حال ہی میں کراچی سمیت سندھ کے کچھ شہروں میں بلدیاتی انتخابات ہوئے۔ ایم کیو ایم نے ان انتخابات کا بائیکاٹکیا۔ ایم کیو ایم کا کہنا تھا کہ ڈی لمیٹیشن صحیح نہیں ہوئی ہیں اور بلدیاتی اداروں کو مطلوبہ اختیارات حاصل نہیں ہیںاس لیے انتخابات میں حصہ لینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ بات صرف ایم کیو ایم ہی نہیں کہ رہی بلکہ ملک کے مختلفحلقوں کی طرف سے بلدیاتی اداروں کے اختیارات کے حوالے سے آوازیں اُٹھتی رہتی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہایسا کس وجہ سے ہے؟ قارئین اس کے لیے ہمیں آئینِ پاکستان کا مطالعہ کرنا پڑے گا کہ اس میں بلدیاتی اداروں کےبارے میں کیا لکھا ہے۔ اس حوالے سے ہم دیکھیں تو آئین کے آرٹیکل A-140 میں لوکل گورنمنٹ کے بارے میںبیان کیا گیا ہے۔ تو آرٹیکل 140-A کہتا ہے؛
“ ہر صوبہ، بذریعہ قانون، ایک مقامی حکومت کا نظام قائم کرے گا اور سیاسی، انتظامی اور مالی ذمہ داری اور اختیاراتمقامی حکومتوں کے منتخب نمائندے کو دے گا۔”
اس کے علاوہ اس آرٹیکل کے دوسرے حصے میں کہا گیا ہے کہ لوکل گورنمنٹ کے انتخابات الیکشن کمیشن آف پاکستانکے زیرِ انتظام ہوں گے۔
اکثر ماہرین کے مطابق آئینِ پاکستان بلدیاتی اداروں کی ذمّہ داریوں اور اختیارات کے بارے میں کوئی رہنمائی فراہمنہیں کرتا اس وجہ سے پاکستان کا ہر صوبہ اس آرٹیکل کی اپنی مرضی کی تشریح کرتا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو اسحوالے سے شدید تحفّظات ہیں۔ اسی طرح آئین میں بلدیاتی اداروں کی مُدّت کے حوالے سے بھی کوئی رہنمائی موجودنہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اوّل تو کوئی صوبہ بلدیاتی انتخابات کرواتا نہیں ہے لیکن اگر کرواتا بھی ہے تو ہائیکورٹ یاسُپریم کورٹ کے مجبور کرنے پر لیکن ساتھ ہی وہ بلدیاتی اداروں کے اختیارات اور ذمّہ داریوں کو محدود کردیتے ہیں جنکی وجہ سے بلدیاتی ادارے اپنی افادیت کھو بیٹھتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ آئین میں وفاقی حکومتاور صوبائی حکومت کی ذمّہ داریوں اور اختیارات پر تو باقائدہ چیپٹرز موجود ہیں لیکن بلدیاتی حکومتوں کو فقط دو جملوں میںبیان کردیا گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بلدیاتی حکومت کے بارے میں بھی آئینِ پاکستان میں باقائدہ چیپٹر موجودہو جس میں بلدیاتی حکومت کی تفصیل بیان کی گئی ہو۔
قارئین اس سلسلے میں ہمسایہ ملک بھارت کے بلدیاتی نظام کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نا ہوگا۔ یہاں آپ کو یہ بتاتےچلیں کہ بلدیاتی حکومتوں کے حوالے سے یہی مسائل بھارت میں بھی تھے۔ وہاں بھی بلدیاتی اداروں کے الیکشنباقائدگی کے ساتھ مُنعقد نہیں ہوتے تھے، ان اداروں کو طویل عرصے تک معطّل رکھا جاتا تھا۔ ان اداروں کو مطلوبہاختیارات اور ذمّہ داریاں منتقل نہیں کی جاتی تھیں۔ نتیجتاً شہری بلدیاتی ادارے سیلف گورنمنٹ کی متحرّک جمہوریاکائیوں کے طور پر موئثر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے قابل نہیں رہے تھے۔ چناچہ 1991 میں ضرورت محسوس کی گئی کہشہری اور دیہی بلدیاتی اداروں سے متعلق دفعات کو آئین میں شامل کیا جائے۔ اس کے لیے آئین میں ترمیم کی گئیجس کے مندرجہ ذیل مقاصد تھے
