جولائی یا اگست تھا۔ آدھی رات تھی۔ کہ ڈھاکہ یونیورسٹی کی لائبریری رات ہو یا دن، چوبیس گھنٹے کھلی رہتی تھی۔ باہر تیز طوفانی ہوا تھی۔ املی کے پیڑ، یوں لگتا تھا، ٹوٹ کرلائبریری کی کھڑکیوں کے شیشوں پر آن گریں گے۔ اندر، دوطالب علم، گھنٹوں سے بحث کررہے تھے۔ ان کے سامنے اکنامکس کی کتابیں کھلی تھیں۔ کاغذات ایک طرف پڑے تھے۔ چند دن بعد امتحان تھا لیکن وہ جیسے مغربی اور مشرقی پاکستان کے باہمی مسائل ابھی اور اسی وقت حل کرنا چاہتے تھے۔
یہ ساٹھ کی دہائی کا آخری حصہ تھا۔ ان دو طالب علموں میں سے ایک ڈھاکہ ہی سے تھا اور دوسرا طالب علم یہ کالم نگار تھا جو بین الصوبائی (انٹرونگ) سکالر شپ پر ڈھاکہ یونیورسٹی میں اقتصادیات میں ایم اے کررہا تھا۔ اُس طالب علم کی بہت سی باتوں کا کوئی جواب نہیں دیا جاسکتا تھا۔ ایک کے بعد دوسرا مارشل لا، جاگیردارانہ نظام، برادری کا تانا بانا جوانتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا تھا اور یہ حقیقت کہ مشرقی پاکستان میں خواندگی اور تعلیم…. دونوں کا تناسب زیادہ تھا!
آج چالیس سال بعد بلوچستان کو مشرقی پاکستان سے تشبیہ دی جارہی ہے۔ یوں لگتا ہے ہاتھی اندھوں کے ہاتھ آگیا ہے۔ بھانت بھانت کی بولیاں ہیں، کان پڑی آواز نہیں سنائی دے رہی۔ سارے ہنگامے میں اگر کسی شے پر توجہ نہیں دی جارہی تو وہ بلوچستان کے حقیقی مسائل ہیں۔
مشرقی پاکستان اور بلوچستان کو ایک دوسرے کے مماثل قرار دینے کاکوئی جواز نہیں۔ جغرافیائی طور پر نہ ہی سماجی لحاظ سے۔ بلوچستان اور باقی پاکستان کے درمیان زمینی بُعد نہیں جیسا کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان تھا۔ مشرقی پاکستان اس بدترین سرداری اور جاگیردارانہ نظام کاسوچ بھی نہیں سکتا تھا جس نے بلوچستان کو ایک خوفناک اژدھے کی طرح اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات دفاع، خارجہ امور، کرنسی، مالیاتی پالیسی اور تجارتی حسابات کے بارے میں تھے جبکہ سردار اختر مینگل کے چھ نکات لاپتہ افراد، لاشوں اور بے گھر افراد سے متعلق ہیں۔
بلوچستان کے مسائل کا حل پیش کرنے والوں میں اکثریت ان بُزر جمہروں کی ہے جنہیں بلوچستان کے جغرافیے، آبادی کی تقسیم، سرداری نظام کی حرکیات اور فرقہ وارانہ زاویوں کا شاید ہی پورا علم ہو۔ جو کچھ سردار مینگل اور زہری کہہ رہے ہیں‘ وہی پیش منظر پر چھایا ہوا ہے۔ چالیس فیصد پشتون آبادی کا کہیں ذکر نہیں۔ ہزارہ قبیلے کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے‘ اس سے آنکھیں چرائی جارہی ہیں۔ پنجابی آباد کاروں کو جس طرح قتل کیا جارہا ہے‘ اس کی پرواہ صوبائی حکومت کو ہے نہ وفاق کو۔ بلوچستان کو ایک اکائی سمجھنا حقائق سے ناواقفیت کا ثبوت ہے۔ مکران، خاران اور چاغی جیسے علاقوں کے مسائل کی اپنی نوعیت ہے۔ وہاں سرداری نظام نہیں پایا جاتا۔ اس کے برعکس سندھ سے ملحقہ علاقوں پر مگسی، جمالی، عمرانی اور کھوسوں جیسے بڑے زمیندار چھائے ہوئے ہیں۔ ان علاقوں کے مسائل الگ نوعیت کے ہیں۔
سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ خود بلوچستان کے سرداروں نے بلوچستان کے ساتھ کیا کیا؟ کیا وہ اس حقیقت کو جھٹلا سکتے ہیں کہ وہ صوبے کے سیاہ و سفید کے مالک رہے۔ اقتدار پر ان کی گرفت ہر طرح اور ہر لحاظ سے مضبوط رہی ہے۔ گزشتہ چالیس سال کے وزرائے اعلیٰ ہی کے نام دیکھئے۔ سردار عطااللہ مینگل۔ جام غلام قادر خان (دو مرتبہ) سردار محمد خان باروزئی، ظفر اللہ خان جمالی (دو مرتبہ)، سردار خدا بخش مری، نواب اکبر خان بگتی، میر ہمایوں خان مری، سردارتاج محمد جمالی، ذوالفقار علی مگسی (دو مرتبہ)، سردار محمد نصیر مینگل، سردار اختر مینگل، جان محمد جمالی، جام محمد یوسف، سردار محمد صالح بھوٹانی اور موجودہ وزیراعلیٰ نواب سردار اسلم ریئسانی۔
اس فہرست میں ایک آدھ پختون کو چھوڑ کر تمام کے تمام وزرائے اعلیٰ بلوچ ہیں۔ آپ موجودہ گورنر ذوالفقارمگسی کی طاقت کا اندازہ لگائیے۔ وہ خود گورنر ہیں، ان کے ایک بھائی مرکز میں سینیٹر ہیں، ان کے صاحبزادے بھی سینیٹر ہیں اور دوسرے بھائی سندھ میں وزیر ہیں۔ اسی طرح جھلوان کے نواب سردار ثناءاللہ زہری، نون لیگ میں ہیں اور بلوچستان میں وزیر ہیں جبکہ ان کے بھائی اسرار زہری پیپلزپارٹی میں ہیں اور مرکز میں وزارت کے مزے لے رہے ہیں۔
کیا ان طاقت ورسرداروں سے یہ نہیں پوچھا جانا چاہیے کہ آپ نے اپنے طویل اقتدار کے دوران بلوچ عوام کیلئے کیا کیا ہے؟ کتنے سکول کالج اور کتنی یونیورسٹیاں کھولی ہیں؟ کتنے کارخانے لگائے ہیں، کتنی شاہراہیں تعمیر کی ہیں؟ آخر ان کاموں میں مرکز کیا رکاوٹ ڈال سکتا تھا؟ اور اگران کاموقف یہ ہے کہ مرکز نے انہیں یہ کام نہیں کردیئے توانہوں نے یا ان میں سے کسی ایک نے بھی کبھی استعفیٰ کیوں نہیں دیا؟ احتجاج کیوں نہیں کیا؟
وہ تلخ حقیقت جسے یہ سردار تسلیم کرنے پر کبھی تیار نہ ہوں گے‘ یہ ہے کہ یہ اپنے اپنے علاقے میں، اپنے اپنے قبیلے میں خدا بنے ہوئے ہیں۔ بلوچستان کے سرداری نظام کی کوئی مثال شاید ہی دنیا میں پائی جاتی ہو۔ قبیلے کو سرداری جال میں اس طرح جکڑ کر رکھا جاتا ہے کہ کوئی شخص انکار یا بغاوت کا سوچ ہی نہیں سکتا۔ ان قبیلوں کے سردار اسلام آباد آتے ہیں تو ایسی ایسی مثالیں بھی دیکھنے میں آئیں کہ اڑھائی سو کلاشنکوف بردار پہریدار ساتھ تھے۔ یہ سردار قبیلے کے کسی عام فرد کو تعلیم یافتہ یا خوش حال نہیں دیکھ سکتے۔ کوئی حساب کتاب ہوتا تو معلوم ہوتا کہ آج تک کتنے افراد کو ان غاروں میں پھینکا گیا ہے جہاں لاکھوں چیونٹیوں کا بسیرا ہے اور جو ان برہنہ جسموں کا انتظار کرتی ہیں جن پر شہد ملا ہوا ہوتا ہے۔ ذہنیت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ کچھ عرصہ قبل ایک بگتی سردار لاہور تشریف لائے۔ پریس کانفرنس میں ان سے سوال کیا گیا کہ اس زمانے میں بھی بلوچستان میں سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کرنے کیلئے ملزم کو جلتے کوئلوں پر ننگے پاﺅں کیوں چلایا جاتا ہے تو انہوں نے شدومد سے اس غیرانسانی رسم کا دفاع کیا۔
ان قبیلوں کے عام افراد جوسردار کے رشتہ دار نہیں، عملی طور پر غلامی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا، کھانا پینا، بچوں کے رشتے طے کرنا، سب کچھ سردار کی رضا سے ہوتا ہے۔ تعلیم، علاج، ووٹ، یہ وہ ممنوعہ اشجار ہیں جن کا وہ سوچ بھی نہیں سکتے۔ سردار کے بعد اس کا بیٹا ان کا حکمران ہے اور اس کے بعد اس کا پوتا۔ ہر شخص جانتا ہے کہ سردار کی اجازت اور اشیرباد کے بغیر‘ اس کے علاقے میں مرکزی یا صوبائی حکومت کا کوئی ملازم کام کرسکتا ہے نہ رہ سکتا ہے۔ اکثر و بیشتر ان سرکاری ملازموں کو ماہانہ تنخواہ وصول کرنے کیلئے سردار کی پرچی دکھانا پڑتی ہے۔۔ قبیلے کے ارکان کو سردار حکم دیتا ہے کہ اسلحہ لے کر پہاڑوں پڑ چڑھ جاﺅ۔ وہ ہتھیار بند ہو کر پہاڑوں پر چڑھ جاتے ہیں۔ جب حکم دیتا ہے کہ کارسرکار میں مداخلت کرو تو وہ باقاعدہ جنگی بنیادوں پر مداخلت کرتے ہیں۔
سرداراختر مینگل کے چھ نکات سے ہر وہ شخص متفق ہے‘ جسے پاکستان اور بلوچستان سے محبت ہے۔ لاپتہ افراد بازیاب ہونے چاہئیں اور ضرور ہونے چاہئیں۔ ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ اکبر بگتی کے قاتل کیفر کردار کو پہنچنے چاہئیں؛ تاہم اس حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ یہ بیماری کی علامات ہیں، بیماری کے اسباب نہیں۔ جب تک سرداری اورجاگیردارانہ نظام میں اصلاحات نہیں کی جاتیں، بلوچ عوام عملی طور پر غلامی ہی کی زندگی گزارتے رہیں گے۔ ہر پڑھے لکھے پاکستانی کو یہ سوال اپنے آپ سے اور اس کے بعد دانشوروں سے کرنا چاہیے کہ آخر بھارت کو کیا پڑی تھی کہ اس نے 1951ءمیں زرعی اصلاحات نافذ کرکے جاگیرداروں، زمینداروں، شہزادوں اور نوابوں سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جان چھڑا لی۔ اور پرویز مشرف کے وزیراعظم ظفر اللہ جمالی نے وزیراعظم کی حیثیت سے یہ بیان کیوں دیا کہ پاکستان میں زمینداری اور جاگیرداری کا کوئی وجود نہیں اور زرعی اصلاحات کی کوئی ضرورت نہیں۔
کیا بلوچستان کی اسّی لاکھ کی آبادی میں قبائلی سرداروں کے علاوہ کوئی ایک شخص بھی اس قابل نہیں کہ صوبے کا وزیراعلیٰ بن سکے؟
http://columns.izharulhaq.net/2012_10_01_archive.html
“