اسرائیلی ماہر آثارِ قدیمہ عزیل کے ساتھ ساتھ چلنا میرے لیے مشکل ثابت ہو رہا تھا کیونکہ دُبلے پتلے جسم کا یہ بندہ تنگ اور بل کھاتی سُرنگ میں تیزی سے چلتا جا رہا تھا۔ اور سُرنگ بھی ایسی جس میں جابجا پتھروں کی چٹانیں ابھری ہوئی تھیں۔ اس تاریک سرنگ میں روشنی کے نام پر ہمارے پاس صِرف اپنے سمارٹ فونز تھے اور میں سر پر پیلا ہیلمٹ پہنے جھکے جھکے چل رہا تھا۔ چلتے چلتے میرے آگے اسرائیلی ماہر اچانک ُرک گیا اور کہنے لگا ؛ “ میں تمھیں ایک دلچسپ چیز دکھانے لگا ہوں۔”
ٹوٹا پھوٹا رستہ ایک چٹانی زمین کے نیچے یروشلم کے پرانے شہر کی جنوبی سمت میں تھا۔ قدیمی یروشلم کا یہ علاقہ اب زیادہ تر فلسطینی رہائشیوں کے گھروں سے بھرا پڑا ہے ان گھروں کے نیچے یعنی زیر زمین قدرتی غاروں کی بھول بھلیاں ،کنعانی کے وقت کے پانیوں کے راستے ،اور رومن یادگاریں ہیں ۔ یہ راستہ 1890 میں دو برطانوی آثارِ قدیمہ کے ماہرین نے دریافت کیا تھا ( کھودا تھا ) میں عزیل کے پیچھے ابھی حالیہ کھودے گئے مقام پر پہنچا یہ اتنا بڑا تھا جتنا ایک ڈرائنگ روم ہوتا ہے ۔ ایک ستون کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اُس نے کہا “ یہ بازنطینی ستون ہے ۔” اس حصے کا فرش سنگِ مرمر سے بنا ہوا تھا ہم پانچویں صدی کے بنے ہوئے چرچ میں کھڑے ہوئے تھے۔
اس جگہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جہاں یہ چرچ بنا ہوا ہے، وہاں پُول اوو سیلوم کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ایک نابینا کو بینائی بخشی تھی۔ یہ معبد استعمال کے قابل نہیں تھا اس کی چھتیں گِر چکی تھیں اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ قدیمی عمارت شہر کے نیچے پھیلی زیرِ زمین سلطنت کا حصہ بن گئی۔ کھدائی کا یہ منصوبہ دنیا کا سب سے مہنگا اور سب سے زیادہ متنازع ہے۔ عزیل کے منصوبے میں دو ہزار سال پُرانی اور دو ہزار فیٹ لمبی اس گلی کو کھود نکالنا ہے جو کبھی حاجیوں/ یاتریوں، تاجروں اور دوسرے سیاحوں کو قدیمی فلسطین کے عجوبے “ جیوش ٹیمپل “ کی طرف لے کر جاتی تھی۔ 70 عیسوی میں جب رومن فوجیوں نے شہر پر چڑھائی کی تو یہ راستہ ملبے کی وجہ سے دب کر آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔عزیل کے بقول اس چرچ کی وجہ سے انھیں اپنی کھدائی کی سمت تبدیل کرنی پڑی ہے پہلے بھی کھدائی کرتے ہوئے وہ اور اسکی ٹیم یہودیوں کے مُقدس حماموں، ایک رومن عمارت اور ایک قدیمی اسلامی محل میں گھُس چکے تھے۔ اب ان تمام جگہوں کا نقشہ بنایا گیا ہے اور اس پر تحقیق کی گئی ہے۔
جب برطانوی کھدائی کے ماہرین نے چرچ میں اپنا رستہ بنایا تھا تب سرنگیں بنانا ایک عام طریقہ تھا۔ آج ماسوائے مخصوص حالات کے سرنگیں بنانا نہ صرف خطرناک سمجھا جاتا ہے بلکہ یہ غیر سائنسی بھی ہے۔ اگرچہ یہاں پر سطح ِ زمین سے نیچے تک کھدائی کرنا قریب قریب ناممکن ہے کیونکہ محض کچھ ہی گز اوپر لوگ رہائش پذیر ہیں۔ اسی لیے اس بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ماہرین کی پوری فوج دن کے سولہ گھنٹے دو شفٹس میں افقی رخ پر کھدائی (بورنگ) کر رہے ہیں۔
