دنیا میں اپنے دور کے 2 عظیم حکمرانوں نے اپنے دربار سے انتہائی قابل اور ذہین شخصیات کو وابستہ کر لیا جن کی عقلمندی قابل رشک اور قابل مثال ہے ۔ یہ دونوں حکمران ہندوستان کو نصیب ہوئے ۔ ایک مہا راج بکرما جیت اور دوسرے مغل بادشاہ اکبر اعظم تھے ۔ دونوں نے نو، نو یعنی 9 مشیر مقرر کیے اور وہ اپنی سلطنت کے امور میں ان کی مشاورت کو لازمی قرار دیتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان دونوں بادشاہوں کی حکومت مثالی رہی ہے بلکہ ان کا دور سنہری دور قرار پایا ہے ۔ رتن ہندی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی خزانہ اور آنکھ کی پتلی ہے ۔ جبکہ ہندی میں 9 کا ہندسہ یا عدد بھی رتن کہلاتا ہے ۔ نو قسم کے قیمتی جواہرات جن میں ہیرا، موتی، زمرد، لعل ، نیلم، پکھراج، مونگا، لاجورد اور یاقوت شامل ہیں ۔ چناں چہ تاریخ میں صرف یہی 2 حکمران گزرے ہیں جنہوں نے اپنے شاہی دربار کو اس قسم کے ذہین اور قابل ترین شخصیات سے سجا رکھا تھا جو کہ ہیرے اور موتی کی طرح قیمتی جواہرات اور خزانہ کی مانند تھے ۔ یہاں پر قدیم ترین ہندوستان کے ہندو شہنشاہ مہاراج بکرما جیت اور مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کے نو رتنوں کے نام دیئے جا رہے ہیں ۔
بکرما جیت کے نو رتن ۔ عظیم شاعر کالی داس، دھن ونتری، کشپنک، امر سنگھ، شنکو، دررچی، دیتال بھٹ، کھٹکر پر، واہمر مہمہ ۔ اکبر اعظم کے نو رتن ۔ مرزا عبدالرحیم خان خاناں، خان اعظم عزیز مرزا کوکلتاش ہفت ہزاری، حکیم ابوالفتح گیلانی، ملک الشعراء ابوالفیض فیضی، موتمن الدولہ ابوالفضل، حکیم ہمام، راجہ ٹوڈر مل صدر دیوان، راجہ بیربل سہ ہزاری اور راجہ مان سنگھ پنج ہزاری ۔ اکبر نو رتنوں کے بارے میں بہت سے شعراء نے تعریفی اشعار بھی کہے ہیں حیدر علی آتش کے بقول
اک تحفہ ہفت کشور دہلی کا ہے ہمارے
نو آسماں ہیں اپنے اکبر کے نو رتن
جبکہ ایک اور شاعر نے کہا ہے کہ
نہ پوچھیئے میرے دل کا جوہر یہ لعل و یاقوت سے ہے بہتر
بنائیے اس کو اپنا زیور نگیں ہے اکبر کے نو رتن کا