میونسپل فنکشن، ٹیکس کے اختیارات اور محصولات کی تقسیم کے انتظامات کے حوالے سے ریاستیحکومت اور شہری/دیہی بلدیاتی اداروں کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا
انتخابات کے باقائدہ اور بروقت انعقاد کو یقینی بنانا
کمزور طبقات جیسے شیڈول کاسٹ، شیڈول قبائل، اور خواتین کو مناسب نمائندگی فراہم کرنا
ان ترامیم کو بھارت میں تہتّرویں (73rd) اور چوہتّرویں (74th) آئینی ترامیم کہا جاتا ہے اور ان کے ذریعے بھارتیآئین میں بلدیاتی اداروں کے حوالے سے حصے شامل کیے گئے۔ ان حصوں کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ملک بھر میں تینقسم کی بلدیات تشکیل دی جائیں گی۔
دیہی علاقوں کے لیے نگر پنچایت
چھوٹے شہری علاقوں کے لیے میونسپل کونسلز
بڑے شہری علاقوں کے لیے میونسپل کارپوریشنز
مزکورہ بالا علاقوں کی وضاحت کے لیے باقائدہ ایک معیار بنایا گیا جس کی تفصیل ایک آرٹیکل (243-0) میں کی گئی۔بلدیات کی تشکیل کا فیصلہ ریاستیں (صوبے) کرینگی جن میں مندرجہ ذیل خصوصیات ہونی چاہیے۔
افراد جن کا انتخاب براہِ راست انتخابات کے ذریعے کیا جائے گا
بلدیات میں وارڈ یا دیگر سطحوں پر کمیٹیوں کے چیئر پرسنز کی نمائندگی، اگر کوئی ہو
بلدیات میں میونسپل ایڈمنسٹریشن کے بارے میں خصوصی علم یا تجربہ رکھنے والے افراد کی (بغیر ووٹنگ کےحقوق کے) نمائندگی
بلدیہ کے چئیرپرسن کا انتخاب ریاستی (صوبائی) قانون کے مطابق کیا جائے گا
بلدیہ کے علاقے کے اندر وارڈ کی سطح یا دیگر سطحوں کمیٹیوں کی تشکیل ریاستی قانون کے مطابق کی جائے گی
ہر میونسپلٹی میں کمزور طبقات جیسے شیڈول کاسٹ، شیڈول قبائل کے لیے نشستیں مخصوص کی جائیں گی جن میں کم سےکم ایک تہائی خواتین کے لیے مُختص ہوں گی۔ اس کے علاوہ کل نشستوں کا کم سے کم ایک تہائی خواتین مُختص ہوگا۔شیڈول کاسٹ، شیڈول قبائل، اور خواتین کے لیے چیئرپرسنز کی نشستیں مُختص کی جائیں گی۔
بلدیہ کے لیے 5 سال کی معیاد مُقرّر کی گئی اور مُدّت ختم ہونے کے چھ ماہ کے اندر دوبارہ انتخابات کی پابندی عائد کیگئی۔ اگر میونسپلٹی کو اُس کی مُدّت مکمل ہونے سے پہلے تحلیل کردیا جاتا ہے تو اُس کے تحلیل ہونے کے چھ مہینے کےاندر انتخابات کروائے جائیں۔ اپنی مُدّت سے قبل تحلیل ہونے والی میونسپلٹی منتخب ہونے کے بعد اپنی باقی مُدّتپوری کرے گی۔
معاشی ترقّی، سماجی انصاف کے منصوبوں کی تیاری، اور ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے لیے ریاستی مقننہ کے اختیاراتاور ذمّہ داریاں بلدیات کو منتقل کی جائیں گی تاکہ وہ سیلف گورنمنٹ کے اداروں کے طور پر کام کرسکیں
میونسپلٹیوں کے ذریعے ٹیکس اور ڈیوٹیز کی وصولی کرنے کے لیے ریاستی حکومتیں میونسپلٹیوں کو اختیارات تفویض کریںگی۔ اُن ٹیکسوں کا تعین کیا جائے گا جو میونسپلٹیوں کے ذریعے وصول کیے جاسکتے ہیں۔
ایک مالیاتی کمیشن میونسپلٹیوں کی مالیات کا جائزہ لے گا اور اُصول وضع کرے گا۔
ہندوستان کے کمپٹرولر اور آڈیٹر جنرل کے ذریعے میونسپلٹیوں کے کھاتوں کا آڈٹ کیا جائے گا اور اُن کی رپورٹریاستی اسمبلی، اور میونسپل کارپوریشن کے سامنے پیش کی جائے گی
