آج کراچی تقریباً تین کروڑ آبادی کا بین الاقوامی شہر ھے جس میں مختلف قوم و زبان کے باشندے آباد ھے اور ھر دوسرا کراچی کے مالک ھونے کا دعویٰ کرتا رہتا ہے لیکن تاریخ کے گمشدہ اوراق بلوچ قوم کو کراچی کا اصل وارث ثابت کرتے ہے۔
کراچی کی بنیاد 1729ء میں لیاری ندی کے جنوبی کنارے سے ھوا اس وقت یہاں تقریباً 25 کے قریب جھونپڑیاں تھی جس میں بلوچ ماہی گیر خاندان آباد تھے جو مکران کے علاقے کلانج سے آئے تھے اس وقت کراچی بھی مکران کا ہی حصہ تھا، تاریخ اس وقت بہادری و بھائی چارگی کا ایسا واقعہ دیکھتی ھے جس کی وجہ سے ایک غیر آباد علاقہ سب کی نظروں میں آ جاتا ہے اور بلوچ تاریخ کا یہ داستان ہر بلوچ کی زبان میں آج بھی زدعام ہے، واقعہ کچھ یو ہے کہ مائی کلاچی کے سات بیٹے تھے جن میں سے ایک پاؤں سے معذور تھا باقی چھ بھائی کشتی میں بیٹھ کر بیج سمندر (ہاکس بے) مچھلی کے شکار کے لئے جاتے معذور بھائی ہمیشہ کہتا مجھے بھی ساتھ لے چلو لیکن بھائی معذوری کی وجہ نہیں لے جاتے، اک دن سارے کشتیاں واپس لوٹ رہی تھی لیکن مائی کلاچی کے بیٹے واپس نہیں آئے دوسرے ماہی گیروں سے پوچھا تو معلوم ھوا اچانک کوئی شارک مچھلی نے کشتی الٹ دی تھی اور سب بھائیوں کو نگل لیا اسی وقت معذور بھائی نے نیزا لے کر کشتی میں بیج سمندر شارک کو ڈھونڈنے نکلا جب شارک سے سامنا ھوا تو اللّٰہ پاک نے اک معذور سے وہ کام کروایا جس کو سن کر آج بھی بحری دنیا کے لوگ سر پکڑ لیتے ھے معذور نے شارک کو مار کر کنارے تک لے آیا اور پیٹ چاک کر کے اپنے بھائیوں کے جسدِ خاکی نکال کر عزت سے دفنایا آج بھی گلبائی (ماڑی پور) میں ان کی قبرے موجود ہے٫ جب یہ داستان پھیلتا گیا تو ھر کوئی پوچھتا کہاں ھوا یہ سب کہتے مائی کلاچی کے گوٹھ میں دور دور سے لوگ آنے لگے اس طرح اس علاقہ کا نام مائی کلاچی گوٹھ پڑ گیا جو بعد میں صرف کلاچی اور انگریزوں کے دور میں کراچی کے نام سے مشہور ھوگیا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ بلوچستان سے دیگر بلوچ قوم کی کراچی آمد تین ادوار پر مشتمل ہے، پہلا 1729ء جو اوپر ذکر ھوچکا ھے
دوسرا 1770ء جب خان قلات نے یہاں تجارت اور ساحل کی حفاظت کے لئے بندرگاہ (منوڑا) بنایا جب بندرگاہ سے تجارت کا آغاز ھوا اور کراچی میں کاروباری فضا کو دیکھتے ھوئے مختلف ممالک کے بیوپاری بڑی تعداد میں خاص کر ایرانی پارسی اور ہندوستانی تاجر جن میں گجراتی( کچھی۔ میمن۔ گھانچی) وغیرہ سر فہرست ھے کراچی آکر آباد ھونا شروع ھوئے،
