے متاثر تھے اور انھوں نے بلوچی شاعری اور اردو کے درمیان پل کا کام کیا،ان کی شاعری میں بلوچی ثقافت اپنی تمامتر رعناٸیوں کے ساتھ جلوہ افروز ہوتی ہے عطاشاد 1939 کو تربت میں پیدا ہوے
وفا__
میری زمین پر ایک کٹورے پانی کی قیمت
سو سال وفا ہے،آٶ
ہم بھی پیاس بجھاٸیں
زندگیوں کا سودا کریں
عطا شاد کی شاعری کی انفرادیت نٸی لفظیات و تراکیب ہیں، بلندو بالا کہسار، قدرتی چشمے، صحرا، ہنستے برستے چھرنے، دشت تپاں، خلوت یخ کے مشاہدات، زمستاں میں شب گرم کی برکتیں اور گلاب نژاد اور آفریدہ مہتاب لوگ و چہرے نظر آتے ہیں
پارساٶں نے بڑے ظرف کا اظہار کیا
ہمیں سے پی اور ہمیں رسوا سر بازار کیا
ایک اور شعر
رات پھولوں کی نماٸش میں وہ خوش جسم لوگ
آپ تو خواب ہوے اور ہمیں بیدار کیا
درد کی دھوپ میں صحرا کی طرح ساتھ رہے
شام آئی تو لپٹ کر ہمیں دیوار کیا
عطا کی شاعری کا قاری خود کو اپنے ماحول سے الگ محسوس کرتے ہوۓ نٸ آب وہوا اور اجنبی سر زمین پر کھڑا محسوس کرتا ہے عطا نے بلوچی اور اردو زبان کے اشتراک کے ذریعہ شاعری کو جدت دی جس کی جڑیں زمین میں پیوست ہیں مثلاًطشت جاں گلاب نژاد،حرف جاں بار،پندار عرض دشت تپاں، اور خالص بلوچی الفاظ بھی استعمال کیۓ جیسے تنگیں (پیاسا)گلگ(بال) عومر(بلوچی داستان کا کردار)زوباد(جنوب کی ہوا)کچھ مثالیں ہیں
کچھ اشعار درج ذیل ہیں
بڑا کٹھن ہے راستہ جو آسکو تو ساتھ دو
یہ زندگی کا فاصلہ مٹا سکو تو ساتھ دو
بڑے فریب کھاٶگے بڑے ستم اٹھاٶ گے
یہ عمر بھر کا ساتھ ہے نبھا سکو تو ساتھ دو
جو تم کہو یہ دل تو کیا میں جاں بھی فدا کروں
جو میں کہوں بس اک نظر ٹا سکو تو ساتھ دو
میں اک غریب بے نوا میں اک فقیر بے صداقت
مری نظر کی التجا جو پا سکو تو ساتھ دو
ہزار امتحاں یہاں ہزار آزماٸشیں
ہزار دکھ ہزار غم اٹھا سکو تو ساتھ دو
یہ زندگی یہاں خوشی غموں کا ساتھ ساتھ ہے
رلا سکو تو ساتھ دو ہنسا سکو تو ساتھ دو
عطا نےبلوچستان کے لوگ گیت، کہانیوں، رومانی داستانوں کو شاعری کا حصہ بنایا، منہار،شاہ مرید اور ہانی، وفا اور لوری نظمیں لکھیں جو بلوچی ثقافت کی نماٸندگی کرتی ہیں ”ماہ کندن“ نظم نے بہت شہرت حاصل کی انھیں ستارہ امتیاز اور تمغہ حسن کار کردگی سے بھی نوازا گیا13 حکومتی عہدوں پر فاٸز رہے اور متعدد کتب لکھیں