ریاست کے چیف الیکٹورل آفیسر کی نگرانی، ہدایات، اور کنٹرول کے تحت بلدیات کے انتخابات کے سلسلے میں ریاستیمقننہ قانون بنائے گی۔
اس سلسلے میں کچھ چیزوں کی تعریف بھی بیان کی گئی ہیں
“کمیٹی” سے مراد وہ کمیٹی ہے جو آرٹیکل 243S کے تحت تشکیل دی جائے۔ آرٹیکل 243S یہ کہتا ہے کہوارڈ کمیٹیاں بنائی جائیں گی جو ایک یا ایک سے زیادہ وارڈ پر مشتمل ہوں گی۔ یہ کمیٹیاں میونسپلٹی کی حدودکے اندر ہوں کے جس کی آبادی تین لاکھ یا اُس سے زیادہ ہو۔
“ضلع” سے مراد ریاست میں ایک ضلع ہے
“میٹروپولیٹن ایریا” سے مراد وہ علاقہ ہے جس کی آبادی دس لاکھ یا اس سے زیادہ ہو، جو ایک یا زیادہ اضلاع پرمُشتمل ہو، اور دو یا زیادہ میونسپلٹیوں یا پنچایتوں یا دیگر علاقوں پر مُشتمل ہو
“میونسپل ایریا” سے مراد میونسپلٹی کا علاقہ ہے
“میونسپلٹی” کا مطلب آرٹیکل 243Q کے تحت قائم کردہ سیلف گورنمنٹ کا ادارہ ہے
“پنچایت” کا مطلب آرٹیکل 243B کے تحت قائم کردہ پنچایت ہے
میونسپلٹیوں کی تشکیل:
میونسپلٹی میں تمام نشستیں میونسپل ایریا کے علاقائی حلقوں سے براہِ راست انتخاب کے ذریعے منتخب افراد سے پُرہونگی اور اس مقصد کے لیے ہر میونسپل ایریا کو علاقائی حلقوں میں تقسیم کیا جائے گا جنھیں وارڈز کے نام سے جاناجاتا ہے۔
وارڈز کمیٹیاں:
وارڈز کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی جن میں ایک یا زیادہ وارڈز شامل ہوں گے۔ تین لاکھ یا اس سے زیادہ آبادی والیمیونسپلٹی کے علاقائی رقبے میں ایک یا زیادہ وارڈز پر مشتمل وارڈ کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی۔ ریاستی مقننہ وارڈز کمیٹیکی ساخت، علاقائی تشکیل، اور اس کی سیٹ کس طرح پر کی جائے گی کے بارے میں قانون سازی کر سکے گی۔
میونسپلٹی کا ممبر جو وارڈ کمیٹی کے علاقے کے اندر کسی وارڈ کی نمائندگی کرتا ہے اس کمیٹی کا ممبر ہوگا۔
وارڈ کمیٹی اگر ایک وارڈ پر مُشتمل ہوگی تو اُس صورت میں اُس وارڈ کی نمائندگی کرنے والا میونسپلٹی کا ممبر ہوگا۔ اگروارڈ کمیٹی دو یا دو سے زیادہ وارڈز پر مُشتمل ہوگی تو ان وارڈز کی نمائندگی کرنے والے ممبران میں سے ایک وارڈ کمیٹی کاچیئرمین ہوگا۔
ریاستی مُقنّنہ وارڈز کمیٹیوں کی تشکیل کے علاوہ کمیٹیوں کی تشکیل کے لیے قانون سازی کرسکتی ہے۔
آرٹیکل 243T سیٹوں کی رزرویشن:
ہر میونسپلٹی میں شیڈول کاسٹ اور شیڈول قبائل کی نشستیں اُس میونسپلٹی میں اُن کی آبادی کے تناسب سے مُختص کیجائیں گی اور براہِ راست انتخابات سے پُر کی جائیں گی۔ان نشستوں کا میونسپلٹی کی کُل نشستوں میں اُتنا ہی تناسُب ہوگاجتنا اُن کا تناسب کُل آبادی میں ہوگا۔ یہ نشستیں مختلف حلقوں میں rotate کی جائیں گی۔
شیڈول کاسٹ اور شیڈول قبائل کے لیے ریزرو کی جانے والی کُل نشستوں میں سے کم سے کم ایک تہائی نشستیںخواتین کے لیے مُختص کی جائیں گی۔ یہ نشستیں براہِ راست انتخاب سے پُر کی جائیں گی اور مختلف حلقوں میں rotate کیجائیں گی۔
میونسپلٹیوں کے چیئر پرسنز کے آفس شیڈول کاسٹ، شیڈول قبائل، اور خواتین کے لیے ریزرو کیے جائیں گے جس کےلیے قانون سازی ریاستی اسمبلی کرے گی۔
