اس کو مٹا جلدی مٹا سردار ہو انگریز ہو
جو قوت شیطان ہو جو ثانی چنگیز ہو
نواب یوسف عزیز مگسی
شاعر ، صحافی اور سیاستدان
31 مئی 1935: تاریخ وفات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلوچ شعوری و فکری سیاست کے امام یوسف عزیز مگسی
بلوچ تاریخ کے دیومالائی کردار یوسف عزیز مگسی 1908 میں مگسی قبیلے کے نواب قیصر خان کے گھر جھل مگسی میں پیدا ہوئے۔ ذہین، دور اندیش بظاہر لبرل قیصر خان نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا جدید انداز میں اہتمام کیا۔ یوسف عزیز کی والدہ سردار پسند خان زہری کی بیٹی تھی۔ پانچ سال کی عمر میں ابتدائی تعلیم کے لیے قاضی رسول بخش کی شاگردی میں بیٹھا۔ پھر مولانا غلام قادر نے اسے اردو، فارسی اور عربی پڑھائی۔ انگریزی تعلیم کے لیے لاہور سے استاد کنیہا لال منگوایا گیا۔ جس نے ڈیڑھ سال کے عرصے میں یوسف عزیز کو انگریزی زبان و ادب کی تعلیم دی۔
روشن خیال نواب قیصر خان کو 1922 میں نوابی سے معزول کر کے 1923 میں ملتان جلاوطن کر دیا گیا۔ بیٹا یوسف عزیز بھی اس کے ساتھ تھا۔ 1927 میں وہیں پہ قیصر خان کا انتقال ہوا۔ انگریز سامراج کے خلاف اس دور میں تحریک زوروں پر تھی۔ بقول ڈاکٹر شاہ محمد مری “ہلچل بھری اس عوام دوست اور سامراج دشمن فضا نے یوسف عزیز کے سیاسی و نظریاتی عقائد کی ساخت میں اہم کردار ادا کیا۔”
یوسف عزیز مگسی نے تلوار و بندوق کے بجائے قلم و کاغذ کو ہتھیار بنا کر اپنی مختصر زندگی میں ایک بہت بڑی تحریک کی بنیاد رکھی۔ اس نے اخبار کو مورچہ بنایا۔ اس کی اولین تحریر “فریادِ بلوچستان ” اور آخری “سیاست مقدم ہے یا اقتصادیات” ہے۔ اس کے علاوہ اس نے پیغامِ عمل، سوگند، بلوچستان کی بیداری اور سرمایہ داروں کی سراسیمگی، جیو اور جینے دو کے عنوان سے مضامین لکھے۔ ایک افسانہ “تکمیلِ انسانیت ” کے نام سے لکھا۔
فریادِ بلوچستان میں بلوچستان کی پسماندگی، محرومیوں اور عوامی غلامی کی کیفیتوں کو بیان کیا گیا تھا۔ یہ مضمون نومبر 1929 میں لاہور کے اخبار “مساوات ” میں شائع ہوا۔ اس تحریر سے حاکم اور سردار دونوں ناراض ہوئے۔ جون 1930 میں گرفتار کر کے 17 جولائی 1930 کو قلات میں جرگہ بلا کر اسے درستئ خیالات کے واسطے ایک سال نظر بندی کی سزا سنا دی۔ 1931 میں دس ہزار جرمانہ دے کر آزاد ہوا۔ اس کے بعد بلوچوں کے شعوری و فکری تنظیم “انجمن اتحادِ بلوچستان ” کا صدر بنا۔
انجمن کے تین بنیادی مطالبات تھے۔
1۔ ملک میں اصلاحات نافذ کرنا
2۔ روایتی بلوچ سرزمین کو متحد کرنا
3۔ ایک آزاد، خودمختار اور متحدہ بلوچستان قائم کرنا۔
یوسف عزیز مگسی نے میر عبدالعزیز کرد کے ساتھ مل کر ریاست قلات کے وزیراعظم شمس شاہ کی بدمعاشیوں کو بے نقاب کرنے کے لیے 20 نومبر 1931 کو “شمس گردی” کے نام سے ایک پمفلٹ شائع کیا۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری کے مطابق “پمفلٹ، پوسٹر، وال چاکنگ، پریس کانفرنس اور جلسہ عام جیسے سیاسی ذرائع نے بلوچستان کی سیاست کو جدید جمہوری شکل دینے میں اہم کردار ادا کیا۔”
ریاست قلات کے وزیراعظم نے یوسف عزیز مگسی کو ایک مرتبہ پھر گرفتار کرنے کا حکم دیا مگر وہ پہلے ہی جیکب آباد نکل چکا تھا۔ یہاں اس نے اپنے مگسی قبیلے کے ساتھ مل کر ایک تحریک شروع کی جس کے تحت مگسی قبیلے کے ہزاروں افراد نے شمس شاہی جبر کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنا علاقہ چھوڑ کر سندھ کی طرف ہجرت شروع کر دی۔ اس تحریک کو “مگسی ایجیٹیشن ” کا نام دیا گیا۔
