بلوچستان اور پتیومکن بستیاں
بلوچستان چلیں گے؟ اگر مجھ سے آج کوئی یہ سوال کرے تو اس کا مثبت جواب دینے کے لیے مجھے کئی بار سوچنا گا۔ کوئٹہ جانے کی شاید حامی بھر لوں۔ گوادر بھی چلا جاؤں گا لیکن ان دونوں شہروں کے بیچ وسیع تر علاقے میں جانے کا سوچتے ہوئے کئی خدشات دل میں ابھریں گے۔ اس کے برعکس باقی پاکستان میں جہاں مرضی جانے کو کہیں میں بلا سوچے سمجھے جانے کے لیے تیار ہو جاؤں گا۔
میں ان کروڑوں پاکستانیوں میں سے ہوں جنہوں نے رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے اس سب سے بڑے صوبے کو دیکھنے کا کبھی نہیں سوچا ہوگا۔ ایک بار جب میں شکار پور، سندھ میں تھا تو میں نے اپنے سندھی دوستوں سے کہا کہ میں نے کبھی بلوچستان نہیں دیکھا تو وہ مجھے بلوچستان کے ایک سرحدی قصبے میں لے گئے تھے یوں میں قسم کھانے کے قابل ہوا کہ میں پاکستان کے اس صوبے میں بھی جا چکا ہوں۔
ایسی بات نہیں کہ ہم بلوچستان سے ناآگاہ ہوں۔ ہمارے بچپن میں تیسری چوتھی جماعت کے جغرافیے کی کتاب میں چاغی، سبی، لورالائی نام کے شہروں کا ذکر تھا۔ معدنیات کے حوالے سے یا ریلوے لائن کے ضمن میں۔ اس کے بعد ہم بلوچستان کو بھول گئے تھے البتہ ملتان سے ساری رات کے سفر کے بعد صبح لاہور پہنچنے والی کوئٹہ پسنجر ہماری سواری رہی تھی کیونکہ ان دنوں ہمارے قصبے علی پور سے ایک آدھ بس آتی تھی جو شام ڈھلے ہمیں ملتان پہنچاتی اور ہم رات کو چلنے والی اس ریل گاڑی میں بیٹھ کر لاہور چھاؤنی سٹیشن پر اترا کرتے تھے کیونکہ ہمارے ماموں کا گھر ظفر علی روڈ کا جیل روڈ کی جانب پہلا گھر تھا۔
اب دیکھیے لاہور بھی ایسے ہی لگتا تھا جیسے اپنا گھر۔ کم از کم پنجاب کے رہنے والے بیشتر لوگ دل پشوری اور تاریخی مقامات دیکھنے کی خاطر لاہور، روزگار کی تلاش یا سمندر دیکھنے کو کراچی، چپل کباب کھانے اور اس دور میں لنڈی کوتل سے سستی گھڑیاں وغیرہ لینے کی خاطر پشاور بھی ہو آتے تھے مگر بلوچستان شاید ہی کوئی جاتا ہوگا۔ البتہ بہت بعد میں بلوچستان سے منسلک پنجاب کے سرائیکی علاقوں خاص طور پر تونسہ وغیرہ سے لوگ سکولوں کے استاد یا پولیس میں بھرتی ہونے کے لیے بلوچستان جانے لگے تھے۔
سیاست میں اگر نام ہوتے تھے تو سندھ کے وڈیروں کے بعد بلوچستان کے سرداروں کے نام مشہور تھے جیسے اکبر بگٹی، عطاّاللہ مینگل، خیر بخش مری، شیر محمد مری وغیرہ۔۔۔۔ پھر شیر محمد کو جنرل شیروف اور خیر بخش کو جنرل خیروف کہا جانے لگا تھا۔ پاکستان بنتے ہی 1948میں قلات کو پاکستان کے ساتھ شامل کیے جانے کے خلاف خان آف قلات احمد یار خان کے بھائی پرنس عبدالکریم بلوچ نے بغاوت کی اور 1950 تک پاکستان کی فوج سے لڑتا رہا۔ پھر ون یونٹ پالیسی کے خلاف سردار نوروز خان نے ہتھیار اٹھا لیے۔ اس کو دھوکہ دے کر پہاڑوں سے اتار گیا اور بعد میں اس کے بیٹوں اور بھتیجوں کو پھانسی دے دی گئی۔ وہ خود بھی قید کے دوران فوت ہوا۔ 1963 سے 1969 تک مری اور بگٹی قبائل نے علیحدگی پسندی کی روش اختیار کرکے ہتھیار اٹھائے رکھے تھے۔ مگر 1969 میں بلوچوں نے اس شرط پر ہتھیار ڈال دیے تھے کہ "ون یونٹ" ختم کر دیا جائے گا۔ 1970 میں آمر جنرل یحیٰی خان نے ون یونٹ ختم کر دیا تھا۔ مگر بلوچوں نے اپنے طور پر لڑائی جاری رکھی تھی۔ 1973 میں ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان کی حکومت کو غداری کے الزام میں تحلیل کر دیا تھا۔ میر ہزار خان نے بلوچستان پیپلز لبریشن فرنٹ کی بنیاد رکھی اور گوریلا جنگ شروع کی۔ ان کے خلاف فوجی آپریشن کیا گیا۔ ایران کی مدد سے اس تحریک کو سختی سے دبا دیا گیا تھا۔ پھر 2004 میں گوادر میں حملہ کرکے تین چینی انجنیر مار دیے گئے تھے اور چار کو زخمی کر دیا گیا تھا۔ 2005 میں نواب اکبرخان بگٹی اور بالاچ مری سے حکومت کو پندرہ نکاتی مطالبوں کی فہرست دی جس میں بلوچستان کو خودمختاری دیے جانے کی بات بھی شامل تھی۔ مطالبات مانے جانے کی بجائے ان کے خلاف آپریشن شروع کر دیا گیا اور اگست 2006 میں نواب اکبر خان بگٹی کو ایک حملے میں مار دیا گیا۔ تب سے اب تک بلوچستان کے حالات کشیدہ ہی ہیں۔
گوادر کی بندرگاہ کی تعمیر میں چین نے مدد دی اور گوادر کی بندرگاہ کا کنٹرول بھی چینی کمپنی نے سنبھال لیا۔ سی پیک کا معاہدہ بھی ہو گیا۔ اس پر کام بھی شروع ہو چکا۔ پاکستان کے غیر سیاسی اداکار ایک عرصے سے مقبوضہ کشمیر میں مداخلت کرتے چلے آئے ہیں۔ ویسے بھی کشمیر دونوں حکومتوں کے درمیان ایک انتہائی متنازعہ معاملہ ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کا جبر رکنے میں نہیں آتا اور بلوچستان میں علیحدگی پسند حکومت پاکستان کی سختیوں کو طشت از بام کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے۔ چین کی بلوچستان اور ساتھ ہی ایران کے تیل میں دلچسپی کے سبب امریکہ بھی اس علاقے میں فعال ہو چکا اور ظاہر ہے ہندوستان کو پاکستان کو زک پہنچانے کی خاطر بلوچستان سے زیادہ دم پخت جگہ کوئی اور نہیں مل سکتی۔ بگٹی کا بیٹا براہمداغ بگٹی اور خیر بخش مری کے بیٹے حیربیار مری اور مہران مری پاکستان سے باہر بیٹھ کر بلوچستان میں علیحدگی پسندی کی تحریک کے لیے تعلقات بنا رہے ہیں اور ذرائع حاصل کر رہے ہیں۔ نبی بخش خان بلوچ کا بیٹا ڈاکٹر اللہ نذر بلوچستان میں رہ کر گوریلا جنگ کر رہا ہے۔ اللہ نذر کسی سردار کا نہیں بلکہ ایک عام شہری کا بیٹا ہے۔ اللہ نذر کے علاوہ اور بھی کئی گوریلا کمانڈر ہیں۔ آخری ایام میں زیادہ بری بات یہ ہوئی کہ ان کی معاندانہ سرگرمیوں کا شکار حکومتی اہلکاروں کے علاوہ عام آدمی بھی بننے لگے ہیں۔