ریاستی اسمبلی معاشرے کے پسماندہ طبقات کے لیے میونسپلٹیوں میں نشستیں ریزرو کرنے کے لیے قانون سازی کرسکےگی۔
آرٹیکل 243U میونسپلٹیز کی مُدّت:
ہر میونسپلٹی، جب تک کہ اس وقت تک نافذ العمل کسی قانون کے تحت تحلیل نہ ہو جائے، اپنی پہلیمیٹنگ کے لیے مقرر کردہ تاریخ سے پانچ سال تک جاری رہے گی اور مزید نہیں:
شرطیکہ کسی میونسپلٹی کو تحلیل ہونے سے پہلے سماعت کا معقول موقع دیا جائے۔
کسی بھی قانون میں کی جانے والی کسی بھی ترمیم کے نتیجے میں پہلے سے موجود میونسپلٹی اپنی مُدّت مکمل کئےبنا تحلیل نہیں کی جاسکے گی
میونسپلٹی کی مُدّت (یعنی پانچ سال) مکمل ہونے پر چھ ماہ کی مُدّت کے اندر انتخابات کرائے جائیں گے
اگر ایک میونسپلٹی اپنی مُدّت مکمل کرنے سے قبل تحلیل ہوجاتی ہے تو اُس کی جگہ منتخب ہونے والیمیونسپلٹی کا دورانیہ تحلیل ہونے والی میونسپلٹی کی باقی ماندہ مُدّت ہوگی
آرٹیکل 243V: رکنیت کے لیے نااہلی:
(1) ایک شخص کو بطور میونسپلٹی کا رکن منتخب کیے جانے اور ہونے کے لیے نااہل قرار دیا جائے گا۔
(a) اگر وہ متعلقہ ریاست کی مقننہ کے انتخابات کے مقاصد کے لیے اس وقت نافذ العمل کسی قانون کے ذریعے یا اسکے تحت نااہل قرار دیا گیا ہو:
بشرطیکہ کسی شخص کو اس بنیاد پر نااہل نہیں کیا جائے گا کہ اس کی عمر پچیس سال سے کم ہے، اگر وہ اکیس سال کی عمرکو پہنچ چکا ہو۔
(b) اگر وہ ریاست کی مقننہ کے ذریعہ بنائے گئے کسی قانون کے ذریعہ یا اس کے تحت نااہل قرار دیا گیا ہے۔
(2) اگر کوئی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا میونسپلٹی کا ممبر شق (1) میں بیان کردہ کسی بھی نااہلی کا نشانہ بن گیا ہے، تو اسسوال کو ایسی اتھارٹی کے فیصلے کے لیے اور اس طریقے سے بھیجا جائے گا جیسے کسی کی مقننہ۔ ریاست، قانون کےذریعے، فراہم کر سکتی ہے۔
آرٹیکل 243W: بلدیات وغیرہ کے اختیارات اور ذمّہ داریاں:
اس آئین کی دفعات کے تابع، کسی ریاست کی مقننہ، قانون کے ذریعے، عطا کر سکتی ہے۔
(a) ایسے اختیارات اور اختیار والی بلدیات جو انہیں سیلف گورنمنٹ کے اداروں کے طور پر کام کرنے کے قابلبنانے کے لیے ضروری ہو اور ایسے قانون میں بلدیات پر اختیارات اور ذمہ داریوں کی منتقلی کی دفعات شامل ہوں، انشرائط کے ساتھ جو اس کے حوالے سے اس میں بیان کی گئی ہوں۔
(i) اقتصادی ترقی اور سماجی انصاف کے لیے منصوبوں کی تیاری؛
(ii) افعال کی کارکردگی اور اسکیموں کا نفاذ جو ان کے سپرد کی گئی ہوںبشمول بارہویں شیڈول میں درج معاملات سےمتعلق؛
(b) ایسی کمیٹیاں جن کے پاس ایسی طاقت اور اختیارات ہوں جو انہیں سونپی گئی ذمہ داریوں کو نبھانے کے قابلبنانے کے لیے ضروری ہوں جن میں بارہویں شیڈول میں درج معاملات کے حوالے سے بھی شامل ہوں۔
آرٹیکل 243X بلدیات کے ذریعے ٹیکس لگانے کا اختیار، اور فنڈز۔
کسی ریاست کی مقننہ، قانون کے ذریعے،
(a) کسی میونسپلٹی کو اس طرح کے طریقہ کار کے مطابق اور اس طرح کی حدود کے تحت ایسے ٹیکس، ڈیوٹی، ٹول اورفیس لگانے، وصول کرنے اور مناسب کرنے کا اختیار دیں گی
(b) کسی میونسپلٹی کو ایسے ٹیکس، ڈیوٹی، ٹولز اور فیسیں تفویض کریں گی