جیسے ہی وہ کھدائی کرتے تھوڑا آگے جاتے ہیں۔ عزیل اور اسکی ٹیم کھودی گئی جگہ کو مکمل نیچے تک کھودتے ہیں اس کھدائی کے دوران انھیں مٹی کے برتن، سکے، اور دوسرے نوادرات اور نمونے بھی مِلے ہیں ۔کچھ ماہرین کے نزدیک کُھدائی کا یہ بریقہ بڑا منفرد ہے تو کچھ کے نزدیک بالکل غلط۔ سرنگ کھودنے والے کاریگروں کے لیے بھربھری مٹی والی زمین کو نیچے گرنے سے بچانے کے لیے کافی تگ و دو کرنی پڑتی ہے جبکہ وہاں کے رہائشی جو ( اوپر ) رہتے ہیں وہ اپنے گھروں کو پہنچنے والے نقصانات کی شکایت کرتے ہیں ۔
یہ منصوبہ زیادہ تر یہودی آباد کاروں کی تنظیم کی طرف سےفنڈڈ ہے اور یہ مشرقی یروشلم کے حساس مقام پر ہے ۔ یہ وہ علاقہ ہے جس کو اسرائیل نے 1967 میں اپنے زیرِ تسلط کیا تھا( بین الاقوامی قوانین کے مطابق ایسی جگہ پر کھدائی غیر قانونی ہے ) ۔ یہودیوں کے نزدیک یہ ڈیوڈ ( حضرت داؤد علیہ السلام ) کا شہر ہے ۔ یہ وہ مقام ہے جہاں کنگ ڈیوڈ نے پہلا اسرائیلی دارلخلافہ بنایا تھا ۔
عزیل مجھے تنگ راستے سے لیتا ہوا ایک نئی سرنگ میں لے آیا۔ یہ جگہ رومن یروشلم کی مین سٹریٹ تھی جہاں حاجی اپنے آپ کو ایک تالاب میں پاک کرتے اور پھر عبادت گاہ کا رخ کرتے ۔ یہ راستہ کچھ عرصہ ہی موجود رہا ۔ دریافت شدہ سکوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایک بدنام زمانہ رومن گورنر نے 30 عیسوی میں ایک سیڑھیوں والا چبوترہ بنوایا جس کا نام پونٹئیس پائلیٹ Pontius Pilate یا اٹالین میں ( پونتیوس پِیلاتے ) ہے یہ وہ جگہ ہے جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر چڑھایا گیا ۔ بائبل میں لکھا ہے “ کہ سچ سامنے آکر رہتا ہے “ لیکن جو سوال یروشلم کو پریشان کئے ہوئے ہے وہ یہ ہے کہ کس کا سچ ؟ یہ شہر خدا کو ماننے والے تین بڑے مذاہب کا شہر ہے یعنی یہودیت ، عیسائیت اور اِسلام ۔ ( اِس کا مطلب یہ ہے کہ ) یہاں کی گئی کھدائی کے دور رس اثرات اور نتائج سامنے آسکتے ہیں ۔
زمین پر آثارِ قدیمہ کی کھدائی کے چند مقامات ہی ایسے ہوں گے جہاں پر کھدائی کے نتیجے میں ایک ایسی مقامی جنگ چھڑ سکتی ہے جوکہ پوری دنیا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے ۔ جب 1996 میں اسرائیلی حکومت نے مسلمانوں کی طرف والے پرانے شہر کی مغربی دیوار کی طرف ایک رستہ نکالا تو برپا ہونے والے خُونی فسادات میں 120 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ جھگڑا یہ ہے کہ مقدس جگہ ( Sacred Platform ) کی عملداری کِس کو کرنی چاہئیے ۔ یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ جگہ دی ٹیمپل ماؤنٹ ( Har HaBa Yit ) ہے جبکہ عرب مُسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ یہ جگہ حرام الشریف the Noble Sanctuary ہے ۔ اِس قضیے کو نبٹانے کے لیے اوسلو امن معاہدہ ہُوا ۔ ابھی حالیہ یروشلم میوزیم اوو ٹولرینس کی تعمیر بھی مُسلمانوں کی طرف سے شدید تنقید کی زد میں آئی کہ اِس تعمیر کے نتیجے میں بُہت سی قبریں تباہ ہُوئی ہیں ۔
یووال / یفال باروک / بروک ( Yuval Baruch ) ( جِس کے معنی ہیبُرو Hebrew زبان میں بلیسڈ یعنی مُبارک کے بنتے ہیں ؛) اسرائیلی نوادرات اتھارٹی ( IAA )کے سربراہ ہیں اور اُنھیں غیر رسمی اور غیر سرکاری طور پر زیرِ زمین یروشلم کے ناظم یا مئیر کے طور پر بھی جانا جاتا ہے اُن کا کہنا ہے ،
“ آثارِ قدیمہ اور اِس سے متعلقہ کُھدائی اِس قدر حساس معاملہ ہے کہ یہ صرف ماہرین تک ہی محدُود نہیں بلکہ سیاستدان اور عوام بھی اِس سے جُڑے ہیں ( اور یہ بسا اوقات کافی متنازع ہوجاتی ہے ) ۔ بروک کی سربراہی میں زیرِ زمین یروشلم کی کُھدائی کا منصوبہ دُنیا کا مصروف ترین آکیالوجیکل archaeological منصوبہ بن چُکا ہے جِس میں ایک سال میں ایک سو کے قریب کُھدائیاں کی گئی ہیں ۔
فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کی شکایت یہ ہے کہ اِس قدر مُسلسل کُھدائی کرنے کا مقصد مُسلمانوں کے چودہ سو سالہ پُرانی ثقافت اور اُس سے جُڑے ورثہ کو یہودی دریافتوں کے بوجھ تَلے دبانا بھی ہے ۔ یروشلم اِسلامی وقف کے تحت اِسلامی آکیالوجی کے ڈائریکٹر یُوسف کے مُطابق یروشلم کے نیچے کُھدائی محض سائنسی عِلم نہیں بلکہ یہ باقاعدہ ایک پولٹیکل سائینس ہے ۔یُوسف کا یہ اِسلامی وقف یروشلم میں موجود اِسلامی مُقدس مقامات کی دیکھ بھال وغیرہ کے اِنتظامات دیکھتا ہے ۔بروک بہرحال کُھدائی کے پیچھے کِسی بھی قسم کے تعصب کو سختی سے رَد کرتے ہُوئے کہتے ہیں کہ کنعانی ہو یا صلیبی Canaanite or Crusader ہر دور کو سائنسی انداز میں پرکھا جائے گا اور اُس کو سامنے لایا جائے گا اور جِس دور کا جتنا کریڈٹ بنتا ہُوا وُہ اُسی دور کو دِیا جائے گا ۔
لیکن اِس میں کوئی دُوسری رائے نہیں کہ چُونکہ یروشلم کا شہر اسرائیل کے زیرِ انتظام ہے اور کُھدائی کا تمام کام بھی اسرائیلی نگرانی میں ہی ہورہا ہے تو یہ کُھدائی عرب اسرائیل تنازعے میں ایک ہتھیار کے طور پر دیکھی جاتی ہے ۔ دو ہزار گیارہ میں اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہُوئے کہا کہ اُنھیں مغربی دیوار سے کُھدائی کے دوران ایک 2800 سال پُرانی مُہر والی انگوٹھی مِلی ہے جِس کے اُوپر اُن کا خاندانی نام “ نیتن یاہُو “ کُھدا ہُوا ہے اور یہ انگوٹھی یروشلم کے یہودی ماضی کی طرف واضح نشانی اور اِشارہ ہے ۔
یروشلم میں سیاست ، مذہب اور آثارِ قدیمہ بُہت لمبے عرصے سے آپس میں جُڑے ہُوئے ہیں ۔ 327 عیسوی کے آس پاس بازنطینی ملکہ ہیلینا Empress Helena کی سربراہی میں ایک رومن معبد گِرایا گیا ۔ ہیلینا نے جب اِس جگہ کا مُعائنہ کِیا تو یہاں تین عدد صلیب ( Crosses ) مِلے ۔ شہنشاہ کانسٹینٹائین کی عُمر رسیدہ ماں یعنی ملکہ ہیلینا نے بتایا کہ اِن میں سے ایک صلیب ( Cross ) اُس لکڑی سے بنایا گیا ہے جِس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صولی چڑھایا گیا تھا ۔ اِس کو اصل صلیب یا True Cross کہا جاتا ہے اور مسیحت نوادرات میں یہ سب سے زیادہ مشہور ہے ۔ تب جلد ہی یعنی قریب 336 عیسوی اِس جگہ پر مقدس مزار یا مرقد کا چرچ ( چرچ اوو ہولی سیپلکا ) یا Church of Holy Sepulchre تعمیر کِیا گیا تھا ۔
( برسیلِ تذکرہ اِس چرچ کو 614 عیسوی میں فارسیوں نے جلا دیا تھا جس کو دوبارہ 616 سے 626 عیسوی میں دوبارہ تعمیر کیا گیا ، خلیفہ الحکم بامراللہ نے 1009 عیسوی میں اِس کو گِرایا جِس کو بعد ازاں بازنطینی بادشاہ کونسٹینٹائین IX نے بحال کِیا ۔ )
اٹھارہ سو تریسٹھ میں یعنی تین سو چھتیس عیسوی میں اِس چرچ کی پہلی بار تعمیر کے تقریباً پندرہ سو سال بعد ایک فرانسیسی سکالر و سیاستدان جوسیف نے یہاں یعنی یروشلم میں پہلی کُھدائی کی ۔ اِس کُھدائی میں کئی معبد ، مقبرے وغیرہ دریافت ہُوئے ۔ اِس کُھدائی پر مقامی یہودی سخت ناراض ہُوئے اور رات میں اِس کی گئی کُھدائی کو دوبارہ بھر کر چلے گئے ۔
