حساس دل کی مالک حساس شعروں کی خوبصورت شاعرہ رابعہ بگٹی بلوچستان کے نوجوان شعراء میں اگرچہ نئی مگر خوبصورت اضافہ ہیں۔ رابعہ بگٹی 14 نومبر 1989 کو کوئٹہ میں پیدا ہوئیں ۔ بلوچستان اور بلوچ معاشرے میں کسی عورت یا لڑکی کی شاعری کرنے یا شاعرہ بننے کا تصور ہی لرزہ دیتا ہے یعنی عام طور پر اس معاشرے میں کسی خاتون یا لڑکی کا شاعری کرنا خودکشی کرنا یا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔ بگٹی، مری اور زہری قبائل میں تو ایسا سوچنا بھی جرم کے مترادف ہے ۔ ایسے ہی بلوچ معاشرے میں رابعہ بگٹی کا شاعری کرنا حیران کن ہے اور محفوظ و سلامت رہنا اور بھی حیران کر دیتا ہے اللہ تبارک و تعالی ان کو اپنی امان میں رکھے ۔
وہ آج کل کراچی میں رہائش پذیر ہیں، آپ نے ابتدائی تعلیم کوئٹہ بلوچستان سے حاصل کی اور اب آئی بی اے کراچی سے ایم ایس سی جرنلزم کر رہی ہیں۔ شاعری سے لگاو آپ کو بچپن سے ہی تھا اور اردو بلاگز بھی لکھتی رہتی ہیں، مجموعہ کلام ابھی تک کوئی شائع نہیں ہوا، البتہ ارادہ رکھتی ہیں مستقبل میں۔ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭘﺴﻨﺪﯾﺪﮦ ﻣﺸﺎﻏﻞ میں کتابیں پڑھنا ہے ۔ گوکہ رابعہ صاحبہ کے خیالات بہت اچھے ہیں مگر شاعری میں ان کو کسی استاد کی رہنمائی کی ضرورت ہے جس سے اس کی شاعری میں پختگی آئے گی
آئیے ان کے خوبصورت کلام سے کچھ انتخاب
_______________
آزاد غزل
میرے ٹوٹے ہوئے خوابوں کی صدائیں بولتی ہیں
ابھی تو بے جان کلیاں بوسیدہ مہک رولتی ہیں
ابھی تو امید کی فاختہ بھی بے گھر ہو کر
کسی ویرانے کا رخ کرنے کو پر تولتی ہے
ابھی تو زنگ آلود ہے میرے باطن کا جہاں
اب گفتار میں بھی وہ پہلے سی لذت ہے کہاں
ابھی بے نور سی پھرتی ہے کوئی رات جواں
ابھی دہلیز پر منتظر ہے کوئی ربط رواں
ابھی تو اشکوں کی جھڑی کا ہے برساتی سماں
ابھی تو زندانوں میں مقید ہیں میرے سارے جنوں
ابھی تو محبت کی چتا،۔نینوں میں سیاہی گھولتی ہے
ابھی تو سرابوں کے دریا میں میرے یقین کی آس
کسی ٹوٹی ہوئی نییا کی طرح ڈولتی ہے
ابھی تو دست بھی پھیلے ہوئے سائل سے میرے
ابھی اپنوں کے توسط سے ہے چاک گریباں
ابھی تو دل ہے کہ سننے کو بھی قائل نہ ہو
ابھی تو عشق بھی ساقی کے خالی جام نماں
رابعہ بگٹی
________________
آج آسودہ سی شام میں میں نے
ماضی کےجھروکےسےجھانک کر دیکھا
چند خواب پرانے ، چند ٹوٹے کھلونے
گونجتی کلکاریاں میں اشکوں کی میگھا
کچھ گڈمڈ سی ، کچھ مٹی ہوئی
عمر کی ہتھیلی پہ قسمت کی ریکھا
کچھ سرد پڑے جذبات بھی تھے
ناکردہ سے حالات بھی تھے
میں نے مٹھی بھر کر گرد اڑا دی
جیسے گورکن پر ہو لاشوں کا ٹھیکہ
رابعہ بگٹی
________________
نظم
جاؤ
تمہیں جانے دیا
تمام وعدوں سے آزاد کیا
جاؤ ۔۔
تمہیں جانے دیا
اپنے دل کے دامن سے تمہارے پہلو کی گراہ کھول کر
اپنی محبت کو خزاں کے پتوں کی طرح رول کر
اپنے عشق کی تلخی کو تیرے مستقبل کے سپنوں کی چاشنی میں گھول کر
جاؤ
تمہیں جانے دیا
سنو، ان بوسیدہ جذبوں کو یہیں رہنے دو
کمبخت دل تو کہتا ہی رہتا ہے، اسے کہنے دو
رخت سفر باندھ لو کہ کہیں دیر نہ ہوجاۓ
پیچھے مڑ کر نہ دیکھو کہیں من زیر نہ ہوجاۓ
________________
نظم
میں عشق پر لکھنے والا شاعر ہوں
مجھے انقلاب کی شاعری کہاں آتی ہے؟
پر
یہ تاریکی اب میرا دل جلاتی ہے
یہاں وحشت کسی معصوم کی عصمت گراتی ہے
یہاں مذہب ہولی کلمے کی کھلاتی ہے
اس عرض پاک کے ہر کوچے سے لہو کی بو آتی ہے
یہاں تہذیب نفرت کے گل کھلاتی ہے
تمہارے جھنڈے کی پونی سی سفیدی
تمہارے منہ پر کالک سی نظر آتی ہے
نظم
مجھ سے تاخیر ہو گئ زرا سی
بات کو سمجھنے میں
وقت کی نزاکت کو
حیات کی ضرورت کو
جابجا جو ٹوکا ہے
میری معصوم قدروں کو
گرچہ مجھے تو لگتا تھا
راہ میں جو تھم جاۓ
ایسی زیست کیا کرنی
دھولُ جس پہ پڑ جاۓ
ایسا اخلاص کیا کرنا
دھند جن پہ پڑ جاۓ
ایسے رفیق کیوں ہوں پھر
آج میں نے جانا ہے ..
زخم اپنے رس جائیں
تو تجھ سے کیا گلہ جاناں
ہاں مجھ ہی سے تاخیر ہو گئ
بات کو سمجھنے میں ..
رابعہ بگٹی
________________
وہ پھلجھڑی سے جل جانے والی لڑکی اپنا آپ جلا بیٹھی تھی
پتھر سے صنم کے دیس میں رہ کر کانچ کے خواب سجا بیٹھی تھی
گویا خار کی سیج سجا کر گلوں کی آس لگا بیٹھی تھی
نیند، خواب، آنکھیں اور کاجل، سب کچھ گنوا بیٹھی تھی