چھت پہ بنے کمرے سے نیچے فرش تک لال نیلی پیلی لائٹیں لٹک رہی تھیں اور جل رہی تھیں، چھت پہ لیٹنے والے سو چکے تھے اور باقی ماندہ مہمان، کمروں میں اور کچھ برآمدے اور صحن میں، یا تو ٹولیاں بنا کے گپیں ہانک رہے تھے یا اونگھ رہے تھے اور میں…میں شیروانی پہنے اور کُلّا بغل میں دابے اپنے کمرے کے اس دروازے کے باھر کھڑا تھا جس کے باھر گلاب کے سرخ پھولوں کی لڑیاں لٹک رہی تھیں اور دروازے کے اندر کمرے میں، سجے سنورے بیڈ پہ سرخ شادی کے جوڑے میں سجی سنوری ‘باجی’ تانیہ بیٹھی تھی
ہمارے گھر کے ساتھ دیوار سے دیوار جڑی تھی تایا رفیق کی، اور جو دیوار جڑی تھی اس میں دونوں گھروں میں بلا روک ٹوک آنے جانے کے لئے جگہ چھوڑ دی گئی تھی. میں بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا پھر واصف اور فائزہ تھے اور تایا رفیق کی دو ہی بیٹیاں تھیں بڑی تانیہ اور چھوٹی تنزیلہ.. باجی تانیہ مجھ سے تین سال بڑی تھی اور امی بتاتی تھیں کہ جب میں پیدا ہوا تھا تو باجی تانیہ ہر وقت مجھے گود میں لے کے بیٹھی رہتی اور میری چھوٹی چھوٹی انگلیوں سے کھیلتی رہتی اور اتنی چھوٹی چھوٹی انگلیوں پہ حیران ہوتی رہتی
بچپن سے ہی ہم سب کزنز آپس میں ہی کھیلا کودا کرتے تھے، ہماری دوستیاں باھر نہیں تھیں، ہم سب ایک دوسرے کے ساتھی تھے. باجی تانیہ چونکہ بڑی تھیں سو مجھ سمیت سب چھوٹے انھیں باجی ہی کہتے اور سمجھتے تھے اور ان کے لیے ہم سب چھوٹے بہن بھائی تھے
میں تب ایف جی کالج کھاریاں کے تیسرے سال میں تھا اور پچھلے تین سال سے میں بوائز ہاسٹل میں ہی رہ رہا تھا، جب چھٹیوں پہ گھر آئے دوسرا دن تھا کہ اماں، ابا، تایا رفیق اور تائی ثریا، برآمدے میں بیٹھے تھے اور مجھے بلا بھیجا تھا. میں پہنچا اور سب کو سلام کیا اور بیٹھ رہا. سب خاموش نظروں سے مجھے دیکھ رہے تھے اور میں سوالیہ نظروں سے ان سب کو. تائی ثریا اٹھیں، میرا ماتھا چوما اور “یہ میرا بیٹا ہے اب” کہہ کے مسکراتی بیٹھ گئیں.. مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس میں نیا کیا ہے، تایا اور تائی مجھے ہمیشہ بیٹا ہی کہتے تھے. میں نے سوالیہ نظروں سے اماں کو دیکھا تو اماں نے مسکراتے ہوئے واضح کیا کہ تمہاری اور تانیہ کی بات پکی کر دی ہے
میں جہاں تھا وہاں سے چارپائی کے نیچے سے زمین سرکنے لگی تھی، تایا کی میرے سر پہ پیار سے لگائی گئی چپت اور ان کی باقی باتیں کانوں کے گرد گھومتے مچھر کی بھن بھن جیسی سنائی دے رہی تھیں اور میرے اندر کہیں ‘تمہاری اور’ باجی ‘تانیہ کی بات پکی کر دی ہے’ کی گردان گونج رہی تھی
شام کو اماں ابا کے سامنے کھڑا میں اپنا مقدمہ لڑ رہا تھا کہ وہ باجی ہے میری اور مجھے ہمیشہ وہ چھوٹا بھائی سمجھتی ہے، آپ یہ کیسے سوچ سکتے ہیں.. مگر ابا اس بات پہ بضد تھے کہ شادی سے پہلے سب لڑکے لڑکیاں بہن بھائی ہوتے ہیں، شادی کے بعد سب بدل جاتا ہے اور مجھے یہ ہضم نہیں ہو رہا تھا
میں اس بات پہ اڑا تھا کہ باجی سے شادی کیسے ہو سکتی ہے، میرا ذہن نہیں مان رہا، یہ غلط ہے مگر ابا غصے میں آ گئے اور اپنی دلیل کی اخیر اس نکتے پہ کر دی کہ جب ہمارا دین اس کی اجازت دیتا ہے تو تُو کون اور میں کون
اور یہ دلیل نما شے ایسی تھی کہ جس نے میرا سارا مقدمہ یک مشت خارج کر دیا تھا
اور اب میں اس دروازے کے باھر کھڑا تھا جس کے باھر سرخ گلاب کی لڑیاں لٹک رہی تھیں. میں نے دروازہ کھولا اور کمرے میں بیڈ پہ سر جھکائے سرخ جوڑے میں وہ دلہن بنی بیٹھی تھی. دروازہ بند کر کے میں بیڈ کی طرف چلا تو ایسا لگا کہ جیسے میرے پاؤں کسی کیچڑ یا دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں، من من بھر کے قدم اٹھاتے میں بیڈ کے داہنی طرف بیٹھ گیا. میں نے کُلا ایک طرف رکھا اور سر جھکائے بیٹھ گیا. باجی تانیہ کا بایاں ہاتھ دو انگوٹھیوں اور مہندی کے پھول بوٹوں سے سجا باہنی ٹانگ پہ سامنے دھرا تھا. کافی دیر کی خاموشی رہی، سارے میں پرفیوم اور پھولوں کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی، سب ساکت تھا کہ پھر میں نے ہاتھ بڑھایا اور باجی تانیہ کے بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے کھیلنے لگا
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...