خان قلات نے کراچی کی ترقی اور یہاں کا کاروبار دیکھتے ہوئے اک حاکم مقرر کیا جس کا تعلق کلمتی قبیلے سے تھا جو تاجروں سے ٹیکس لیتا تھا، خان قلات کے افواج میں کلمتی، گبول، جدگال اور بروہی قبیلہ کراچی کی حفاظت پر مامور تھا،
اس زمانے میں سندھ پر نور محمد کلہوڑو کی حکومت تھی سمندر پیچھے ہٹنے سے شاہ بندرگاہ (ٹھٹھہ) بند ہوا تو ان کے حکم سے جوکھیو (سندھی جنگجو قبیلہ) کے سردار جام دریا خان جوکھیہ نے کراچی پر حملہ کردیا، کلمتی بلوچ اور جوکھیو میں 18 جنگیں ھوئی آج بھی منگھوپیر، جنگ شائی اور نیشنل ھائی وے پر جتنی پرانی قبریں ملے گی وہ کلمتی بلوچ اور جوکھیو کی ہے،
سندھ کی حکومت کلہوڑو کے ھاتھوں سے نکل کر سندھ میں آباد بلوچ قبیلے تالپور کے پاس آگئی، میر فتح علی تالپور نے اپنے تین بھائیوں سمیت سندھ پر حکومت کی اور خان قلات سے صلح کرلی،
خان قلات کے بیٹے اور میر تالپور کی بیٹی کی آپس میں شادی ہوگئی خان قلات نے کراچی اپنے بیٹے کو تحفے میں دیدیا جس کے نتیجے1797ء میں کراچی سندھ میں شامل ھوا،
تیسرا دور 1839 جب انگریزوں نے منوڑا کے بندرگاہ پر جدید بھاری توپ خانوں سے حملہ کیا تو میر تالپور کے بلوچ سپاہیوں نے جوان مردی سے مقابلہ کیا جب تک آخری بلوچ زندہ رہا آخر تک مقابلہ کرتا رھا بلآخر 1843ء تک پورا سندھ انگریز کے قبضہ میں چلا گیا اور چارلس نیپیئر کو سندھ کا پہلا گورنر مقرر کردیا
جس نے کراچی کو اپنا صدر مقام بنایا اس وقت کراچی کی آبادی 14ہزار تھی
انگریزوں نے آمد کے بعد کراچی کو ایک منصوبہ بندی کے تحت ترقی دی اور برطانیہ کے فوجی سازو سامان کی ترسیل کراچی کی بندرگاہ سے ہونے لگی، ان دنوں مکران سے بڑی تعداد میں بلوچ کراچی آکر آباد ہوئے اس کی وجہ مکران میں قحط سالی اور شاھ ایران کے سپاہیوں کے مظالم تھے بلوچ کشتیوں اور خشکی کے راستے کراچی آئے اور یہاں ماہی گیری، کشتی سازی، کھیتی باڑی اور مزدوری کے پیشے اپنائے،
1928ء میں ایران نے مغربی بلوچستان پر قبضہ کرلیا تو وھاں سے بھی کچھ بلوچ کراچی آکر آباد ہوئے،کراچی میں آباد ہونے کے ساتھ زمین داری اور مال مویشی کی تجارت کا پیشہ اپنایا انڈیا پاکستان کی تقسیم سے قبل بلوچ کراچی کی تقریباً 75فیصد زمینوں کے مالک تھے، لال محمد بلوچ کے نام سے منسوب لال کھیت،
خدا داد کالونی جہاں قائد اعظم کا مزار ہے وہ بھی خداداد( یعنی خدا نے دیا) نامی بلوچ کی زمین تھی,
نئے ایئرپورٹ کی زمین گبول بلوچ کی ملکیت تھی، ملیر ،گڈاپ شرافی گوٹھ، ابراھیم حیدری، لیاری ہاکس بے، نادرن بائی پاس آج بھی کراچی کے نقشے پر نظر ڈالے تو کراچی کے
چاروں طرف قدیم بلوچ کی آبادی ھے