جو ریاستی حکومت کی طرف سے اس طرح کے مقاصد کے لیے وصول کی جاتی ہے اور اس طرح کی شرائط اور حدودکے تابع ہوتی ہے۔
(c) ریاست کے کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے میونسپلٹیوں کو اس طرح کی امداد فراہم کرنے کے لیے اور
(d) بلدیاتی اداروں کی جانب سے یا اس کی جانب سے بالترتیب موصول ہونے والی تمام رقموں کو کریڈٹ کرنے کےلیے ایسے فنڈز کی تشکیل اور اس سے ایسی رقم کی واپسی کے لیے بھی فراہم کرنا۔
جیسا کہ قانون میں بیان کیا گیا ہے۔
آرٹیکل 243Y فنانس کمیشن۔
(1) آرٹیکل 243-I کے تحت تشکیل دیا گیا مالیاتی کمیشن بلدیات کی مالی حالت کا بھی جائزہ لے گا اور گورنر کو سفارشاتپیش کرے گا کہ:
(a) وہ اصول جن پر حکومت کرنی چاہیے-
(i) ریاست کی طرف سے عائد ٹیکسوں، ڈیوٹیوں، ٹولوں اور فیسوں کی خالص آمدنی کی ریاست اور میونسپلٹیوں کےدرمیان تقسیم، جو اس حصے کے تحت ان کے درمیان تقسیم کی جا سکتی ہے اور ان کے متعلقہ تمام سطحوں پربلدیات کے درمیان مختص اس طرح کی آمدنی کے حصص؛
(ii) ٹیکسوں، ڈیوٹیوں، ٹولوں اور فیسوں کا تعین جو میونسپلٹیوں کو تفویض یا مختص کیا جا سکتا ہے؛
(iii) ریاست کے کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے میونسپلٹیوں کو دی جانے والی امداد؛
(b) بلدیات کی مالی حالت کو بہتر بنانے کے لیے درکار اقدامات؛
(c) کوئی دوسرا معاملہ جو گورنر کے ذریعہ میونسپلٹیوں کے صحیح مالیات کے مفاد میں فنانس کمیشن کو بھیجا گیا ہو۔
(2) گورنر اس آرٹیکل کے تحت کمیشن کی طرف سے کی گئی ہر سفارش کو ریاست کی مقننہ کے سامنے پیش کرنے کےلیے ایک وضاحتی یادداشت کے ساتھ پیش کرے گا۔
آرٹیکل 243Z بلدیات کے کھاتوں کا آڈٹ۔
کسی ریاست کی مقننہ، قانون کے ذریعہ، بلدیات کے ذریعہ کھاتوں کی دیکھ بھال اور اس طرح کے کھاتوں کے آڈٹ کےسلسلے میں انتظامات کرسکتی ہے۔
آرٹیکل 243ZA بلدیات کے انتخابات۔
(1) بلدیات کے تمام انتخابات کے لیے انتخابی فہرستوں کی تیاری، اور ان کے انعقاد کی نگرانی، ہدایت اور کنٹرولریاستی الیکشن کمیشن کے پاس ہوگا جس کا حوالہ آرٹیکل 243K میں دیا گیا ہے۔
(2) اس آئین کی دفعات کے تابع، کسی ریاست کی مقننہ، قانون کے ذریعے، بلدیات کے انتخابات سے متعلق، یا اسکے سلسلے میں، تمام معاملات کے حوالے سے انتظام کر سکتی ہے۔
آرٹیکل 243ZB مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے لیے درخواست۔
اس حصے کی دفعات کا اطلاق یونین کے زیر انتظام علاقوں پر ہوگا اور ان کا اطلاق یونین کے زیر انتظام علاقوں پر ہوگا،گویا کسی ریاست کے گورنر کے حوالہ جات مرکزی زیر انتظام علاقے کے مقرر کردہ ایڈمنسٹریٹر کے حوالے ہیں۔ آرٹیکل239 کے تحت اور کسی ریاست کی مقننہ یا قانون ساز اسمبلی کے حوالہ جات کسی یونین کے زیر انتظام علاقے کےحوالے سے تھے جن میں قانون ساز اسمبلی ہوتی ہے، اس قانون ساز اسمبلی کے لیے:
بشرطیکہ صدر عوامی نوٹیفکیشن کے ذریعے ہدایت دے کہ اس حصے کی دفعات کسی بھی یونین ٹیریٹری یا اس کے کسی حصےپر لاگو ہوں گی جن کی وہ نوٹیفکیشن میں وضاحت کر سکتا ہے۔
آرٹیکل 243ZC کچھ مخصوص علاقوں پر لاگو نہیں ہوگا۔