بہرحال جوسیف ڈٹا رہا اور اپنا کام کرتا رہا ، ( اِس کُھدائی کا پرمٹ عُثمانی خلیفہ نے جاری کِیا تھا ) اِس دوران اُسے ایک تابوت ( ملکہ ہیلینا ) مِلا جِس کو لُوور میوزیم پیرس بھجوا دِیا گیا ۔ اِس کے بعد دیگر یورپی ماہرین نے بھی ببلیکل آثار اور نوادر کی تلاش میں اِس شہر کا رُخ کِیا ۔ برطانیہ نے 1867 میں ایک ویلش نوجوان چارلس وارن کو یروشلم شہر کی سرزمین کے نیچے کُھدائی کے کام اور تحقیق کے لیے بھیجا ۔ چارلس وارن نے عُثمانی سلطنت کی نگاہوں سے اپنی تحقیق کو چُھپا نے کے لیے مقامی افراد کو اپنی ٹیم میں بھرتی کِیا ۔ اُس کے بنائے گئے نقشے بُہت دُرست اور باریکی سے بنائے گئے ہیں لیکن اُس کے اِس چوری چُھپے کام نے نے شہر کے مُسلمانوں میں آثارِ قدیمہ کے ماہرین پر بد اعتمادی کو ہوا دی جو آج بھی واضح ہے ۔
اٹھارہ سو سڑسٹھ میں چارلس وارن کی یروشلم میں کُھدائی کے ایک سو سال بعد یعنی 1967 میں جب عرب افواج سے چھ روزہ جنگ کے دوران اسرائیل نے مشرقی یروشلم بشمول پُرانے شہر پر قبضہ کِیا تو اسرائیلی آثارِ قدیمہ کے ماہرین نے بڑے پیمانے پر سائنسی انداز میں کُھدائیاں شُروع کِیں اور اپنے نئے حاصِل شُدہ مُلک کی قدیمی جڑوں تک پُہنچنے کی کوششوں میں جُت گئے ۔اِس دوران اُنھوں نے پہلی صدی کے رئیس یہود کے قصرات ، اُن کے نقش و نگار اور تصویروں سے مزین دیواروں کو کھوج نِکالا ۔ اِسی دوران بُہت لمبے عرصے سے گُمشدہ Nea Chruch ( New Church of the Theotokos ) بھی ڈُھونڈ نکالا جو ہولی سیپلکا کے بعد مسیحت میں دُوسرا بڑا اور اہم چرچ مانا جاتا تھا ، نہ صرف یہ بلکہ ابتدائی مُسلمان حُکمرانوں کی تعمیر کردہ کئی عمارات کے کھنڈرات بھی دریافت ہُوئے ۔
بہرحال بعض کُھدائیاں کُچھ زیادہ ہی مذہبی ثابت ہُوئیں جیسا کہ مغربی دیوار کے کُچھ حصوں میں ہیرڈ دی گریٹ کے معبد کی باقیات دریافت ہُوئیں ۔( Herod the Great ایک یہودی بادشاہ تھا جو رومن ایمپائیر کے تحت یہاں اپنی ہیرڈئین سلطنت کا نظام چلا رہا تھا ) یہ معبد اور پلیٹ فارم یہودیوں کے لئے بُہت مقدس جگہ ہے جہاں وُہ اپنی عبادات ادا کرسکتے ہیں ۔ اس جگہ کے آثار زمین سے باہر موجود ہیں اِسی لئے چھ روزہ جنگ کے خاتمے کے بعد مذہبی وزارت نے اِس جگہ کی مکمل کُھدائی کی ٹھانی ۔ اِس جگہ بنائی گئی ایک ٹنل اپنی لمبائی میں امریکہ کی ایمپائیر سٹیٹ بلڈنگ کی اُونچائی سے زیادہ لمبی ہے لیکن ایک اسرائیلی ماہرِ آثارِ قدیمہ کے مُطابق اُس وقت اِس کام کی اچھی طرح دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث اہم معلومات اور ڈیٹا ضائع ہوگیا ہے ۔ اِس سے مُسلمانوں کے خدشات کو مزید تقویت مِلی جو یہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کا اصل مقصد دیوار سے پار ہو کر مقدس پلیٹ فارم تک رسائی حاصِل کرنا ہے ۔
اُنّیس سو اکیاسی کی گرمیوں میں جب ریڈرز اوو دی لوسٹ آرک Raiders of the Lost Ark فلم سینماؤں پر لگی تو اِسلامی وقف کی طرف سے تعینات پہرے داروں نے ایک مشہور ربی rabbi ( رَبی یہودیوں کے عالم کو کہتے ہیں جیسے اسلام میں مولانا ، مولوی اور مسیحت میں فادر یا پادری ہوتا ہے ) کو صلیبی دور میں بنائی گئی زیرِ زمین دیوار کو توڑتے پایا ۔ رَبی کو یہ یقین تھا کہ یہ لوسٹ آرک (Ark of the Covenant) ( تابوتِ سکینہ ) ڈوم اوو دی روک ( the Dome of the Rock ) کے نیچے موجود ہے ۔ ڈوم اوو دی روک اسلام کی قدیم ترین اور مقدس ترین جگہوں میں سے ایک ہے ۔ ( بیت المقدس کی جو تصاویر اکثر آپ دیکھتے ہیں جہاں ایک سُنہرے رنگ کا گُبند نظر آتا ہے اُسے ہی ڈوم اوو دی روک کہا جاتا ہے ) ۔ بہرحال اِس کے بعد اسرائیلی وزیرِ اعظم میناچم Menachem ( ہیبرو زبان میں مناخم ) نے اُس گیٹ کو مکمل طور پر بند کرنے کا حُکم دِیا تاکہ یہ بات کہیں آگے چل کر بڑی لڑائی کی وجہ نہ بن سکے ۔
