عصر حاضر میں بلوچستان میں تحقیق، تنقید، تصنیف، تالیف اور ترجمے کے میدان میں ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کا بہت بڑا نام ،کام اور مقام ہے ۔ وہ میرے پرانے مہربان ہیں اور نہایت قابل احترام بھی ۔ "بلوچ تاریخ خالی جگہیں اور مغالطے" کے موضوع پر ان کا ایک مضمون پڑھنے کا اتفاق ہوا ۔ ان کے مضمون کا مقصد اپنے عنوان سے ہی واضح ہے کہ بلوچ تاریخ میں خالی جگہیں اور مغالطے بہت ہیں انہوں نے ایک مثال دی ہے کہ نمازیوں کے درمیان خالی جگہ کو شیطان بھرتا ہے اور ان کے بقول بلوچ تاریخ میں بھی بہت سی جگہیں خالی رہ گئی ہیں یا چھوڑ دی گئی ہیں جس سے مغالطے پیدا ہوئے ہیں ۔ میں نے جب یہ مضمون پڑھا تو مجھے پڑھ کر یہ حیرت ہوئی کہ ڈاکٹر صاحب نے جس موضوع پر یہ مضمون لکھا ہے انہوں نے خود ہی اپنے موضوع اور مقصد کی نفی کرتےہوئے بہت سے مقامات پر خالی جگہیں چھوڑ دی ہیں جس سے یقینی طور پر غلط فہمیاں اور مغالطے پیدا ہونے کے در وا کیے گئے ہیں ۔ انہوں نے ایک جگہ پر لکھا ہے کہ
" ینگ بلوچ نامی ایک پہلی زیر زمین سیاسی پارٹی 1920 میں بنی تھی اس کا دوسرا نام انجمن اتحاد بلوچاں تھا ۔ اس پارٹی نے پھر آگے چل کر آل انڈیا بلوچ کانفرنس کا نام دھار لیا ۔ 1932-33 میں اس پارٹی کی چار چار روزہ سالانہ کانفرنس کی مثال پورے خطے کی سیاسی تاریخ میں موجود نہیں ہے اور یہ بھی تصور سے پرے کی بات ہے کہ یہ پارٹی آٹھ اخبارات چلاتی تھی ۔ ہفت روزہ البلوچ کراچی 2 سال چلا اور بند کر دیا گیا، جہازی سائز والا ہفت روزہ " بلوچستان جدید " 5 ماہ تک پارٹی کا ترجمان بنا رہا، بند ہوا تو سہ روزہ " ینگ بلوچستان " کراچی سے جاری ہوا ۔ اس کے 20 شمارے ہماری ترجمانی کرتے رہے ۔ ایک اور سہ روزہ " نجات " کراچی تھا جس کے 60 شمارے نکلے ۔ ہفت روزہ بلوچستان بھی کراچی سے نکلتا تھا ۔ جیکب آباد سے الحنیف یہ کام کرتا رہا ۔ مولانا ظفر علی خان کا زمیندار لاہور تو سمجھو آل انڈیا بلوچ کانفرنس کا ہی اخبار تھا ۔ انقلاب اور مساوات لاہور بھی ہماری ترجمانی کیا کرتے تھے ۔ اسی زمانے میں بلوچ تاریخ کے 2 اہم ترین پمفلٹس یا کتابچے شمس گردی اور فریاد بلوچستان چھپے تھے " ۔
یہاں پر قارئین پڑھ چکے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب نے کس فخر اور یقین کے ساتھ لکھا ہے کہ اس خطے میں اس جیسی مثال نہیں ملتی انجمن اتحاد بلوچاں اور آل انڈیا بلوچ کانفرنس کی کارکردگی کی بہت تعریف کی 2 پمفلٹس کی تاریخی اہمیت کا ذکر کیا 8 اخبارات کا حوالہ دیا مولانا ظفر علی خان کے بھرپور تعاون کا اور ان کے اخبارات کا تذکرہ بھی کیا مگر انہوں نے بلوچ اور بلوچستان کے ان ہیروز کا نام لکھنا مناسب نہیں سمجھا جنہوں نے اپنی آسائشوں سے بھری زندگی کو بلوچ قوم اور بلوچستان کی