(1) اس حصے کی کوئی بھی چیز شق (1) میں مذکور شیڈول شدہ علاقوں اور آرٹیکل 244 کی شق (2) میں مذکور قبائلی علاقوںپر لاگو نہیں ہوگی۔
(2) اس حصے میں کسی بھی چیز کو مغربی بنگال ریاست کے ضلع دارجلنگ کے پہاڑی علاقوں کے لیے کسی بھی وقتکے لیے نافذ کسی بھی قانون کے تحت تشکیل دی گئی دارجلنگ گورکھا ہل کونسل کے افعال اور اختیارات کو متاثرکرنے کے لیے نہیں لگایا جائے گا۔
3) اس آئین میں کسی بھی چیز کے باوجود، پارلیمنٹ، قانون کے ذریعے، اس حصے کی دفعات کو درج ذیل علاقوں اورشق (1) میں مذکور قبائلی علاقوں تک توسیع دے سکتی ہے، ان مستثنیات اور ترمیمات کے ساتھ جو اس قانون میں بیانکیے گئے ہوں، اور ایسا کوئی قانون آرٹیکل 368 کے مقاصد کے لیے اس آئین کی ترمیم نہیں سمجھا جائے گا۔
آرٹیکل 243ZD ضلعی منصوبہ بندی کے لیے کمیٹی۔
(1) ہر ریاست میں ضلع کی سطح پر ایک ضلعی منصوبہ بندی کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو ضلع میں پنچایتوں اور میونسپلٹیوںکے ذریعے تیار کیے گئے منصوبوں کو یکجا کرے گی اور ضلع کے لیے ترقیاتی منصوبے کا مسودہ تیار کرے گی۔
(2) ریاست کی مقننہ، بذریعہ قانون، اس سلسلے میں بندوبست کر سکتی ہے-
(a) ضلعی منصوبہ بندی کمیٹیوں کی تشکیل؛
(b) اس طرح کی کمیٹیوں میں نشستیں کیسے پُر کی جائیں گی:
بشرطیکہ ایسی کمیٹی کے ارکان کی کل تعداد کے چار پانچویں سے کم نہ ہوں، اور ان میں سے، ضلع کی سطح پر پنچایت کےمنتخب اراکین اور ضلع کی میونسپلٹیوں، ضلع کے دیہی علاقوں اور شہری علاقوں کی آبادی کے درمیان تناسب سےمنتخب کیے جائیں گے۔؛
(c) ضلعی منصوبہ بندی سے متعلق کام جو ایسی کمیٹیوں کو تفویض کیے جا سکتے ہیں؛
(d) اس طرح کی کمیٹیوں کے چیئرپرسن کا انتخاب کیا جائے گا۔
(3) ہر ڈسٹرکٹ پلاننگ کمیٹی، ڈرافٹ ڈویلپمنٹ پلان کی تیاری میں، –
(a) کے بارے میں
(i) پنچایتوں اور میونسپلٹیوں کے درمیان مشترکہ دلچسپی کے معاملات بشمول مقامی منصوبہ بندی، پانی اور دیگر طبعی اورقدرتی وسائل کی تقسیم، بنیادی ڈھانچے کی مربوط ترقی اور ماحولیاتی تحفظ؛
(ii) دستیاب وسائل کی حد اور قسم چاہے مالی ہو یا دوسری صورت میں۔
(b) ایسے اداروں اور تنظیموں سے مشورہ کریں گی جن کی گورنر، حکم کے ذریعے، وضاحت کرے گا۔
(4) ہر ضلعی منصوبہ بندی کمیٹی کا چیئرپرسن ترقیاتی منصوبہ کو ریاست کی حکومت کو بھیجے گا، جیسا کہ ایسی کمیٹی نے تجویزکیا ہے،
آرٹیکل 243ZE میٹروپولیٹن منصوبہ بندی کے لیے کمیٹی۔
(I) ہر میٹروپولیٹن ایریا میں میٹروپولیٹن پلاننگ کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو میٹروپولیٹن ایریا کے لیے مجموعی طور پر ترقیاتیمنصوبہ تیار کرے گی۔
(2) ریاست کی مقننہ، بذریعہ قانون، اس سلسلے میں بندوبست کر سکتی ہے-
(a) میٹروپولیٹن پلاننگ کمیٹیوں کی تشکیل؛
(b) اس طرح کی کمیٹیوں میں نشستیں کس طرح پر جائیں گی:
بشرطیکہ ایسی کمیٹی کے دو تہائی ارکان سے کم نہ ہوں، اور ان میں سے، بلدیات کے منتخب اراکین اور میٹروپولیٹن علاقےمیں پنچایتوں کے چیئرپرسن بلدیات کی آبادی کے تناسب کے مطابق منتخب ہوں گے۔ اس علاقے میں پنچایتوں کی؛