یوسف عزیز مگسی نے بلوچ عوام کے حقوق کے لیے سیاسی و جمہوری انداز سے جدوجہد کی۔ تشہیری پروپیگنڈے کے لیے اخبارات کی سرپرستی کی۔ “البلوچ “، “ترجمانِ بلوچ ” اور “اتحادِ بلوچاں ” کو اپنے جیب سے چلایا۔ محمد حسین عنقا کی مدد سے “بلوچستان جدید ” نامی اخبار کا اجرا کیا۔ پنجاب سے نکلنے والے “زمیندار ” اور “انقلاب ” پر بھی کافی رقم خرچ کی۔
یوسف عزیز مگسی کو سرداری و نوابی سے سخت نفرت تھی۔ وہ سرقبیلوی نظام کو بلوچستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا تھا۔ یوسف عزیز مگسی نے اپنے رفقا میر عبدالعزیز کرد، محمد امین کھوسہ و دیگر کے ساتھ مل کر بلوچ قومی تحریک سے وابستہ معاملات پر بحث کرنے کے لیے ہندستان بھر کے بلوچوں کی ایک نمائندہ کانفرنس بلانے کا پروگرام بنایا۔
20 اکتوبر 1932 کو اعلان کیا گیا کہ “بلوچستان اینڈ آل انڈیا بلوچ کانفرنس” دسمبر 1932 میں جیکب آباد میں منعقد ہوگی۔ 27،28،29 دسمبر کو یہ کانفرنس بڑی دھوم دھام سے ہوئی۔ عبدالصمد خان اچکزئی سمیت ہر جگہ سے بلوچ نمائندے اس کانفرنس میں شریک ہوئے۔ جنھوں نے متفقہ طور پر بلوچستان میں اصلاحات اور آزاد حکومت کے قیام کا مطالبہ منظور کیا۔ اسی طرح کا دوسرا اجلاس 1933 کو حیدرآباد میں منعقد ہوا۔
مگسی قبیلے کی جدوجہد اور عوام کی حمایت سے 1933 میں گل محمد خان کو ہٹا کر یوسف عزیز مگسی کو مگسی قبیلے کا نواب بنا دیا گیا۔ موقع غنیمت جان کر یوسف عزیز نے اپنے قول کو عملی شکل دینے کے لیے اصلاحات نافذ کرنے کا فیصلہ کیا۔ جس کے مطابق:
1۔ زراعت کو ترقی دینے کے لے کیرتھر نہر بنوائی۔
2۔ کوٹ یوسف علی کے نام سے ایک نئے شہر کی بنیاد رکھی۔
3۔ عوام کے علاج کے لیے ڈسپنسری بنوائی۔
4۔ کوٹ یوسف علی مگسی اور پنجک میں پرائمری سکول بنائے۔
5۔ 15 اکتوبر 1933 کو جھل مگسی میں “جامعہ یوسفیہ” کی بنیاد ڈالی
6۔ ایک بڑا کام بلوچوں کے عمومی سیاسی و معاشی حالات میں انقلابی تبدیلیوں کے لیے کوشش تھی۔
ڈاکٹر شاہ محمد مری کے مطابق “یوسف عزیز مگسی انقلابی تھا، سوشلزم کا حامی تھا۔”
انگریز سامراج، وطن دوست یوسف عزیز مگسی کی عوامی جدوجہد سے سخت خائف تھا۔ اس نے یوسف عزیز کو مختلف طریقوں سے رام کرنے کی کوشش کی، جب تمام حربے ناکام ہوئے تو اسے وطن بدر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے دستِ راست میر عبدالعزیز کرد کو گرفتار کر کے شاہی جرگہ سبی کے ذریعے اسے تین سال کے لیے مچھ جیل بھیج دیا گیا۔ پھر 29 جنوری 1934 کو اس کے فکری و علمی ساتھی عبدالصمد خان اچکزئی بھی مچھ جیل کے مہمان بنے۔ یوسف عزیز کے احباب نے اسے مشورہ دیا کہ جیل جانے سے بہتر ہے کہ وہ کچھ عرصہ جلاوطن رہے۔ 1934 میں وہ جلاوطن کیا گیا۔
برطانیہ میں قیام کے دوران یوسف عزیز مگسی کا رابطہ وہاں کی کمیونسٹ پارٹی سے ہوا۔ اس کی لیڈی سیکریٹری برطانوی کمیونسٹ پارٹی کی رکن تھی۔ (میر یوسف عزیز مگسی از شاہ محمد مری صفحہ نمبر 73) ڈاکٹر شاہ محمد مری نے کیا خوب کہا ہے: “آزادیوں سے محبت کرنے والے لوگ غیبی انداز میں کمیونزم کی طرف آ ہی جاتے ہیں!!”
