ایک گاؤں میں دیو کی آمد سے ہر طرف خوف و ہراس پھیل گیا۔ وہاں انسانوں سے زیادہ جانوروں کا خاص کر بکریوں کا جینا مشکل ہوگیا کیونکہ دیو کی پسندیدہ خوراک بکریاں کھانا تھا۔ وہ ہر رات تاریکی کا فائدہ اٹھا کر مختلف گھروں میں داخل ہوتا اور ایک ہی وقت میں دو تین بکریاں کھا کر ڈکار تک نہ لیتا۔ دیو شکار سے پہلے جانوروں کو خوب ڈراتا، اسے جانوروں کے کپکپاتے پیر بہت اچھے لگتے۔ اسے یقین تھا کہ سارے جانور اس سے خوف زدہ ہیں ۔
دیو کی وحشت سے بکریوں نے تو سہ پہر کے بعد ہی گھروں سے نکلنا چھوڑ دیا البتہ بکرے عصر تک قریبی میدان میں کھیلتے رہتے۔ انہیں مالکوں نے تلقین کر رکھی تھی کہ مغرب آذان سے پہلے پہلے سب نے واپس آنا ہے۔ سارے بکرے مالکوں کے حکم کی تائید کرتے سوائے گوٹی بکرے کی ۔
گوٹی ایک پراعتماد اور صحت مند بکرا تھا۔ اس کی صحت کا راز یہ تھا کہ وہ روزانہ کھیلنے کے بعد کھیتوں کی سیر کرتا اور اندھیرا پھیلنے سے قبل گھر چلا آتا۔
جب گاؤں میں ہر طرف دیو کا خوف پھیل گیا تو ہر کوئی دیو کے متعلق ہی باتیں کرنے لگا۔ اس کے باوجود گوٹی کو یقین نہیں آرہا تھا کہ اس دور میں بھی دیو ہوسکتے ہیں ۔
ایک دفعہ بز بکری نے گوٹی سے کہا۔ “یار ! شام کو جلدی گھر جایا کر۔ دیو نے رات کو بھی ہمارے پڑوس میں تین بکریوں کا صفایا کر دیا تھا۔”
گوٹی نے ہنس کر جواب دیا۔
“دیو شیو کوئی نہیں ہوتا ۔ یہ ہمارا وہم ہے۔ باقی کچھ نہیں ۔”
ایک بار عصر کے وقت ہلکی ہلکی بارش سے گاؤں کا ماحول جنت کی مثال پیش کرنے لگا۔ گوٹی کھیتوں کی سیر میں مصروف ہو کر بہت دور نکل گیا۔ اسے تب ہوش آیا جب اندھیرا ہر طرف پھیل گیا تھا۔ اندھیرے میں وہ گھر کا راستہ بھول گیا۔ ایک ویراں راستے سے گزرتے ہوئے اچانک گوٹی ایک خشک کنویں میں جا گرا۔ یہ کنواں زیادہ گہرا نہیں تھا لیکن اس میں کافی اندھیرا تھا۔ گوٹی کو کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اسی لمحے اچانک ایک طرف سے دیو نکل آیا۔ اس نے خونخوار انداز میں گوٹی کی جانب دیکھا اور کہا۔
“بہت خوب ۔ یہ تو اچھا ہوا کہ آج شکار خود مجھ تک آیا اور مجھے باہر نکلنے سے بچایا۔”
پھر اس نے گوٹی کے قریب آ کر کہا۔
“اب میں تمہیں یہی کھاؤں گا۔”
دیو نے سیا سلائی روشن کی تو دیو کا خوفناک چہرہ سامنے آیا۔ گوٹی نے سب سے پہلے کنویں کا جائزہ لیا۔ اس میں ہر طرف تلوار جیسے نوکیلے پتھر تھے جس سے گرتے وقت گوٹی بچ گیا تھا۔ اس کے بعد گوٹی نے دیو کو دیکھا۔ اس نے جب حقیقت میں دیو کو اپنے سامنے پایا تو اس کے اوسان خطا ہوگئے ۔ خوف کے مارے اس کے گلے سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔ قریب تھا کہ وہ ڈر کی وجہ سے بے ہوش ہوجاتا مگر اچانک اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی ۔ اس نے خود پر قابو پایا اور ایک لمبا قہقہہ لگایا۔
دیو نے سوچا، بکرا اپنی یقینی موت دیکھ کر پاگل ہوگیا ہے۔
مگر دیو تب حیران ہوا جب بکرے نے اسے رعب دار آواز میں مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
“ارے دیو صاحب! میں تو تمہیں آسمانوں میں ڈھونڈ رہا تھا، شکر ہے تم مجھے یہی مل گئے۔”
گوٹی ظاہری طور مسلسل ہنسے جارہا تھا مگر خوف کے مارے اس کا بدن کپکپا رہا تھا ۔
دیو بکرے کی بہادری اور یہ صورت حال دیکھ کر کافی حیران ہوا۔ اس نے سر کھجاتے ہوئے گوٹی سے پوچھا۔
“کیوں ڈھونڈ رہے تھے مجھے یہاں وہاں ؟”