(c) حکومت ہند اور ریاستی حکومت کی ایسی کمیٹیوں میں نمائندگی اور ایسی تنظیموں اور اداروں کی جو ایسی کمیٹیوں کوتفویض کردہ کاموں کو انجام دینے کے لیے ضروری سمجھے جائیں؛
(d) میٹروپولیٹن ایریا کے لیے منصوبہ بندی اور رابطہ کاری سے متعلق کام جو ایسی کمیٹیوں کو تفویض کیے جا سکتے ہیں؛
(e) اس طرح کی کمیٹیوں کے چیئرپرسن کا انتخاب کیا جائے گا۔
(3) ہر میٹروپولیٹن پلاننگ کمیٹی، ڈرافٹ ڈویلپمنٹ پلان کی تیاری میں، –
(a) کے بارے میں
(i) میٹروپولیٹن علاقے میں میونسپلٹیوں اور پنچایتوں کے تیار کردہ منصوبے؛
(ii) بلدیات اور پنچایتوں کے درمیان مشترکہ دلچسپی کے معاملات، بشمول علاقے کی مربوط مقامی منصوبہ بندی، پانی اوردیگر طبعی اور قدرتی وسائل کی تقسیم، بنیادی ڈھانچے کی مربوط ترقی اور ماحولیاتی تحفظ؛
(iii) حکومت ہند اور ریاستی حکومت کے ذریعہ مقرر کردہ مجموعی مقاصد اور ترجیحات؛
(iv) میٹروپولیٹن علاقے میں حکومت ہند اور ریاستی حکومت کی ایجنسیوں کے ذریعہ سرمایہ کاری کی حد اور نوعیت اور دیگردستیاب وسائل چاہے مالی ہوں یا دوسری صورت میں۔
(b) ایسے اداروں اور تنظیموں سے مشورہ کریں گی جن کی گورنر، حکم کے ذریعے، وضاحت کرے گا۔
(4) ہر میٹرو پولیٹن پلاننگ کمیٹی کا چیئرپرسن ترقیاتی منصوبے کو، جیسا کہ ایسی کمیٹی نے تجویز کیا ہے، ریاست کی حکومتکو بھیجے گا۔
آرٹیکل 243ZF موجودہ قوانین اور میونسپلٹیز کا تسلسل۔
اس حصے میں کسی بھی چیز کے باوجود، آئین (چوہترویں ترمیم) ایکٹ، 1992 کے شروع ہونے سے فوراً پہلے کسیریاست میں نافذ بلدیات سے متعلق کسی بھی قانون کی کوئی شق، جو کہ دفعات سے مطابقت نہیں رکھتی۔ اس حصہ کا،اس وقت تک نافذ رہے گا جب تک کہ کسی مجاز مقننہ یا دیگر مجاز اتھارٹی کے ذریعے ترمیم یا منسوخ نہ کر دی جائے یااس طرح کے آغاز سے ایک سال کی میعاد ختم ہونے تک، جو بھی پہلے ہو:
بشرطیکہ اس طرح کے آغاز سے فوراً پہلے موجود تمام میونسپلٹیز اپنی مدت ختم ہونے تک جاری رہیں گی، جب تک کہقانون ساز اسمبلی کی طرف سے منظور شدہ قرارداد کے ذریعے جلد تحلیل نہ ہو جائے۔
آرٹیکل 243ZG انتخابی معاملات میں عدالتوں کی مداخلت پر پابندی۔
اس آئین میں کچھ بھی ہو،-
(a) حلقہ بندیوں کی حد بندی یا ایسے حلقوں کو نشستوں کی الاٹمنٹ سے متعلق کسی بھی قانون کی درستگی، آرٹیکل 243ZA کے تحت بنائے جانے یا بنائے جانے کے بارے میں کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جائے گا۔
(b) کسی بھی میونسپلٹی کے انتخاب پر سوال نہیں کیا جائے گا سوائے اس انتخابی پٹیشن کے جو کہ ایسی اتھارٹی کو پیشکی گئی ہو اور ایسے طریقے سے جو ریاست کی مقننہ کے ذریعہ بنائے گئے کسی قانون کے ذریعہ یا اس کے تحت فراہم کیگئی ہو۔’
3. آرٹیکل 280 میں ترمیم۔ آئین کے آرٹیکل 280 کی شق (3) میں ذیلی شق (c) کو ذیلی شق (d) کے طور پر اور ذیلیشق (d) سے پہلے جیسا کہ دوبارہ لکھا گیا ہے، درج ذیل ذیلی شق داخل کی جائے گی، یعنی:-
"(c) ریاست کے مالیاتی کمیشن کی سفارشات کی بنیاد پر ریاست میں میونسپلٹیوں کے وسائل کی تکمیل کے لیے ریاستکے کنسولیڈیٹڈ فنڈ کو بڑھانے کے لیے درکار اقدامات؛”۔
4. بارہویں شیڈول کا اضافہ۔-آئین میں گیارہویں شیڈول کے بعد، درج ذیل شیڈول کا اضافہ کیا جائے گا، یعنی:-