اس واقعہ کے پندرہ سال بعد اب یہودیوں کے غُصے کرنے کی “ باری “ تھی ۔ ہُوا کُچھ یُوں تھا کہ اِسلامی وقف نے جنوب مشرقی حصے کی جانب ایک خاصے بڑے سُتونوں والے ہال جِس کو “ سلیمان کے اصطبل “ ( Solomon’s Stables ) کہا جاتا تھا اُس کو ایک گرد آلود جگہ سے المروانی مسجد میں تبدیل کردیا ۔ بہرحال تین سال بعد اسرائیلی وزیرِ اعظم نے اِس مسجد میں آنے والے نمازیوں کے اجتماع کی حفاظت کے پیشِ نظر ایک اور خارجی راستے کی درخواست منظور کر لِی ۔ اِس پلیٹ فارم پر سیکیورٹی کنٹرول اسرائیل کے پاس ہے لیکن اسرائیلی آثارِ قدیمہ IAA کو اِس بابت کارروائی کا معلوم نہیں ہے ۔سلیمانی اصطبل کی اِس طرح بربادی پر اسرائیلی آثارِ قدیمہ کے ماہرین شکوہ کرتے ہیں اِس سے زیرِ زمین آرکیالوجی کے کام پر بھی بُرے اثرات مرتب ہُوئے لیکن ناظمی الجبیح جو ایک فلسطینی مورخ ہیں اُن کے مُطابق سارا کام اُن کی نگرانی میں ہُوا تھا اور جب اُنھیں لگا کہ اب بس کردینا چاہئیے تاکہ آرکیالوجیکل سطح محفوظ رہے تو اُنھوں عربی لفظ “ خلاص “ یعنی بس اِتنا کافی ہے کہہ کر کام وہیں ختم کروا دِیا تھا ۔ ( بہرحال دونوں اطراف کی طرف ایک دُوسرے پر بھروسے اور اعتماد کی شدید کمی ہے )
سَن 2004 میں ایک پرائیوٹ فنڈڈ پروجیکٹ شُروع کِیا گیا جو مٹی اور ملبے سے چھلنی کر کے مُختلف اشیاء اور نُمونوں کی جانچ پڑتال کے لئے شُروع کِیا گیا تھا ۔ ( یہ ملبہ سلیمانی اصطبل کے المروانی مسجد میں تبدیل کرنے کے دوران اسرائیلی پولیس نے قبضے میں لِیا تھا ۔ ) اِس وقت پانچ لاکھ مُختلف نُمونے جمع کئے جا چُکے تھے ۔ جب میں نے اِس پروجیکٹ کی لیب کا دورہ کِیا تو مُجھے کارڈ بورڈ کے ڈبوں میں مُختلف رنگوں کے سنگِ مَر مَر کے ٹُکڑے دِکھائے گئے ۔ آثارِ قدیمہ کے ماہر گبرائیل بارکے Gabriel Barkay کے مُطابق یہ ٹُکڑے جِیوش ٹیمپل کے ارد گرد پھیلے فرش سے متعلقہ تھے لیکن سیلگمین Seligman اور اُس کے دیگر ساتھیوں کی آرا کے مُطابق اِن سب کی قدر و قیمت بُہت کم ہوسکتی ہے کیونکہ اِن کی دریافت کے پیچھے اُنھیں پُورے حقائق معلوم نہیں تو یہ بھی عین مُمکن ہے کہ یہ کہیں بعد میں وہاں پھینکے گئے ہوں ۔
سردیوں کی ایک صُبح جب بارش ہورہی تھی میں نے مغربی دیوار کی سُرنگ میں داخل ہُوا ، اِس سے ذرا دُور پلازے میں سیاہ ہیٹ اور کوٹ میں ملبوس افراد کا ہُجوم تھا ؛ یہاں نیچے ( زیرِزمین ) استقبالیہ ہال ، عبادت کے لئے مخصوص ہال اور کُھدائی کے لئے مخصوص جگہوں کا ایک جال بچھا ہُوا ہے ۔ تہہ در تہہ ( یعنی ایک کے اُوپر دُوسری تہہ اور چھت جو ایک سہارے Cantilevered کے ذریعے ایک دُوسرے سے الگ کی گئی ہیں ) شیشے اور سٹیل کا بنا ہُوا سِناگوگ synagogue( یہودیوں کی عبادت گاہ ) ، وسطی اِسلامی عُہد کا مذہبی سکول ، رومن ادوار کے بیت الخلا ، اور حال ہی میں دریافت ہونے والا ایک چھوٹا سا تھیٹر بھی ہے ۔ قدیمی یروشلم میں پہلا دریافت شُدہ ، یہ دُوسری صدی عیسوی میں عیلیا کیپٹِولِینا Aelia Capitolina کے طور پر شہر کی بحالی کے دوران تعمیر کِیا گیا تھا ۔
