ایک معاصر کی خبر کے مطابق پاکستان دنیا کے سب سے زیادہ شراب پینے والے ملکوں میں آٹھویں نمبر پر ہے۔
(Daily Jang 3 March 2014-article by Ansar Abbasi)
کچھ عرصہ پہلے بتایا گیا تھاکہ فحش مواد دیکھنے میں اسلام کا یہ قلعہ سرفہرست ہے۔
یہ فہرست نامکمل ہے ، گوگل سے التماس کی جائے کہ ٹیکس چوری میں بھی ہمارا مقام متعین کرے۔ یہ بھی بتائے کہ اشیائے خورونوش میں ملاوٹ کے لحاظ سے ہم کہاں کھڑے ہیں۔ جعلی دوائیں بنانے اور فروخت کرنے میں بھی تو ہماری کوئی پوزیشن ہوگی! آخر دنیا میں کتنے ملک ایسے ہوں گے جہاں نوزائیدہ بچوں کے دودھ میں بھی کچھ ملایا جاتا ہے۔ تجاوزات سے جس طرح اس ملک کا چہرہ مسخ ہو گیا ہے، ویسا کسی اور ملک کا ہوا ہے یا اس میدان میں بھی ہم منفرد ہیں؟ ان سب باتوں کو چھوڑ دیجیے ، صرف دو سروے ایسے کرا دیے جائیں جو وعدہ خلافی اور دروغ گوئی میں ہمارا مقابلہ دنیا کے دوسرے ملکوں سے کرکے دیکھ لیں!
یہ تصویرکا ایک رُخ ہے ، دوسرا رُخ دیکھیے۔ یہ ملک دنیا میں اسلام کا قلعہ ہونے کا دعویدار ہے۔ یاد رہے کہ یہ دعویٰ سعودی عرب نے کیا ہے نہ ایران نے ، مصر نے نہ ترکی نے اور نہ کسی دوسرے مسلم ملک نے۔ پھر دیکھیے کہ دنیا بھر میں مسلمانوں پر جہاں بھی آفت آئے، پاکستان کو سب سے زیادہ قلق ہوتا ہے۔ بوسنیا سے لے کر افغانستان اور اب شام تک ہم دنیائے اسلام کا دفاع کرنے میں پیش پیش ہیں۔ پھر یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کوئی بھی مسلمان پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر آکر آباد ہو سکتا ہے اور نہ صرف آباد ہو سکتا ہے بلکہ ریاست اور ملکی افواج کو چیلنج بھی کر سکتا ہے۔ اس کے باوجود کسی میں ہمت نہیں کہ اسے اس ملک سے نکال دے۔اس ملک میں اسلامی مدارس کسی بھی اور مسلمان ملک سے زیادہ ہیں۔ دنیا بھر کے مسلمان دین کا علم پڑھنے یہاں آتے ہیں۔ سلمان رشدی نے بکواس کی ہو یا ڈنمارک میں کسی نے کفر بکا ہو، سب سے پہلے اور سب سے زیادہ احتجاج یہاں ہوتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ لوگوں کی بہت بڑی تعداد متشرّع شکل و صورت کی ہے۔
تو پھراس امر محال(Paradox)کا سبب کیا ہے؟ ایک طرف جرائم اور رذائل میں سرفہرست،دوسری طرف شکل وصورت کے لحاظ سے اور اسلامی عصبیت کے ضمن میں سب سے آگے؟
ہم سمجھتے ہیں کہ اس دو رُخی کے بنیادی طور پر چار اسباب ہیں۔ اول: جب یہ ملک بنا تو کسی نے یہ نہ سوچا کہ اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں سب سے پہلے فرد کو اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالنی چاہیے تاکہ اس ملک کا ہر شہری ایک ماڈل مسلمان ہو۔ اس کے بجائے فردکو بھٹکتا چھوڑ دیاگیا اور ریاست کو مسلمان کرنے کا بیڑہ اٹھا لیا گیا۔ مسلمان کی زندگی کا مقصد اپنے آپ کو آخرت کے لیے تیار کرنے کے بجائے اسلامی حکومت کا قیام ٹھہرا دیا گیا۔ جن افراد سے حکومت بننا تھی اورجن افراد نے ریاست چلانا تھی، اُن کا عملاً اسلام سے سروکار ہی نہ تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ فردکو تو درخورِ اعتناہی نہ سمجھا گیا اور ریاست اس کام کا بیڑہ اٹھانے والوں کی نظر میں مسلمان ہوئی نہ ہی حکومت۔ پھرطرفہ تماشا یہ ہوا کہ اسلامی نظام کے قیام کے لیے ہر جائز ناجائز طریقہ روا گردانا گیا۔ ماردھاڑ، قتل و غارت، سرکاری محکموں اور تعلیمی اداروں پر قبضے۔۔۔ سب کچھ ہوا اور اسلام کے نام پر ہوا۔
