*سراج الدولہ کے جرنیل آغا باقر اور شاہی رقاصہ خانی بیگم کے عشق کی داستان!
پانچ چھ سال کی عمر میں دادا جان کی انگلی تھامے جب بازار جاتے تو جو چیزیں میری ھاٹ فیوریٹ تھیں ان میں لچھا مٹھائ، قصائ سے بکرے کا گُردہ جو وہ ہمیں دادا جان کے ساتھ دیکھ کر اخبار میں لپیٹ کر دے دیا کرتا تھا۔ گھر لاکر دادا جان اس گردے میں نمک مرچ گودھ کر انگاروں پر سینک کر ہم کو دیا کرتے تھے اور تیسری پسندیدہ ترین چیز تھی باقر خانی۔ بیکری کے شوکیس میں ٹرے میں رکھی ھلکے براؤن رنگ کی کراری گول پرت دار باقر خانیاں۔ جن کے اوپر چینی کے دانے اور تِل چپکے ہوئے ہوتے تھے۔ میری فرمائش پر دادا جان بیکری والے سے دو عدد باقر خانیاں لیتے جن کو بیکری والا خاکی کاغذ کے لفافے میں ڈال دیتا۔ زرا سی دیر میں باقر خانیوں کا روغن لفافے کو چکنا اور داغدار کردیا کرتا تھا۔ مجھے باقر خانی کا کُرکُرا پن اور خستگی پسند تھی۔ کہتے ہیں کہ جن لوگوں کا بُرج جوزا ہوتا ہے اُن کو تلی ہوئ کُرکُری چیزیں زیادہ مرغوب ہوتی ہیں- اب واللہ اعلم اس میں کتنی سچائ ہے لیکن مجھے واقعی تلی ہوئ نمکین اور کُرکُری خستہ اشیا پسند ہیں۔ حتی کہ میں پیزا بھی باریک اور کرسپی کرسٹ والا پسند کرتا ہوں۔ تو بات ہورہی تھی باقر خانی کی کہ جب اس کا بائٹ لیا جائے تو گھی میں گندھے سوندھے میدے کی خستہ ورقی تہیں اور ساتھ کُرکُرا پن اور تل اور چینی کا ذائقہ باقر خانی کو میرا پسندیدہ بسکٹ بناتی ہیں۔ صبح ناشتے میں دیسی گھی کی خوشبو سے بسی باقر خانی کو چائے میں ڈبو کر کھانے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔
باقر خانی کو انگلش پف پیسٹری جیسا بسکٹ یا روٹی کی ایک قسم کہہ لیجئے جو تنور میں بنتی ہے۔ یہ ایک قسم کی کرکری پرت دار پتلی اور روغنی ٹکیا ہے، جو میدہ، گھی اور دودھ سے تیار کی جاتی ہے۔ عام طور پر اس کے اوپر خشخاش یا تل چھڑک کر پکایا جاتا ہے۔ یہ کراری خستہ تہوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس کا سوندھا ذائقہ اور خوشبو اسے دوسری روٹیوں سے ممتاز کرتا ہے۔ اس کی ہر تہہ منہ میں گھلتی جاتی ہے۔ باقر خانی عام طور پر ناشتے میں استعمال کی جاتی ہے۔ یہ ایسا ’’کھاجا‘‘ ہے جو پاکستان بھر میں کسی نہ کسی شکل میں دستیاب ہوتا ہے۔ کراچی میں بھی باقرخانی پائی جاتی ہے، مگر کراچی میں اس کا سائز ایک بڑے بسکٹ جتنا ہوتا ہے۔ اسے مزید خوش ذائقہ بنانے کیلئے اس پر چینی کے دانے چپکا دیئے جاتے ہیں۔ اکثر چائے کے کیفے اور ریسٹورنٹس کے کائونٹرز پر شیشے کی برنیوں میں کیک پیس، نان خطائی اور زیرے والے بسکٹوں کے ساتھ باقر خانی بھی سجی ہوتی ہے۔ عموماً اسے چائے یا دودھ میں ڈبو کر کھایا جاتا ہے۔ دیگر شہروں میں بھی باقر خانی، چائے کی سینی کی زینت بنتی ہے۔ مگر یہ کہنا بے جا نہیں کہ اصل ’’باقر خانی‘‘ لاہور کی سوغات ہے۔ صبح کے ناشتے کیلئے اسے دودھ کے بڑے پیالے یا چائے میں چورا چورا کر کے ڈال دیا جاتا ہے اور کچھ دیر کے بعد چمچے کے ساتھ تناول کیا جاتا ہے۔ اس کا ذائقہ، خوشبو اور لذت سے ہر لاہوری واقف ہے۔ لاہوری باقر خانی دراصل کشمیریوں کی مرہون منت ہے کہ اصل میں یہ کشمیریوں کا ناشتہ ہے۔ کشمیری نمکین چائے کے ساتھ باقر خانی لازم و ملزوم سمجھی جاتی ہے۔ بہت سی مذہبی تقریبات اور عرس و ختم شریف کے موقع پر بھی باقر خانیاں بطور تبرک کے بانٹی جاتی ہیں۔ کشمیری باقر خانی ایک بڑی گول ٹکیا کی صورت میں ہوتی ہے۔ جبکہ کچھ علاقوں کی باقرخانیاں کرکرے پراٹھے کی صورت میں ملتی ہیں۔ یہ نمکین اور میٹھے دونوں ذائقوں میں دستیاب ہے۔
مں بچپن سے سوچتا تھا کہ اسے باقر خانی کیوں کہا جاتا ہے؟ ایک بسکٹ کا نام کسی انسانی نام پہ بھلا کیسے ہوسکتا ہے ؟ پھر خود ہی سوچتا کہ شاید یہ باقر نامی کسی خان صاحب نے بنائ ہوگی! جب زرا بڑے ہوئے تو قیاس کیا کہ شایدشاھانِ اودھ کے زمانے میں اس پر امام باقرؓ کی نیاز دی جاتی ہو کیونکہ اکثر اسے محافل و مجالس میں بھی کاغذ کی تھیلیوں میں تقسیم ہوتے دیکھا ہے ۔ بعد میں کئ عالم فاضل حضرات سے پوچھا جو چائے کے ساتھ باقر خانیاں بڑے شوق سے کھاتے تھے لیکن جواب نہ مِل سکا۔ کئ کشمیری حضرات سے بھی معلوم کیا کہ جن کا تو ناشتہ ہی بڑی باقر خانی اور نمکین چائے ہوتی ہے لیکن کہیں سے بھی باقر خانی کی وجہ تسمیہ معلوم نہیں ہوسکی۔ لیکن بہرحال ہماری کھوج و جستجو جاری رہی اور ایک دن ایک بنگالی ویب سائٹ پر ہم کو باقر خانی کی پوری تاریخ اور وجہ تسمیہ مل گئ۔ جس کو ہم خانوں پٹھانوں اور ایرانیوں میں تلاش کررہے تھے وہ بنگال سے نکلی۔ اس دلچسپ حقیقت سے بھی شاذ ہی کوئی واقف ہو کہ دودھ، میدے، گھی، شکر، تل وغیرہ سے بنی اس تندوری ٹکیا کے نام کے پیچھے حسن و عشق کی ایک داستان پنہاں ہے۔ جی ہاں، باقر خان اور خانی بیگم کا قصہ محبت۔
بہت کم لوگ اس حقیقت سے واقف ہوں گے کہ باقر خانی کا اصل وطن بنگال ہے۔ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں باقر خانی اٹھارویں صدی کے وسط سے بنائی اور کھائی جارہی ہیں۔ ویسے تو تمام تندوری پکوان اور روٹیاں مغلوں کے دور حکومت میں برصغیر میں متعارف ہوئے۔ مثلاً نان خطائی، شیر مال، تافتان اور دیگر اسی اقسام کے نان ایران اور وسطی ایشیا سے ہندوستان میں وارد ہوئے تھے۔ روایات کے مطابق باقر خانی کا نام دراصل ایک شخص باقر خان کے نام پر رکھا گیا۔ نذیر حسین کی لکھی ایک کتاب ’’ڈھاکہ کنگ بدنتیر‘‘ میں لکھا ہے کہ آغا باقر خان نواب سراج الدولہ کے دور حکومت میں چٹاگانگ میں ایک فوجی جرنیل تھا۔ باقر خان ایک خوبصورت و طرحدار شاہی رقاصہ خانی بیگم کے عشق میں مبتلا تھا۔ ادھر خانی بیگم بھی باقر خان کی محبت میں دیوانی تھی۔ لیکن جہاں حسن و عشق ہو وہاں رقیب بھی اپنے روئے سیاہ کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ نواب کے ایک اور درباری افسر زین الخان نے بھی خانی بیگم پر اپنی نظر رکھی ہوئی تھی۔ جب اس کو تمام تر کوششوں کے باوجود خانی بیگم کا التفات حاصل نہ ہو سکا تو اس نے خانی بیگم کو اغوا کر کے قید کرلیا۔ باقر خان کو جب یہ خبر ہوئی تو وہ خانی بیگم کو اپنے زور بازو پر آزاد کروا لایا۔ ادھر بد نیت اور سازشی زین الخان بچ کر فرار ہوا اور روپوش ہو گیا۔ زین الخان کی گمشدگی سے یہ افواہ پھیل گئی کہ باقر خان نے زین الخان کو قتل کرکے اس کی لاش کہیں چھپا دی ہے۔ نتیجتاً باقر خان اور خانی بیگم کو گرفتار کر لیا گیا۔ باقر خان کو سزائے موت سنائی گئی اور اسے ایک شیر کے پنجرے میں ڈالنے کا حکم دیا گیا۔ باقر خان کو جب شیر کے پنجرے میں ڈالا گیا تو اس نے بہادری اور جوانمردی سے مقابلہ کیا اور شیر کو ہلاک کر کے فرار ہوگیا۔ دوسری جانب بد نیت زین الخان نے خانی بیگم کو دوبارہ اغوا کرلیا اور اپنے ناپاک ارادوں میں ناکام ہونے کے بعد طیش میں آ کر خانی بیگم کو قتل کر دیا۔ جب یہ خبر شہر میں پھیلی تو نان بائیوں نے آغا باقر خان اور خانی بیگم سے عقیدت کے طور پر باقر خان کی پسندیدہ روٹی کو باقر خانی کا نام دے دیا۔ ایک روایت کے مطابق آغا باقر خان نے خود اس روٹی کو باقرخانی کا نام دے کر اپنی محبت کی داستان کو امر کر دیا تھا۔ اس طرح باقر خانی ڈھاکہ سے بنگال اور پھر پورے برصغیر میں پھیل گئی۔
مختلف علاقوں کی باقر خانیاں بناوٹ اور ذائقے کے لحاظ سے تھوڑی بہت مختلف ہوسکتی ہیں۔ لیکن بنیادی اجزا میں وہی خمیری میدہ، سوجی، دودھ، گھی، چینی، اور تل یا خشخاش وغیرہ شامل ہیں۔ باقر خانی کی تیاری میں سب سے خاص بات اس کے آٹے کو گھی کے ساتھ تہہ در تہہ بیلنا ہوتا ہے۔ دوسری خاص احتیاط اس کو پکانے کا وقت ہے، کیونکہ ذرا سی بھی زائد آنچ سے اس کی باریک تہیں جل کر سارے ذائقے اور شکل کو برباد کر دیتی ہیں۔ آئندہ آپ جب بھی کبھی باقر خانی سے لطف اندوز ہوں تو آغا باقر خان اور خانی بیگم کی داستان محبت کو ضرور یاد کر لیجئے گا۔
کراچی والوں کو بتادوں کہ
تصاویر میں دکھائی دینے والی چھوٹی باقر خانی ہے جو باقر خانی کے نام پر بیکری اور چائے خانوں میں ملتی ہے جبکہ اصل باقر خانی کا سائز قلچہ کے سائز کا ہوتا ہے ۔ دستگیر فیڈرل بی ایریا میں جاوید دہلی نہاری کی گلی میں ایک پرانا نانبائی صبح قلچے اور شام کو باقر خانی بناتے ہیں وہی اصل باقر خانی ہے ۔ اب اس کی قیمت 12 روپے ہوگئی ہے ۔
نوٹ: باقر خانی پر یہ تحقیقی پوسٹ میں نے کوئ چار سال پہلے اپنی فیسبک پر لگائ تھی۔ دوسال پہلے روزنامہ امت کراچی نے بھی یہ میرے نام کے ساتھ شائع کی تھی۔ اس کے بعد بے شمار اخبارات، ویب سائٹس اور بلاگز نے اس کو اپنے نام کے ساتھ شائع کیا۔
بھارت کو بھی ہندو ریاست ہونا چاہئے تھا
اروند سہارن کے ساتھ ایک ویڈیو بلاگ میں، میں نے یہ بات کہی تھی۔ انہوں نے بتایا ہے کہ اس...