میں ایک اور اسرائیلی ماہرِ آثارِ قدیمہ سے مِلا یہ شلومٹ ویکسلر بدولاہ تھی ، یہ جتنا تیزی سے چلتی تھی اُس سے زیادہ تیزی سے باتیں کرتی تھی ۔ “ ہم اِس وقت “ ویسٹرن ٹرائکلینئیم “ Western Triclinium میں کھڑے ہیں ، جِس کا مطلب رومن زبان میں کھانا کھانے کی جگہ ہے ، اِس کے ساتھ ہی مشرقی ہال ہے ۔”
شلومٹ کی تحقیق کے مُطابق یہ شاندار جگہ ایک صدی قبل مسیح میں مہمانوں کو شاندار طریقے سے وائین اور کھانے کھلانے کے لئے تعمیر کی گئی تھی ۔ جگہ جگہ سیسے کے پائپ بھی بنائے گئے تھے جو پانی کی پھواروں کو پھینکتے اور ایک دِلکش نظارہ پیش کرتے ۔ اِس دوران ایک انجنیئر سے ویکلسر بدولاہ کی اِس بات پر بحث ہوتی رہی کہ رومن زمانے کے پیلے رنگ کے پلاسٹر کو اُتارنا ہے یا نہیں ، اگر اُتارنا ہے تو کیسے ؟ ویکلسر کے مُطابق یہاں زیرِ زمین یروشلم میں اِس طرح کی بحث ایک معمول کی بات ہے کہ دورانِ کُھدائی کِس شے کو بچایا جائے اور کِس کی قُربانی دی جائے ۔
یروشلم میں ڈیڑھ سو سالوں سے جاری کُھدائی اور تحقیق نے کئی پُرانے خیالات اور دیومالائی دستانوں کو بڑی حد تک غلط ثابت کردیا ہے ، اب کئی ماہرینِ آثار قدیمہ بائبل کی کہانی میں بتائے گئی سولومون بادشاہ ( حضرت سُلیمان علیہ السلام ) کی بُہت بڑی اور عالیشان سلطنت اور عظیم دارالحکومت کی کہانی کو تسلیم نہیں کرتے ۔ اِس مشہور بادشاہ یا اِس کی سلطنت کا اشارہ یا نشان کِسی بھی کُھدائی کے دوران نہیں مِلا ۔ قدیمی یروشلم کوئی بُہت بڑا شہر نہیں تھا بلکہ یہ ایک چھوٹا سا پہاڑی قصبہ تھا ۔ ساتویں صدی عیسوی میں اسلام کی آمد نے کوئی اچانک ہی مسیحت اور اُس کے اثرات کو ختم نہیں کردیا تھا ، جیسا کہ بعض مورخ سمجھتے آئے ہیں ، ( نہیں ایسا نہیں ہُوا اور نہ ہی کِسی بھی مذہب یا طاقتور سلطنت کے لئے یہ مُمکن ہے کہ وُہ کِسی تہذیب کے آثار و اثرات کو کُچھ ہی عرصے یا سالوں میں ملیا میٹ کرسکے ) ۔ آج کی کُھدائی یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ اسلام کے دور میں بھی یہاں کے عیسائی شہریوں کی روزِ مرہ کی زندگی میں زیادہ تبدیلی نہیں آئی تھی ۔
البتہ کُھدائی نے بائبل میں موجود بعض اہم درباریوں ( حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سُلیمان کے درباریوں ) کے نام ضرور دریافت کئے ہیں جو بائبل میں موجود داستان ( کے بعض حصوں ) کو تقویت دیتے ہیں ۔ ملکہ ہیلینا کی دریافت کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ہولی سیپلکا چرچ کے مقام پر صولی دی گئی تھی اور وہیں اُن کو دفن کِیا گیا تھا ، اِس بات کو بھی آرکیالوجی مانتی ہے ۔
ہیبرو یونیورسٹی اوو یروشلم کے آثارِ قدیمہ کے ماہر ایلات مذر / مظر Eilat Mazar تو یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ اُنھوں نے یروشلم کے پہلے اسرائیلی بادشاہ ڈیوڈ ( حضرت داؤد علیہ السلام ) کا محل بھی دریافت کر لِیا ہے ۔ ہفتے کی ایک صُبح میں ایلات سے ڈیوڈ پارک میں مِلا ، وہاں قریب ہی پتھروں کی بنی ایک عمارت کے آثار موجود تھے ، یہاں سے مِلے مٹی کے نوادرات کی بدولت ایلات کا یہ ماننا ہے کہ یہ عمارت ایک ہزار سال قبل مسیح میں تعمیر کی گئی تھی ۔ اُس کے مُطابق عمارت کی تعمیر اور ہُنر مندی کو دیکھ کر یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ عمارت ( محل ) کنگ ڈیوڈ کے عِلاوہ کوئی اور تعمیر نہیں کرواسکتا کیونکہ اُن کا ہی وژن اِتنا شاندار ہوسکتا تھا اور یہ سب بائبل میں لکھی داستان کے مُطابق ہے ۔
