قیام پاکستان کے بعد فلم انڈسٹری کو پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے جن چہروں نے اپنا حصہ بخشا ان معروف چہروں میں ایک معتبر نام صبیحہ خانم کا بھی ہے جن کی لازوال اداکاری نے گرتی پڑتی فلم انڈسٹری کو سہارا دیا ۔تفریح فراہم کی۔بہت ہی مشکل دور تھا جب ایسے لیجنڈز نے فلم انڈسٹری اور موسیقی کے لیے کام کیا ۔ محبت۔وفا کی خوبصورت داستان کا پس منظر رکھنے والی یہ٫٫ دیوی٬٬ صبیحہ خانم کا اصل نام مختار بیگم تھا اور وہ 16 اکتوبر 1935 ء کو گجرات میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد کا نام محمد علی ماہیا تھا. نامور محقق عقیل عباس جعفری کے مطابق 1948ء میں سیالکوٹ میں ایک ثقافتی وفد نے ایک سینما کا دورہ کیا۔ اس وفد میں مختار بیگم بھی شامل تھیں۔ انہوں نے وہاں ایک پنجابی گیت گایا ’’کتھے گیا پردیسیا وے‘‘ یہ فلم ’’سسی پنوں ‘‘کا گیت تھا۔ ان کی اس کارکردگی کو خاصی پذیرائی ملی۔ جلد ہی محمد علی ماہیا نے اپنی بیٹی کا تعارف اس وقت کے معروف سٹیج ڈرامہ رائٹراور شاعر نفیس خلیلی سے کرایا جنھوں نے انہیں ایک ڈرامے ’’بت شکن‘‘ میں ایک کردار کی پیشکش کی۔ یہ نفیس خلیلی ہی تھے جنہوں نے مختار بیگم کا نام صبیحہ خانم رکھا۔ نفیس خلیلی کی درخواست پر مسعود پرویز نے انہیں اپنی فلم ’’بیلی‘‘ میں کاسٹ کرلیا اور یوں ’’بیلی‘‘ صبیحہ خانم کی پہلی فلم ثابت ہوئی جو 1948ء میں ریلیز ہوئی۔ ’’بیلی‘‘ مسعود پرویز کی بطور ہدایتکار پہلی فلم تھی‘ اس کی کاسٹ میں سنتوش کمار، صبیحہ خانم اور شاہینہ شامل تھیں۔ اس کے بعد صبیحہ نے انور کمال پاشا کی سلور جوبلی فلم دو آنسو میں نوری کا کردار ادا کیا۔ پھر اگلی فلم ’’آغوش‘‘ میں بھی انہوں نے لاجواب اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ اس فلم کی ہدایات مرتضیٰ جیلانی نے دیں اور فلم کی کاسٹ میں صبیحہ ، سنتوش اور گلشن آراء شامل تھے۔ 1953ء میں انور کمال پاشا کی فلم غلام میں بھی ان کی اداکاری نے سب کو چونکا کے رکھ دیا۔ اس کے بعد جس فلم میں صبیحہ خانم کی اداکاری کا نوٹس لیا گیا اس کا نام گم نام تھا۔ اس فلم کی ہدایات بھی انور کمال پاشا نے دی تھیں اوراس کی کاسٹ میں سیما، سدھیر اور صبیحہ خانم شامل تھے۔ ’’دلا بھٹی‘‘ میں بھی ان کا کردار ناقابل فراموش تھا بلکہ اس کردار کو ان کا امر کردار کہا جاتا ہے۔ صبیحہ خانم کو اپنے زمانے کے تمام مشہور اداکاراؤں کے مقابل کاسٹ کیا گیا لیکن سنتوش کمار کے ساتھ ان کی فلموں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کی معروف فلموں میں وعدہ، پاسبان، شیخ چلی، سات لاکھ، گمنام، دیوانہ، آس پاس، سسی، سوہنی، چھوٹی بیگم، داتا، حاتم، آج کل، مکھڑا، عشق لیلیٰ، دل میں تو، ایاز، محفل، پرواز، طوفان، موسیقار، سرفروش اور دیگر کئی فلمیں شامل ہیں۔ صبیحہ خانم نے متعدد فلموں میں کیریکٹر ایکٹرس کی حیثیت سے بھی انمٹ نقوش ثبت کیے جن میں کنیز، دیور بھابی، پاک دامن، انجمن، محبت، تہذیب، اک گناہ اور سہی سر فہرست ہیں۔ صبیحہ خانم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پاکستانی سلور سکرین کی پہلی خاتون تھیں جنہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی ملا۔ یہ اعزاز انھیں 14 اگست 1986ء کو عطا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ انہیں بہترین اداکارہ کی حیثیت سے کئی ایوارڈ ملے۔ صبیحہ خانم نے جو ایوارڈ حاصل کیے ان کی تفصیل ذیل میں بیان کی جا رہی ہے۔ سات لاکھ، شکوہ اور دیوربھابی میں بہترین اداکارہ، اک گناہ اور سہی میں سپیشل ایوارڈ اورسنگدل میں بہترین معاون اداکارہ کے ایوارڈ شامل تھے۔ صبیحہ خانم نے اپنے دور کے مشہوراداکار سنتوش کمار سے شادی کی تھی۔ جن کی برسی گزشتہ روز منائی گئی تھی" صبیحہ خانم ایک عرصہ سے امریکہ میں اپنے بیٹے اور بیٹی کے ساتھ مقیم تھیں۔کبھی کبھار پاکستان آتیں یہاں کچھ عرصہ قیام کے بعد واپس چلی جاتیں۔ صبیحہ خانم والدین بارے معروف صحافی یاسین گوریجہ لکھتے ہیں۔ ٫٫”بالو کا اصلی نام اقبال بیگم تھا۔ وہ گجرات کے ایک وکیل کی بیٹی تھی جسے ایک تانگے والا اغوا کر کے لے گیا تھا یا وہ خود اس تانگے والے کے ساتھ فرار ہو کر کلکتہ پہنچ گئی تھی۔ ان دنوں وہ اسٹیج پر کام کر رہی تھیں۔ تانگے والے کا نام محمد علی عرف ماہیا تھا۔ ریہرسل میں بالو کو ہیروئن کے طور پر لیا گیا۔ اس کے ساتھ بی این بالی، حیدر باندی، بے بی نور جہاں، حسن دین وغیرہ نے کام کیا۔ اس فلم کی شوٹنگ کے دوران پنجاب کے وزیراعلیٰ سکندر حیات خان بھی سیٹ پر آئے۔ انہوں نے، کے ڈی مہرہ کی کوشش کو سراہا۔ ”ہیر سیال“ نے زبردست کامیابی حاصل کی۔ پنجاب میں ۱۹۳۶ءمیں یہ فلم ریلیز ہوئی اور ہر جگہ اس نے سلور جوبلی منائی۔“ یہاں واضح کرتا چلوں یاسین گوریجہ صاحب نے جن معروف اداکاراوں بے بی نورجہان ۔حیدر باندی کا تذکرہ کیا ہے ان دونوں کا تعلق سرائیکی وسیب سے ہے۔بے بی نورجہان کا تعلق ہمارے ہی ضلع لیہ کے شہر لیہ سے تھا ۔نسیم لیہ اپنے مضمون ٫٫لیہ موسیقی کا گوالیار٬٬میں لکھتے ہیں٫٫لیہ سےتعلق رکھنے والی بی بی نورجہان جب کلکتہ فلم انڈسٹری پہنچی تو ان کی آواز اور اداکار ی کی دھوم مچ گئی ۔بے بی نورجہان کو کلکتہ والی کا لقب بھی دیا گیا ۔اس وقت قصور کی اللہ وسائی جب کلکتہ پہنچی تو بے بی نورجہان کی شہرت کی مناسبت سے اللہ وسائی کا نام نورجہان رکھا گیا٬٬ دوسرا نام حیدر باندی کا لکھا گیا ہے ان کا تعلق ملتان کے گائیک خاندان سے تھا اور کافی گانے کے حوالے سے شہرت رکھتی تھیں تھا ثریا اس حوالے سے خرم بہاولپوری رح نے بھی ان کےحسن کی تعریف اپنی کافی میں کی ہے۔ ٫٫ڈیکھ مکھڑا حیدر باندی دا٬٬ صبیحہ خانم کے والد اور والدہ کے عشق کو شاعری کی صنف ٫٫ماہیا٬٫کی ایجاد کا سبب بھی کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر احمد حسین قلعداری لکھتے ہیں ٫٫ماہیا لوک گیت عاشق اور معشوق کے مکالمے کے طور پر گایا جاتا ہے۔یہ گجرات کے مشہور عاشق اور معشوق ٫٫ماہیا اور بالو٬٬کی ایجاد ہے.٬٬ فیاض احمد اشعر اپنی کتاب٫٫ابتدائ پنجابی فلمی گیت٬٬میں اسی حوالے سے لکھا ہے کہ ٫٫سوہنی مہینوال کے بعد پچھلی صدی میں گجرات کا ایک اور رومان بھی پورے برصغیر میں مشہور ہوا۔ یہ تھا بالو اور ماہیا کا۔ اقبال بیگم عرف بالو 1910 میں گجرات کے ایک معروف وکیلوں کے خاندان میں پیدا ہوئی۔ روزانہ تانگے پر سکول جاتی تھی۔ ایک دن تانگے والا بیمار ہوا تو اپنے بیٹے کو بھیج دیا۔ چند ماہ کے اندر وہ ایک دوسرے کو دل دے بیٹھے۔ انہیں پتہ تھا کہ سماجی فرق انہیں ایک نہیں ہونے دے گا۔ سو بالو جو کچھ گھر سے لے سکتی تھی لے کر محمد علی تانگے والے کے ساتھ بھاگ گئی۔ ہر طرف سے ”وکیلاں دی کڑی نس گئی”سن سن کر گھر والوں نے بالو کا پیچھا کرنا ترک کردیا۔ محمد علی اور بالو دونوں بہت سریلے تھے۔ جہاں کہیں کوئی میلہ ہوتا وہ پہنچ جاتے اور گاتے۔ انہین سننے کیلئے ایک ہجوم جمع ہوجاتا۔ ان کے ماہئیے اور دوگانے بہت مشہور ہوئے اور محمد علی اب ماہیا کہلانے لگا۔ ان کے عشق کی داستان اتنی مشہور ہوئی کہ لوگوں نے اسے بڑھا چڑھا کر جھوٹے سچے قصے منظوم کرکے کتابچے بیچنے شروع کردیے۔ ان کی شہرت کا فائدہ اٹھانے کیلئے 1938 میں فلم کمپنی اندرا مووی ٹون کلکتہ نے بالو کو اپنی پنجابی فلم ’’ہیر سیال‘‘ میں ہیروئن کا کردار دے دیا ۔اس نے محنت اور شوق سے کام کیا اور فلم کامیاب ہوئی۔ اس کے بعد اسی ادارے نے 1939 میں اسے ’’سسی پنوں‘‘ میں سسی کا کردار دے دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں فلموں میں بالو کے بچپن کا رول (ملکۂ ترنم) نور جہاں نے کیا ۔ اس دوران ماہیا سہل پسندی اور عیش وعشرت سے ناکارہ ہوکر رہ گیا۔ محبت میں مجبور بالو اس کے اخراجات پورے کرنے کیلئے سب کچھ کرتی رہی۔ ان کی محبت کی داستان اتنی مشہور ہوئی کہ اس پر انڈیا میں ایک پنجابی فلم بھی بنائی گئی۔ یہ فلم ’’ بالو‘‘ 1951 میں ریلیز ہوئی۔ ماہیا کا کردار ارجن اور بالو کا کمل نے کیا۔ اس فلم میں ساحر لدھیانوی نے پہلی بار پنجابی گیت لکھے۔ اس سے پہلے1947 میں بھی ان کے عشق پر فلم ’’ماہیا‘‘ شروع ہوئی لیکن فسادات کے باعث مکمل نہ ہوسکی۔ یہ موسیقار نثار بزمی کی واحد پنجابی فلم تھی۔ اقبال بیگم نے کئی فلموں کیلئے گیت گائے۔ آخری فلم خواجہ خورشید انور کی ’’کڑمائی‘‘ تھی۔ اقبال بیگم کا 1945 میں ٹی بی کی بیماری سے انتقال ہوا۔ بالو اور ماہیا کی نشانی ان کی بیٹی صبیحہ خانم ہے، جنہوں نے فلمی صنعت میں بہت عزت پائی۔ شروع میں وہ اپنا نام صبیحہ ایم اے لکھتی رہیں (حالانکہ میٹرک بھی نہیں ہیں) یہ ایم اے والد کے نام محمد علی کا مخفف تھا. بالو اور ماہیا کے ٹپوں، ماہیوں کی طرز پر اور لوگ بھی ماہیے لکھتے آرہے ہیں اور انہی کے ناموں کے ساتھ. امبی دا بوٹا اے تیرے بنا وے ماہیا۔۔ ساڈا جیونا جھوٹھا اے باغے وچ بکری آ سچ دس جان والیا ۔۔۔ کِتے بالو وی ٹکری آ پانی بنی اتوں لئی جاندا اک غم بالو دا ۔۔۔ دنیا توں لئی جاندا چٹا رنگ اے پتاسے دا اج کوئی نہیں ملدا ۔۔۔ بالو تیرے پاسے دا دو چھمکاں بوڑھ دیاں چھڈ کے نہ جایئں بالو ۔۔ سانہوں آساں توڑ دیاں سونے دے نی کِل بالو ذاتاں نے تے نہیں ملنا ۔۔۔ مِل جاندے نی دل بالو سڑکے اتے فیتا ای سچ دس نی بالو ۔۔ کدی یاد وی کیتا ای کھکھڑی دی پھاڑی آ آپ چن سوکھا پھرے ۔۔ جند بالو دی ساڑی آ گز ٹُٹ گیا درزی دا نہ سانوں گھر ملیا ۔۔ نہ ماہیا مرضی دا ملنے دا راہ کوئی نہ ملنا ای تے مل ماہیا ۔۔ ایس جند دا وساہ کوئی نہ۔ بالو اور ماہیا کی یادگار صبیحہ خانم ہفتہ کے روز امریکہ کی ریاست ورجینیا میں اپنی بیٹی کے گھر دارفانی سے کوچ کر گئ ہیں۔پاکستان کے لیے امریکہ میں مس یونیورس کا ٹائٹل حاصل کرنے والی سحرش خان جو کہ صبیحہ خانم کی نواسی ہیں نے بتایا ہے کہ صبیحہ خانم بلڈ پریشر ۔شوگر اور گردوں کے عارضہ میں مبتلا تھیں۔ صبیحہ خانم صاحبہ خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھیں۔سید موسی رضا شاہ المعروف سنتوش کمار کے ساتھ ان کی جوڑج کو بے مثال جوڑی قرار دیا جاتا تھا۔ دلا بھٹی فلم کی شہرت کے بعد اس جوڑی کو فلم کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا۔ نامور اداکار معین اختر کے اصرادپر صبیحہ خانم نے 80اور 90کی دہائ میں ٹی وی سیریل ٫٫دشت٬٬میں بھی پرفارم کیا۔ موسیقی کے میدان میں بھی قدم رکھا اور پی ٹی وی پر ان مکے گائے ہوئےملی نغموں٫٫جگ جگ جیوے میرا پیارا وطن٬٬اور ٫٫سوہنی دھرتی اللہ رکھے٬٬نے بھی بے حد عوامی پزیرائی حاصل کی۔ فریدیات کے حوالے سے نامور محقق مجاہد جتوئی کے مطابق صبیحہ خانم کا ایک معاشقہ سرائیکی وسیب کے شہر چاچڑاں شریف میں بھی موجود ہے۔ ان کے مطابق حضرت خواجہ غلام فرید رح کے نواسے کے بیٹے خواجہ فیض فرید صبیحہ خانم پہ فریفتہ ہو گئے تھے ۔صبیحہ خام ان کی دعوت پر چاچڑاں شریف تشریف لائ تھیں۔کہا جاتا ہے خواجہ فیض فرید نے صبیحہ خانم کا فقید المثال استقبال کیا اور سونے سے جڑے جوتے پیش کیے۔اور چاچڑاں میں ان کی یاد میں ٹاکی سینما بھی بنوایا تھا۔