جنوبی امریکہ کے ملک ایکواڈور کے زیر تسلط بحر الکاہل میں گالاپاگوس جزائر اکیس جزیروں کا جھرمٹ ہیں اور قریب ترین خشکی کے مقام سے نو سو میل دور ہے۔ جزیروں کے ان جھرمٹ میں زندگی بہت متنوع ہے اور ہر جزیرے میں منفرد۔ سائنس کی تاریخ میں اس وجہ سے ان کی اپنی اہمیت رہی لیکن ایک قصہ یہاں پر بکروں کے خلاف ہونے والی دس سالہ جنگ کی۔
انسانوں نے جب یہاں کا رخ کیا تو اپنے ساتھ جانور بھی لے گئے۔ بکرا یہاں کا جانور نہیں تھا لیکن انسانوں کے ساتھ یہ بھی یہاں بکرے بھی پہنچ گئے۔ سرسبز چراگاہوں، شکاری جانوروں کی غیر موجودگی اور ان کی تیز رفتار افزائش نسل کا مطلب یہ نکلا کہ یہاں پر ان کے بڑھنے کی تعداد کنٹرول کرنے کا کوئی طریقہ نہ تھا۔ وہ توازن جو یہاں کئی ملین سالوں میں بنا تھا، بہت جلد بگڑ گیا۔ یہ رفتار کتنی تیز تھی؟ اس کی ایک انتہا کی مثال پنٹا کا جزیرہ تھا۔ ۱۹۵۹ میں کچھ مچھیروں نے یہاں کا رخ کیا اور ساتھ ایک بکرا اور دو بکریاں لے کر آئے۔ اس جزیرے پر اگلی چار دہائیؤں میں تیس ہزار سے زائد ہو چکی تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ دوسرے جانوروں کی خوراک چٹ کر رہے تھے اور یہاں کے مقامی جانوروں کی تعداد کم ہو رہی تھی۔ گالاپاگوس کچھوا جو صرف اس جزیرے سے خاص تھا، اس کی تعداد دو لاکھ سے کم ہو کر صرف تین ہزار تک آ گئی تھی۔ بکروں کی تعداد اڑھائی لاکھ ہو چکی تھی۔ کئی تجاویز کے بعد ۱۹۹۷ میں آخر اس مسئلے کو حل کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ ان سب کو پکڑ کے کسی دوسری جگہ لے جانا ممکن نہیں تھا۔ شکاری جانوروں کے اضافے کی تجویز مسترد ہو گئی کہ نہ معلوم اس کی وجہ سے کیا نتیجہ نکلے۔ فیصلہ ان کے قتل عام کا تھا۔
نیوزی لینڈ کی آرمی سے مدد لی گئی اور ہیلی کاپٹر منگوائے گئے۔ نشانہ باز ان کا فضا سے رائفل کے ذریعے شکار کرتے۔ ابتدا میں کامیابی ملی اور ان کی تعداد کم ہونا شروع ہوئی۔ تھوڑے سے بھی بچے جانور تیزی سے زیادہ ہو سکتے تھے اس لئے مکمل صفایا ضروری تھا۔ بکروں کو پھر ہیلی کاپٹر کے خطرے کا احساس ہو گیا اور انہوں نے چھپنا شروع کر دیا۔ ان کی کم ہوتی تعداد اور چھپ جانے کی وجہ سے ہیلی کاپٹر سے شکار کا طریقہ غیر مؤثر ہونا شروع ہو گیا۔
لیکن پھر اس جنگ میں ایک اور ہتھیار ڈھونڈ لیا گیا۔ ‘جوڈاس گوٹ’ یا غدار بکری۔ اس میں دو تبدیلیاں کی گئیں تھیں۔ ایک تو ان کو سٹیریلائیز کیا گیا اور دوسرا یہ کہ ان کے ہارمون میں تبدیلی کی گئی کہ یہ ہر وقت جنسی عمل کے لئے تیار رہتیں۔ ان کی جگہ معلوم کرنے کے لئے ان میں ٹریکر لگائے گئے۔ اس طرح کی نو سو بکریاں مختلف مقامات پر مختلف وقتوں میں چھوڑی گئیں۔ بکرے سوشل جانور ہیں اور گروپ کی صورت میں رہتے ہیں۔ یہ بکریاں پاپولر ہوئیں اور گروپ میں گھل مل گئیں۔ ان کی مدد سے چھپے بکروں کے ٹھکانوں کا پتہ لگ جاتا اور پھر ان کا صفایا کر دیا جاتا۔
یہ جنگ دس برس جاری رہنے کے بعد اختتام کو پہنچی اور ۲۰۰۷ میں گالاپاگوس جزائر کو بکروں کی نوع سے صاف ڈیکلئیر کر دیا گیا۔ اب یہاں کا سبزہ اور چراگاہوں بحال ہو رہی ہیں۔ صرف کچھ غدار بکریاں یہاں پر مانیٹرنگ کے لئے موجود ہیں۔ کچھوؤں کی تعداد بڑھ کر ۱۹۰۰۰ تک پہنچ چکی ہے۔
کیا انسان کو اس طرح دخل اندازی کر کے ایکوسسٹم بچانے چاہئیں؟ یہ غیرمتنازعہ نہیں۔ اس کے حق میں کنزوریشنسٹ جو رائے دیتے ہیں، وہ یہ کہ جب انسان ان سسٹمز کو دخل اندازی سے خراب کر سکتا ہے اور پھر مسائل کو سمجھ کر حل ڈھونڈنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو دخل اندازی سے ان کو ٹھیک کرنے کی ذمہ داری بھی اس کی ہے۔
یہ پراجیکٹ ازابیلا ہے۔ بکروں کو تلف کرنا اس کا ایک حصہ۔ گالاپاگوس کے بکرے ماحولیات کی سائنس میں انویسو سپیشز یعنی حملہ آور انواع کی مثال جنہیں ایکوسسٹم کا کینسر کہا جاتا ہے۔
اس کے بارے میں
https://www.galapagos.org/…/ecosystem-rest…/project-isabela/
ماڈرن فارمر میں اس پر آرٹیکل
https://modernfarmer.com/2013/09/killing-goats-galapagos/
ماحولیات میں حملہ آور انواع کیا ہیں؟
https://en.wikipedia.org/wiki/Invasive_species
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