سرزمین کی انگریز سامراج اور ان کے گماشتوں سے آزادی کی خاطر وقف کر دی جیل اور دربدری کو سینے سے لگایا اپنے گھر بار سے بے گھر ہو گئے لیکن ڈاکٹر صاحب نے ان ہیروز کا نام لکھنا گوارا نہیں کیا اور یہ جگہیں خالی چھوڑ کر غلط فہمیوں اور مغالطوں کا دروازہ کھول دیا اور نئی نسل کو اپنے ہیروز سے لا علم رکھنے کی بنیاد ڈال دی تا کہ وہ اپنے حقیقی ہیروز کے ناموں اور کارناموں سے لاعلم رہ کر بلوچ تاریخ کی ان خالی جگہوں کو پر کرنے کے لیے غلط فہمیوں اور مغالطوں کا شکار ہوتے رہیں ۔ ویسے بلوچستان کے تمام باشعور افراد بخوبی جانتے ہیں کہ یہ کون لوگ تھے لیکن مسلئہ نئی نسل کا ہے ان کو ان شخصیات سے کون روشناس کروائے گا ۔ اس بارے میں عرض ہے کہ انجمن اتحاد بلوچاں کے بانی رہنما و اراکین میر عبدالعزیز کرد، بابو عبدالکریم شورش، میر گل خان نصیر، میر فاضل محمد شہی، ملک عبدالرحیم خان خواجہ خیل، اور ملک فیض محمد یوسفزئی و دیگر تھے ۔ جس طرح آل انڈیا مسلم لیگ والوں نے قائد اعظم کی مقبولیت اور کرشماتی شخصیت سے متاثر ہو کر ان کو مسلم لیگ میں شمولیت اور قیادت سنبھالنے کی دعوت دی تھی بالکل اسی طرح انجمن اتحاد بلوچاں کی قیادت نے بھی جیل میں قید نوجوان بلوچ رہنما نواب یوسف عزیز مگسی سے خط و کتابت ذریعے انجمن اتحاد بلوچاں اور آل انڈیا بلوچ کانفرنس میں شمولیت اور قیادت سنبھالنے کی دعوت دے دی جنہوں نے قبول کر لی اور جیل سے رہا ہوتے ہی انہوں نے انہوں نے نہ صرف انجمن اتحاد بلوچاں اور آل انڈیا بلوچ کانفرنس کو منظم اور فعال کر دیا بلکہ کراچی سے اخبارات نکالنے کا عملی مظاہرہ بھی کیا جن کی معاونت میں بابو عبدالکریم شورش، میر گل خان نصیر، محمد حسین عنقا اور سید ظہور شاہ ہاشمی و دیگر شامل تھے ۔ مولانا ظفر علی خان نے نواب یوسف عزیز مگسی کی قائدانہ صلاحیتوں اور تاریخی جدوجہد اور کارناموں سے متاثر ہو کر اپنے اخبارات ان کی سیاسی اور صحافتی سرگرمیوں کے لیے مختص کر دیئے بلکہ مولانا ظفر علی خان نے یوسف عزیز مگسی کی تعریف میں اشعار تک موزوں کیئے ان میں سے ان کے 2 بہت مشہور اشعار یہ بھی ہیں
تم کو خفی عزیز ہے، ہم کو جلی عزیز
عارض کا گل تمہیں، ہمیں دل کی کلی عزیز
لفظ بلوچ مہر و وفا کا کلام ہے
معنی ہیں اس کلام کے یوسف علی عزیز
ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب ہمارے لیئے بہت بڑے نام اور قابل احترام مگر اس کے باوجود ہم ان کو مولانا ظفر علی خان کی شخصیت سے موازنہ کے قابل نہیں سمجھتے انہی مولانا ظفر علی خان نے اپنے اخبارات تک یوسف عزیز مگسی کے لیے وقف کر دیئے اور ان کی مدح سرائی یا تعریف و توصیف بھی کی ہے مگر افسوس کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے ایک تحقیقی مضمون یا کتاب میں یوسف عزیز مگسی اور ان کے دیگر ساتھیوں کا نام تک لینا گوارا نہیں کیا اس کے برعکس انہوں نے مزدور تحریک کے حوالے سے صرف رابطہ کرنے کی بنیاد پر مصری خان کھیتران کا اور باکو کانفرنس یا کنوینشن میں شرکت کے حوالے سے تارا چند بلوچ کا ذکر کیا ہے ۔ ان کا ذکر کرنا اچھی بات ہے مگر بلوچ اور بلوچستان کے حقیقی قائدین اور ہیروز کا ذکر نہ کرنا چہ معنی دارد؟ بات صرف یہاں تک نہیں ہے بلکہ انہوں نے 2 تاریخی پمفلٹس بعنوان شمس گردی اور فریاد بلوچستان کا ذکر تو کیا ہے لیکن وہ یہاں بھی ان تاریخی پمفلٹس لکھنے والے اور ان کی پاداش میں جیل کی سزا کھانے اور جرمانہ ادا کرنے والے بلوچ ہیرو نواب یوسف عزیز مگسی کا نام لینا گوارا نہیں کیا بلکہ انہوں نے یہاں بھی بلوچ تاریخ کے اہم موڑ اور کارنامہ کے مرکزی کردار کی جگہ خالی چھوڑ دی اور مغالطوں کا ایک بار پھر دروازہ کھول دیا ۔ حالانکہ بلوچ و بلوچستان اور پورے خطے کی تاریخ میں یوسف عزیز مگسی جیسی کمسن اور کرشماتی شخصیت کی دوسری کوئی مثال نہیں ملتی کہ وہ 20 سال کی عمر میں بہ یک وقت ایک مدبر، مفکر، سیاستدان، ادیب، صحافی، شاعر اور قبائلی سردار کے طور پر ابھرے اور ایسے ایسے کار ہائے نمایاں انجام دے کر صرف 27 سال کی عمر میں 31 مئی 1935 کے کوئٹہ کے ہولناک زلزلے میں شہید ہو کر رہتی دنیا تک بلوچ تاریخ میں ایک نہ مٹنے والا نام اور مقام بنا کر خالق حقیقی سے جا ملے ۔
فقط یی نہیں ڈاکٹر صاحب نے مغالطوں کےلئے بلوچ تاریخ کے حوالے سے بہت سی اور جگہیں بھی پر کرنے کے لیے خالی چھوڑ دی ہیں مثال کے طور پر انہوں نے اسی مضمون میں ایک جگہ یہ لکھا ہے کہ " اسی طرح یہ معلومات بھی تازہ ترین ہیں کہ بلوچستان ساڑھے 3 کروڑ سال قبل ایک سرسبز اور گھنا جنگل تھا اس پورے Wet era کو ابھی حالیہ برسوں میں دریافت کیا گیا فرانسیسی ماہر فاسلز "ژاں لوپ ویلکم" نے اپنی ٹیم کے ساتھ بگٹی کے علاقے میں طویل کھدائی کی اور ان جنگلات میں " بلوچی تھیریم " نامی جانور فاسلز دریافت کئے " ۔
اب قارئین خود بین الاقوامی سطح کی اس خبر کی اہمیت سمجھ سکتے ہیں اور یہ خبر جنہوں نے میڈیا میں دی ان کا کردار اس حوالے سے کتنی اہمیت کا حامل ہے کہ ان کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب سمیت دنیا بھر کے کروڑوں افراد اس دریافت سے آگاہ ہوئے لیکن ڈاکٹر صاحب یہاں خبر دینے والوں کو بھی نظر انداز کر گئے ۔ میں قارئین کو بڑی عاجزی اور انکساری کے ساتھ آگاہ کرنا چاہتاہوں کہ ڈائنا سار کے بلوچی تھریم کی یہ خبر 2006 میں صرف میں نے ہی دی تھی جس کو پاکستان سمیت دنیا بھر کے میڈیا نے اس کی اہمیت کے پیش نظر خصوصی کوریج دی تھی اور یہ خبر مجھے اس وقت کے سیکرٹری لائیو اسٹاک بلوچستان اور علم و ادب دوست شخصیت ظفراللہ بلوچ صاحب نے دی تھی چونکہ یہ خبر انتہائی اہمیت کی حامل تھی تو اس خبر میں، میں نے اپنا اور اپنے سورس ظفراللہ بلوچ صاحب کا نام بھی دیا تھا کہ ہم بھی اس خبر کے حوالے سے تاریخی ریکارڈ کا حصہ بن جائیں میرے علاوہ یہ خبر کسی نے نہیں چلائی اس کی وجہ یہ ہے کہ فرانسیسی ٹیم خاموشی سے آئی اور خاموشی سے ہی چلی گئی تھی ۔ نہ تو ڈیرہ بگٹی کی انتظامیہ نے یہ خبر چلائی تھی اور نہ ہی محکمہ آثار قدیمہ وغیرہ نے، یہ اعزاز صرف اور صرف ظفراللہ بلوچ صاحب اور اس خاکسار کے حصے میں آیا مگر کیا کیجیئے کہ ڈاکٹر صاحب نے ہمارے نام کی جگہ بھی خالی چھوڑ دی بقول ان کے خالی جگہ کو شیطان بھرتا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب سے اس لیئے بھی شکوہ نہیں کہ جب انہوں نے بلوچستان کے عظیم محسنوں کے نام لکھنا گوارا نہیں کیا تو میں اور ظفراللہ بلوچ صاحب کس باغ کی مولی ہیں ۔
ڈاکٹر صاحب نے 17 ویں عیسوی صدی میں بھی ایک تعجب خیز حوالہ دے کر خالی جگہ چھوڑ دی ہے انہوں نے اسی مضمون میں ایک جگہ لکھا ہے کہ 1666 میں بلوچوں کے ایک قبیلے میں موت پر بھی ٹیکس عائد کر دیا گیا تھا اور وہ فی میت ایک چونی کی رقم وصول کرتے تھے ۔ ڈاکٹر صاحب نے یہاں پر بھی یہ بتانے کی زحمت گوارا نہیں کیا کہ وہ موت پر ٹیکس عائد کرنے والا کون سا قبیلہ تھا اور اس قبیلے کا سربراہ کون تھا؟ یہ جگہ بھی شیطان سے بھرنے کے لیے چھوڑ دی گئی ۔ البتہ ہم ڈاکٹر صاحب کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ایک بہادر اور محب وطن بلوچ حکمران اور والی قلات میر محراب خان کی انگروں کے مقابلے میں شہادت اور ان کے وزیر خزانہ دیوان بچل مل کی قربانیوں کا ذکر کیا ہے اگر وہ یہاں بھی نام لیے بغیر صرف یہ لکھتے کہ ایک بلوچ حکمران اپنے ہندو وزیر خزانہ سمیت انگریز سرکار سے وطن کے دفاع کےلئے لڑتے ہوئے شہید ہو گیا ، تو ہم کیا کر سکتے تھے سوائے اس کے کہ اس خالی جگہ کو بھرنے کے لیے اپنا دماغ کھپاتے رہتے کہ وہ کون لوگ تھے ۔ اس لیئے میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ وہ جب بلوچ تاریخ میں خالی جگہیں چھوڑنے اور مغالطے کے حوالے سے شکوے کر ہے ہیں اور پھر خود بھی وہی عمل دہرا رہے ہیں تو اس جو غلط فہمیاں اور مغالطے پیدا ہوتے رہیں گے تو ان کی ذمہ داری کس پر عائد کی جا سکے گی اور ایسی صورت میں عام قاری تو آنکھیں بند کر کے سب کچھ من و عن سچ تسلیم کر کے ان پر اندھا اعتماد بھی کرے گا مگر جو لوگ تاریخ سے دلچسپی اور کچھ واقفیت رکھتے ہیں ان کے ذہنوں میں بہت سے سوالات جنم لیں گے اور ان سے شکوک و شبہات بھی جنم لیں گے اس لیئے ڈاکٹر صاحب سے دستہ بستہ گزارش ہے کہ وہ خود بھی تاریخ میں خالی جگہیں چھوڑنا بند کر دیں تاکہ شکوک وشبہات اور غلط فہمیاں اور مغالطے پیدا نہ ہو سکیں ۔