دوم: جو لوگ اپنی دانست میں دین کا علم حاصل کر رہے تھے، ان کی اکثریت کا مقصد اسے ذریعۂ روزگار بنانا تھا۔ اگرکوئی مدرسے میں پڑھ رہا تھا تو اس کا نصب العین یہ تھا کہ فراغت کے بعد کوئی مسجد سنبھالے گا یا مدرسہ کھولے گا۔کسی نے اگر اسلامیات یا عربی میں ایم اے کیا تو اس غرض سے کہ کالج میں لیکچرار لگ جائے گا۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ دین کا علم حاصل کرنے والا اپنا روزگارکسی اور حوالے سے اپناتااور پھر جو بھی ذریعۂ معاش ہوتا اس میںان اصولوں کا رنگ بھرتا جو اس نے دینی علوم کے ضمن میں سیکھے تھے، لیکن یہاں مذہبی علوم بھی اسی طرح روزگار کا ذریعہ بن گئے جیسے انجینئرنگ یا طب کا علم یا جیسے کارپنٹری۔ اپنے اوپر اسلام کا اطلاق کرنا مقصد رہا نہ ہی اس کا ہوش رہا۔ ساری کوششیں مسجد اور مدرسے کو اپنے خاندان میں رکھنے پر مرکوز رہیں۔
سوم: اسلام کو اقتدار حاصل کرنے کی سیڑھی بنا لیا گیا۔ اسلام کے نام پر انتخابات لڑے گئے۔ عقائد کی بنیاد پر سیاسی جماعتیں وجود میں آئیں۔ وزارتیں اور دیگر مناصب حاصل کرنے کے لیے جوڑ توڑ، وعدے وعید، دوستی دشمنی، مخالفت، سازش، خوشامد ہرحربہ روا رکھا گیا۔ جو رہنما تھے اور مذہب کے علم بردار تھے، جب وہی سیاسی مقاصد کے لیے وہی کچھ کرنے لگ گئے جو عام (غیر مذہبی)سیاسی جماعتیں کر رہی تھیں تو زندگیاں کس طرح بدلتیں؟ یہ تو ترجیحات میں شامل ہی نہ تھا!
چہارم: جن نیکوکاروں نے خلوص کو بروئے کار لاتے ہوئے دین کی دعوت کا کام کیا، بدقسمتی سے انہوں نے بھی سارا زور ظاہر پر دیا۔ اس قبیل کے فقرے فخر سے کہے جانے لگے’’فلاں اتنا بڑا افسر ہے لیکن ہمارے ساتھ آ ملا تو اب افسر لگتا نہیں ہے۔ فلاں فزکس میں پی ایچ ڈی ہے لیکن پی ایچ ڈی نہیں لگتا‘‘۔ ایسے نصابات بنائے گئے جو تسبیحات و عبادات سے آگے نہیں جاتے تھے۔ معاملات کو یکسر چھوڑ دیاگیا جیسے یہ ذمہ داری کسی اور کی تھی! ایسے عمومی نوعیت کے وعظ کیے گئے جن سے کسی تاجر پر زد پڑے نہ صنعت کارپر، کوئی سرکاری ملازم ناراض ہو نہ حکمران۔ اگر حکمرانوں کے پاس جا کر سمجھانے کا موقع بھی ملا تو عام وعظ کیا گیا، یہ نہ بتایا گیا کہ فلاں کام غلط ہو رہا ہے اور فلاں ظلم روا رکھا جا رہا ہے۔ ماں باپ کے حقوق، پڑوسی کے حقوق، تجارت میں دیانت داری کی اہمیت، جس ملک میں رہ رہے ہیں اس کے قوانین پر خلوص سے عمل پیرا ہونا، ملازمت ہے تو ایک ایک لمحے کا حساب رکھنا، یہ اور بے شمار دوسرے پہلو جو معاملات اور زندگی گزارنے سے متعلق تھے اور اسلام نے جن کے بارے میں طریقِ کار متعین کر دیا تھا، دعوت دینے والوں کے نزدیک کسی اہمیت کے حامل نہ تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ظاہر تبدیل ہوگیااورباطن جیسا ملگجا تھا ویسا ہی رہا۔کنویںسے پانی کے سینکڑوں بوکے نکالے گئے لیکن جو جانورکثافت کا منبع تھااندر ہی رہا۔
تو پھر تعجب کی بات ہی کیا ہے ، اگر یہ ملک جو اپنے زعم میں عالمِ اسلام کا رہنما ہے، شراب نوشی اور فحش بینی میں سرِفہرست ہے، جھوٹ اور وعدہ خلافی کو بُرا سمجھا ہی نہیں جاتا، منڈی ہو یا کارخانہ، دفتر ہو یا کچہری، تھانہ ہو یا میونسپلٹی، رشتہ دار ہو یا پڑوسی، ماں باپ ہوں یا اساتذہ، ہر شعبہ بگڑا ہوا ہے، ہر زاویہ ٹیڑھا ہے اور ہرتعلق مجروح!باجرا بوکر دھان نہیں کاٹا جاتا۔ جس گھر کے بچوں کے ہاتھوںمیں غلیلیں ہوں، اُس کے صحن میں درختوں پر فاختائیں آکر نہیں بیٹھتیں!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