ایلات کی 2005 میں کی گئی دریافت سے خبروں میں کافی سُرخیاں بنی تھیں اور اُن کے کام کو خُوب سراہا بھی گیا تھا لیکن اُن کے بعض کولیگز ایلات مٹی کے نوادرات پر زیادہ بھروسہ کررہی ہیں جبکہ جدید سائنسی ذرائع جیسا کہ ریڈیو کاربن ڈیٹنگ سے اِن کو چیک نہیں کِیا گیا ، اِس کے عِلاوہ وُہ بائبل میں لکھی باتوں کو مَن و عن دیکھ اور سمجھ رہی ہیں جو دُرست طریقہ کار نہیں ہے ۔اِس لئے اِس عمارت کو کنگ ڈیوڈ کے محل کی باقیات قرار دینا مُناسب نہیں ۔
ایلات کا مگر یہ کہنا ہے کہ میں صرف حقائق پر یقین رکھتی ہُوں ، اُس کی آواز میں تھوڑی سی تلخی تھی جب میں نے یہ تمام اعتراضات اس سے ڈسکس کیے مزید اُس کا یہ کہنا تھا کہ لوگ کِس بات پر یقین کرتے ہیں یہ ایک الگ معاملہ ہے ویسے بھی لوگوں کو نئی بات کو قبول کرنے میں وقت لگتا ہے اور میں اتنا انتظار نہیں کرسکتی ۔ ایلات شمالی طرف کُھدائی کرنے کے لیے بہت بے چین ہے جہاں اُس کا ماننا ہے کہ کنگ ڈیوڈ کے بیٹے کنگ سولومن ( حضرت سلیمان علیہ السلام ) کا مشہور محل موجود ہے مجھے یقین ہے کہ یہ یہاں ہی ہے اس کی آواز میں ایک یقین تھا ۔ ہمیں یہ جگہ کھودنی ہوگی ۔
وُہ اس جگہ پر کھدائی کے لیے IAA کو باقاعدہ درخواست دے کر اجازت طلب کرنے کے پروسیس میں ہے ۔ اب آئی اے اے اس کو اجازت دے پاتی ہے کہ نہیں یہ ان پر منحصر ہے ۔ لیکن آئی اے اے کے ڈائریکٹر بروک کے مطابق کُھدائی کی اجازت حاصل کرنے کے لیے آپ کے پاس مضبوط شواہد اور متعلقہ معلومات و تحقیقات ہونی چاہئیں ، محض دریافت شدہ سِکوں کے بَل پر اِس کی اجازت دینا ممکن نہیں “ ایلات از ناٹ ان دی گیم “
بہر حال اس کُھدائی کو سِرے سے نہ کر دینا آسان نہیں ہوگا ۔ Yuval Gadot کے مُطابق یہ کُھدائی شہر کے پچھلے چھبیس سو سالوں کی تاریخ کو کھوجنے کے لیے ضروری ہے ۔ قدیم اسلامی دور سے لے کر رومن دور تک اور رومن دور سے آئرن ایج کی عمارات تک اور پانچ سو چھیاسی قبل مسیح میں بابل کی تباہی تک بہت کچھ ڈھونڈنا باقی ہے ۔ کام کا بہت سارا حصہ لیبارٹریز میں کیا جا رہا ہے ، جہاں پر اسلامی دور کے کوڑا پھینکنے والی جگہوں سے ملنے والے پیرا سایٹس سے لے کر سونے کے زیورات کے پیچیدہ ڈیزائن اور یونانی دور کے ابتدائی دنوں پر تحقیقی کام جاری ہے ۔ جلد ہی یہ کُھدائی سیاحوں کے لیے کھول دی جائے گی اور ماہرین کے مطابق یہاں پر پُوری دنیا سے سیاح آئیں گے جس سے اس چھوٹی سی جگہ کو بُہت فائدہ ہوگا ۔
جہاں کُھدائی والی سائیٹس ہیں وہاں پر رات کو لیزر لائیٹس کے شو ہوتے ہیں ، لیزر لائیٹس کے اِس شو کے دوران شو کے منتظمین کی جانب سے با آوازِ بُلند مُختلف قسم کی بیان بازی بھی جاری رہتی ہے جیسا کہ “ یہیں سے یہ سب شُروع ہُوا تھا اور یہیں یہ جاری ہے ، صیہونیت واپس آگئی ہے ۔ “
اِس سب کے پیچھے سٹی اوو ڈیوڈ نامی تنظیم ہے جِس کو سابق اسرائیلی مِلٹری کمانڈر ڈیوڈ بِیری نے 1980 میں قائم کِیا تھا ۔ اِس گروپ کے ( طاقتور ممالک کے ساتھ ) گہرے سیاسی تعلقات ہیں ۔ اِسی تنظیم کی جانب سے اِس جگہ کُھدائی کے کام کو فنڈ کِیا گیا ہے جبکہ اِس کے ساتھ ساتھ غیر مُلکی اور اسرائیلی یہودیوں کی طرف سے بھی عطیات دئے جاتے ہیں ۔ پچھلے سال جون میں امریکن سفیر ڈیوڈ فریڈمین نے ہتھوڑا مار کر عزیل ٹنل کا افتتاح کِیا ، اِس موقع پر امریکہ کے مشرق وسطیٰ کے سفیر ڈیوڈ فریڈمین نے فلسطین کی جانب سے اِس تقریب پر تنقید کو مضحکہ خیز قرار دِیا ۔