حکومت پاکستان کی سول ملٹری افسر شاہی گذشتہ سات دہائیوں سے اگر بلوچ علیحدگی پسندوں کے خلاف کوئی پرچاری عمل کرتی بھی ہے تو وہ ماسوائے پتیومکن بستیوں کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ کہیں سے ایسے لوگ نکال لیتی ہے جن کا علیحدگی پسندی کی اس تحریک کے ساتھ یا تو کوئی واسطہ نہیں ہوتا اور اگر ہوتا ہے تو عدم فعال۔ ایک فوٹو سیشن ہوتا ہے جس میں کوئی یونہی کچھ دعوے کرتا ہے، اعتراف کرتا ہے اور تائب ہو جاتا ہے۔ پرانے اور نئے اسلحے کے ساتھ ایسے لوگوں کی قطار دکھائی جاتی ہے جنہیں درست طریقے سے اسلحہ پکڑنا تک نہیں آتا چلائے گے کیا خاک۔
پتیومکن بستیوں کے اس مظاہرے سے رنجشیں اور محرومیاں تمام نہیں ہوتیں۔ پتیومکین بستی درحقیقت باقاعدہ اصطلاح ہے، جس کا مطلب ہے دکھاوا کرنا۔ روس کی ایک ملکہ معظمہ تھیں ، ایکاترینا، ملک کو ترقی دینے کی لگن لیے ہوئے۔ ان کا ایک وزیر باتدبیر ہوتا تھا، پتیومکن، یقینا" بدعنوان ہوگا۔ ملکہ اپنے شاہی بجرے پر کسی علاقے کی ترقی کا نظارہ کرنا چاہتیں تو وہ ساحل کے نزدیک ایسی یک روزہ بستیاں کھڑی کر دیتا تھا جو ملکہ کے جانے کے بعد اٹھا لی جاتی تھیں۔ ان بستیوں میں سارے لوگ اداکار ہوتے تھے۔ چنانچہ بلوچستان کے معاملے میں مزید پتیومکن بستیوں کا مظاہرہ کرنے کا اب وقت نہیں رہا بلکہ حقیقتا" لوگوں کی محرومیاں تمام کرنی ہونگی اور رنجشیں ختم کی جانی ہونگی۔
علیحدگی پسندی کی تحریکوں کا تعلق ہمیشہ ہی معیشت کی ناہموار تقسیم کے ساتھ رہا ہے۔ لوگوں کو خوشحال بنا دیا جائے تو علیحدگی پسندی کی تحریک میں دم نہیں رہتا۔ وجہ یہ ہوتی ہے کہ ایسی تحریکوں کی مسلح کارروائیاں گوریلا طرز کی ہوتی ہیں۔ لوگ برے حالات کے سبب لڑنے والوں کی نہ چاہتے ہوئے بھی مدد کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ معاشی حالات بہتر ہونے سے لوگوں میں اعتماد آتا ہے۔ اس اثناء میں لڑنے والوں کو بھی بحالی کی جانب راغب کیا جا سکتا ہے۔
ہندوستان کے کچھ ذمہ دار لوگ سرعام بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کیے جانے کی باتیں کر چکے ہیں۔ ہندوستان نے ایران کی بندرگاہ چاہ بہار میں سرمایہ کاری کی ہے اور اٹھارہ ماہ کے لیے اسے کرائے پر حاصل بھی کر لیا ہے۔ پاکستان پہلے ایک بھارتی جاسوس کو پکڑ چکی ہے۔ ان اٹھارہ ماہ میں بھارت کا بظاہر مقصد تو مال افغانستان پہنچانے کی خاطر اتارنا ہے مگر کون جانے اس مال میں کتنا اسلحہ اور اسلحہ چلانے والے کتنے باتربیت ڈھکے چھپے افراد آتے ہیں۔ ایران کے سرحدی علاقوں سے بلوچستان میں نفوذ کر جانا کوئی مشکل نہیں ہے۔ پاکستان کے سیاستدانوں، فوج اور دیگر حکام کو مل کر تیزی کے ساتھ حقیقی کام کرکے دکھانا ہوگا تاکہ دشمن کو چال چلنے سے باز رکھا جا سکے۔ پاکستان کی جانب آنکھ اٹھا کر دیکھنے والوں کی آنکھیں نکال لینے کے دعوے بہت ہو چکے، متشددانہ مزاجی سے ہٹ کر عملیت پسندی کا مظاہرہ نہ کرنے کا نتیجہ اچھا نہیں نکلا کرتا۔
Top of Form
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“