انسانی آزادیوں کے علمبردار یوسف عزیز مگسی کے نزدیک “حصولِ آزادی بلوچ خواتین کی شمولیت کے بغیر ناممکن ہے۔” اپنے دوست محمد امین کھوسہ کو ایک خط میں لکھتے ہیں؛ “ایک دن آئے گا جب بلوچوں کو مظلوم لڑکیوں کے حقوق دینے ہوں گے۔” برطانیہ میں قیام کے دوران یوسف عزیز مگسی کا ذہنی میلان سوشلزم کی طرف گامزن رہا۔ اس نے اپنے قریبی دوست امین کھوسہ کو کارل مارکس کی تصانیف اور انقلابِ روس کی تاریخ کو پڑھنے کا مشورہ دیا اور لکھا کہ “کارل مارکس کی تصنیف کیپیٹل اور دنیا کے دس ہلاکت آفریں دن کو ضرور پڑھیں۔”
یوسف عزیز مگسی کی کوشش تھی کہ بلوچستان کے اندر کوئٹہ،جھل، سبی، نوشکی اور مستونگ میں کسانوں اور مزدوروں کی ایک یونین بن جائے تاکہ مزدور و کسان، سرمایہ دار و جاگیردار سے اپنے حقوق حاصل کر سکیں۔ وہ خود کو بلوچستان کی مکمل آزادی اور سوشلسٹ نظام کے لیے وقف کر چکا تھا۔
لندن میں ایک سال تک جلاوطن رہنے کے بعد یوسف عزیز مگسی 31 جنوری 1935 کو واپس آیا۔ سکھر، ڈھاڈر اور دیگر جگہوں میں رہنے کے بعد کوئٹہ کے ڈاک بنگلے میں رہائش اختیار کی۔ 30 اور 31 مئی 1935 کے تباہ کن زلزلے میں بلوچ سیاسی، شعوری اور فکری سیاست کا یہ سرخیل وفات پاگیا۔ بڑے کام کرنے والے اس عظیم انسان نے مختصر عمر پائی۔ محض 27 سال
“بلوچستان صدموں سے گزرنے والا پی ایچ ڈی خطہ ہے۔ مگر کچھ صدمات ایسے ہوتے ہیں جن کے لیے خود آسمان روتا ہے۔ اس زلزلے کی تباہیاں تاریخ میں کبھی فراموش نہ ہوں گی۔ اور یوسف عزیز کی موت تو پوری تحریک کا سکتہ تھی۔ یوسف عزیز مگسی کی صورت میں ایک مردِ قلندر مر گیا۔”
بلوچ اور بلوچستان کا یہ عظیم خیر خواہ کوئٹہ کے کاسی قبرستان میں دفن ہے۔
یوسفی خیال:
“اگر مرگئے تو معراجِ زندگی اور زندہ رہے تو کام کریں گے، ہم کسی طرح بھی خسارے میں نہیں، ہاں خسارے کی صرف ایک صورت ہے کہ نہ مریں اور نہ کام کریں۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منقول
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...