گوٹی کو محسوس ہوا کہ دیو اس کی چال میں آگیا ہے ۔ تب اس نے آواز بھاری کرتے ہوئے ایک فرضی کہانی شروع کی۔
“اصل میں ، میں چند روز قبل ہی جیل سے رہا ہو کر آیا ہوں۔ مجھے عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی کیونکہ میں نے تجھ سے بھی موٹے اور طاقت ور دیو کو کچا چبا لیا تھا۔”
یہ سن کر دیو کی حالت غیر ہونے لگی۔ بکرے نے کپکپاتے پیر سنبھالتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔
“وہ دیو بادشاہ سلامت کا خاص غلام تھا اس لیے جب بادشاہ سلامت کو خبر ہوئی کہ میں نے اس کے غلام کو مار ڈالا ہے تو اس نے مجھے قید کر دیا۔”
دیو بڑے انہماک سے بکرے کو سن رہا تھا ۔ جب بکرا وقفے کے لیے رکا تو دیو نے اس سے ایک سوال کیا ۔
“اگر تمہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی تو آج تم باہر اس طرح آزاد کیسے گھوم رہے ہو؟۔”
یہ سن کر بکرے نے کہا۔
“مجھے ایک شرط پر چھوڑا گیا ہے کہ کہیں سے کسی دیو کو پکڑ کر بادشاہ کی خدمت میں پیش کروں۔ جب ایسا ہوگا، پھر میں مکمل آزاد ہوجاؤں گا۔”
اس نے دیو کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی بات جاری رکھی۔
” میں نے یہ حکم ملتے ہی ہر طرف اپنے جاسوس پھیلائے جنہوں نے چند ہی دنوں میں تمہارا پتا کرکے مجھے تمہاری رہائش کا نقشہ دے دیا۔”
یہ سن کر دیو پر خوف کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ اس نے کہا ۔
“اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم اس کنویں میں پھسلے نہیں ہو؟
گوٹی نے شوخی سے کہا۔
“بالکل نہیں۔ میں اس کنویں میں گرا نہیں ہوں بلکہ خود آیا ہوں، جان بوجھ کر ، وہ بھی تمہیں پکڑنے۔”
دیو یہ سن کر بہت گھبرایا ۔ بکرے نے اپنی بات جاری رکھی۔
“اصل میں بادشاہ کو دیو کی صورت میں مضبوط غلام چاہیے
اور میں دیوؤں کو پکڑنے اور انہیں سدھارنے میں ماہر ہوں۔ اس لیے اب تیار رہو۔ آج تمہیں مجھ سے کوئی نہیں بچا سکتا۔”
دیو مارے خوف کے بکرے کے پیر پکڑ کر معافی مانگنے لگا۔ اس دوران اس نے بکرے کے کپکپاتے پیر بھی دیکھ لیے۔
بکرے نے کافی خوف زدہ ہونے کے باوجود خود پر قابو پاتے ہوئے دیو سے کہا ۔
“چلو میں تمہیں معاف کر دیتا ہوں ۔ میں بادشاہ سلامت سے کہہ دوں گا کہ اس کنویں میں کوئی نہیں تھا۔”
یہ کہہ کر گوٹی نے تیزی سے کنویں کی اینٹوں کے سہارے اوپر چڑھنا شروع کیا تاکہ جلد از جلد دیو سے بچا جاسکے۔ دیو معافی کا سن کر گوٹی کے رویے سے کافی متاثر ہوا کہ اچانک اسے شکار کے کپکپاتے پیر یاد آئے ۔ اسے یہ بھی یاد آیا کہ جب کسی جانور کے پیروں پر کپکپی طاری ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ڈرا اور سہما ہوا ہے۔ یہ سوچ کر اس نے بکرے کی جانب دیکھا جو تیزی سے اوپر چڑھ رہا تھا۔ دیو نے جب اسے غصے میں پکارا تو وہ خوف کے مارے اتنی تیزی سے چڑھنے لگا کہ پلک جھپکتے کنویں کے دہانے پہنچ گیا۔ دیو اسے ختم کرنے کے لیے انتہائی تیزی سے اوپر چڑھنے لگا۔ اس دوران بکرے نے دانائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوراً ایک بھاری پتھر اٹھا کر کنویں میں پھینک دیا جو سیدھا دیو کو لگا۔ وہ دھڑام سے نیچے گر کر نوکیلے پتھروں پر گرا۔ پتھر اس کے جسم میں پیوست ہوگئے ۔ اسی طرح سارے گاؤں والوں نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دیو سے چھٹکارا پا لیا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...