"بارہویں شیڈول
(آرٹیکل 243W)
1. شہری منصوبہ بندی بشمول ٹاؤن پلاننگ۔
2. زمین کے استعمال اور عمارتوں کی تعمیر کا ضابطہ۔
3. اقتصادی اور سماجی ترقی کے لیے منصوبہ بندی کرنا۔
4. سڑکیں اور پل۔
5. گھریلو، صنعتی اور تجارتی مقاصد کے لیے پانی کی فراہمی۔
6. صحت عامہ، صفائی ستھرائی کے تحفظ اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ۔
7. فائر سروسز۔
8. شہری جنگلات، ماحولیات کا تحفظ اور ماحولیاتی پہلوؤں کو فروغ دینا۔
9.معاشرے کے کمزور طبقوں کے مفادات کی حفاظت کرنا، بشمول معذور اور ذہنی معذور۔
10. کچی آبادیوں کی بہتری اور اپ گریڈیشن۔
11. شہری غربت کا خاتمہ۔
12. شہری سہولیات اور سہولیات جیسے پارکس، باغات، کھیل کے میدانوں کی فراہمی۔
13. ثقافتی، تعلیمی اور جمالیاتی پہلوؤں کا فروغ۔
14. تدفین اور تدفین کی جگہ؛ آخری رسومات، شمشان گھاٹ اور برقی قبرستان۔
15. مویشی پاؤنڈ؛ جانوروں پر ظلم کی روک تھام
16. اہم اعدادوشمار بشمول پیدائش اور اموات کا اندراج۔
17. عوامی سہولیات بشمول اسٹریٹ لائٹنگ، پارکنگ لاٹس، بس اسٹاپ اور عوامی سہولیات۔
18. مذبح خانوں اور ٹینریز کا ضابطہ۔”
قارئین یہاں آپ کو بتاتے چلیں کہ بھارتی آئین میں جب تہتّرویں (73rd) آئینی ترمیم کی گئی تھی تو اس میں گیارہواںشیڈول داخل کیا گیا تھا جس کے تحت مندرجہ ذیل ذمّہ داریاں بلدیات کو دی گئی تھیں۔
- زراعت، بشمول زرعی توسیع۔
- زمین کی بہتری، زمینی اصلاحات کا نفاذ، زمین کا استحکام اور مٹی کا تحفظ۔
- معمولی آبپاشی، پانی کا انتظام اور واٹرشیڈ کی ترقی۔
- مویشی پالنا، ڈیری اور پولٹری۔
- ماہی گیری۔
- سماجی جنگلات اور فارم جنگلات
- معمولی جنگل کی پیداوار۔
- چھوٹے پیمانے کی صنعتیں، بشمول فوڈ پروسیسنگ کی صنعتیں۔
- کھادی، گاؤں اور کاٹیج انڈسٹریز۔
- دیہی رہائش۔
- پینے کا پانی۔
- ایندھن اور چارہ۔
- سڑکیں، پل، فیریز، آبی گزرگاہیں اور مواصلات کے دیگر ذرائع۔
- دیہی بجلی کاری، بشمول بجلی کی تقسیم۔
- توانائی کے غیر روایتی ذرائع۔
- غربت کے خاتمے کا پروگرام۔
- تعلیم بشمول پرائمری اور سیکنڈری اسکول۔
- فنی تربیت اور پیشہ ورانہ تعلیم
- بالغ اور غیر رسمی تعلیم۔
- لائبریریاں۔
- ثقافتی سرگرمیاں۔
- بازار اور میلے ۔
- صحت اور صفائی، بشمول ہسپتال، بنیادی صحت کے مراکز اور ڈسپنسریاں۔
- خاندانی بہبود.
- خواتین اور بچوں کی نشوونما۔
- سماجی بہبود، بشمول معذور اور ذہنی معذور افراد کی بہبود۔
- کمزور طبقات اور خاص طور پر درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کی بہبود۔
- عوامی تقسیم کا نظام۔
- کمیونٹی کے اثاثوں کی دیکھ بھال۔
قارئین ان ساری تفصیلات کو پڑھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھارتی آئین میں بلدیاتی نظام کی تعریف کتنی تفصیل کےساتھ کی گئی ہے۔ پاکستان میں بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ بلدیاتی نظام کے بارے میں ایک باقائدہ چیپٹر کا اضافہ کیاجائے جس میں بلدیاتی نظام کی تفصیل ہو اور بلدیاتی نظام کو آئینی تحفّظ دیا جائے تاکہ ملک بھر میں یکساں بلدیاتی نظامنافذ ہو۔