کوئی قوم اخلاقی ، معاشی اور علمی۔ طور پہ اس پستی کی حد تک بھی گر سکتی ہے آج کے دور میں سوچا بھی نہیں۔ جا سکتا —
کہتے ہیں کوئی حادثہ اچانک رونما۔ نہیں ہوتا تیس سال سے ملک کے حکمران۔ طبقے نے جس برے طریقے سے اس ملک کو مذہبی۔ متعصب پن کی طرف دیکھیلا ہے اس کا یہئ نتیجہ ہونا تھا –
جہاں ان لوگوں۔ کو ہیرو بنا کر پیش۔ کیا جائے۔ جو اس طرح لوگوں۔ کے سر تن سے کاٹ کر ان سے فٹبال کھیلتے ہوں–
ان لوگوں۔ کے پلاگ ہونے پہ پارلمینٹ۔ میں آنسو بہائے جائیں جو شیعہ۔ فرقے کے لوگوں۔ کو بسوں۔ سے اتار۔ کر کلمہ شہادت۔ لکھےکُدھ مذہبی خنجر۔ سے شیعہ فرقے کے لوگوں۔ کے سر تن سے جدا۔ کر کے ہوا میں اچھالیں — جہاں ہزاروں معصوم۔ جانوں کے قاتل۔ حکیم۔ مسعود کی ہلاکت کو شہید۔ قرار دیا۔ جائے –جہاں صوبہ کی ہائی کوٹ کے باہر وکیل کے دفتر کے باہر یہ لکھ کر بورڈ لٹکا دیا جائے کہ یہاں کتے احمدی مرزائی تشریف نہ لاہیں جہاں ٹی وی پہ۔ نام نہاد ۔ پیر بچوں سے جن۔ بھوت نکالنے کو برائے راست۔ دیکھا یا جائے — جہان ٹی وی پہ حوروں کے بدن کی لمبائی اور حوروں۔ کے رگوں سے چلتا پانی۔ کی منظر والی تقاریر۔ دیکھائی جا رہی ہوں — وہاں۔ جہازو ں کو گرنے سے بچانے۔ کے لیے جہاز کے چلنے سے پہلے۔ کالے بکرے۔ کی گردن۔ تن سے جدا کر قربانی۔ ہی دی جا سکتی ہے–
یہ کالے بکرے کی گردن پہ چھری نہیں۔ چل رہی بلکہ جہالت کا خنجر۔ اج کے جدید۔ علم۔ پہ چل رہا ہے
پلے پوری دنیا کہہ رہی تھی کہ پاکستان۔ کی اسٹیٹ۔ مذہبی دہشت۔ گردوں۔ کا پناہ دیتی اور ان کی تربیت۔ کرتی۔ ہے آج۔ پاکستان۔ کی سپریم۔ کورٹ کے ایک حاضر۔ سروس۔ جج۔ کی روپورٹ کہہ رہی۔ ہے کہ ملک۔ کی وزارت ِ داخلہ برائے راست۔ ملک میں ہونے والی دہشت گردی کی ذمہ دار ہے
دوستو ختم ہوئی۔ دیدہِ تر کی شبنم
—————–
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=10154845626948390&id=656893389
“