جب میری مُلاقات اِس گروپ کے نائب صدر سے ہُوئی تو وُہ اِس پروجیکٹ کو لے کر بُہت پُرجوش تھا اور اُس کا دعویٰ تھا کہ اگلے دس سالوں میں یہ جگہ آرکیالوجی کے حساب سے دُنیا میں اوّل نمبر پر ہوگی ۔
بہرحال مقامی دُکاندار عبدیُوسف کے مُطابق یہاں اِس علاقے میں اب زیادہ سیاح نہیں تھے ، پہلے کافی آتے تھے لیکن اب ایک تو سیاحوں کی آمد میں کمی واقع ہُوئی ہے اور دُوسرا جو بھی سیاح آتے ہیں اُن کو یہ ( یہودی ) اپنی دُکانوں پر لے جاتے ہیں ۔ اُس کی دُکان کی ایک دیوار پر گہری دراڑ پڑی ہُوئی تھی اور اُس کا کہنا تھا کہ زیرِ زمین کُھدائی کی وجہ سے اُسے اپنی دُکان کا دروازہ تین بار تبدیل کرنا پڑا ہے ۔
سٹریٹ کی دُوسری طرف میں انگلش ٹیچر سحر عباسی سے مِلا جو وادی Hilweh کے سینٹر برائے معلومات میں ڈپٹی ڈائیریکٹر بھی ہے ۔ سحر عباسی کا کہنا تھا کہ کُھدائی کی وجہ سے اِس علاقے میں چالیس کے قریب گھر متاثر ہُوئے ہیں جِن میں سے پانچ خاندانوں نے یہ جگہ اور اپنے گھر غیر محفوظ ہونے کی وجہ سے چھوڑ دئے ہیں ۔ اسرائیل کے منصوبے کے مُطابق اگر یہ ہمیں زمین کے اُوپر سے کنٹرول نہیں کرسکے تو اب یہ زمین کی سطح سے نیچے ہمیں کُھدائی کرکے یہاں سے بھگانا چاہتے ہیں ۔
میں عرفات حامد سے بھی مِلا ، عرفات حامد ایک باربر ہیں جو اب اپنا کام چھوڑ چُکے ہیں اُن کے مُطابق اُن کے گھر کا بیرونی باورچی خانہ کُھدائی کی وجہ سے گِر کر تباہ ہوگیا ہے اور گھر کے اندر بھی دیواروں پر دراڑیں پڑ گئی ہیں ۔
بہرحال اسرائیلی حُکام اِن تمام باتوں کو مکمل طور پر رد کرتے ہُوئے کہتے ہیں کہ گو وُہ زیرِ زمین اور لوگوں کے گھروں کے نیچے کُھدائی کررہے ہیں لیکن اُن کی ٹیکنالوجی اِتنی اچھی ہے کہ اِس سے اُوپر موجود گھروں کو کوئی نُقصان نہیں پُہنچ سکتا ۔
واپس آنے سے پہلے مُجھے مُجھے اسرائیلی حُکام کی جانب سے ایک سرد ای میل موصول ہُوئی جِس میں یہ کہا گیا تھا کہ میں اپنا تمام کام اُن کو تحریری طور پر بھیجوں تا کہ وُہ یہ دیکھ سکیں کہ اِس میں کِسی اسرائیل مُخالف تنظیم یا گروپ کی طرف سے اسرائیل مُخالف بیان تو موجود نہیں تا کہ ایسے افراد یا گروپ ہمارے پلیٹ فارم کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال نہ کر سکیں ۔ میں نے اُن سے رابطہ کرنے کی کافی کوشش کی لیکن وہاں سے کوئی جواب نہیں آیا ۔ بہرحال اِسلامی وقف کے ڈائیریکٹر یوسف سے میرا رابطہ ہُوا ، اُن کا یہ کہنا تھا کہ کُھدائی کا کام اور فلسطینیوں کو یہاں سے ہٹانے کا منصوبہ دونوں آپس میں باہم جُڑے ہُوئے ہیں اور یہ کُھدائی کا سارا کام اِسی منصوبے کا حِصہ ہے ۔
( میری اپنی رائے میں ) یروشلم کے نیچے کیا موجود ہے اِس ضمن میں کِسی ایک طرف کا موقف نہیں مانا جا سکتا ہے ، شہر کی تاریخ اِس قدر بڑی اور وسیع ہے کہ کِسی ایک طرف چاہے وُہ یہودی ہوں ، عیسائی ہوں یا مُسلمان ، کِسی بھی ایک کا موقف مکمل طور نہیں مانا جاسکتا ۔ جِس طرح ملکہ ہیلینا اپنے وقت میں شہر سے غیر مسیحی تہذیب کے نشانات مکمل طور مِٹا نہیں سکیں تھیں ، جیسے رومن یہودیوں کے نشانات اور اثرات کو مکمل طور پر ختم نہیں کر پائے تھے یا جِس طرح مُسلمان حُکمران صلیبیوں کے قبضے کی علامات کو بالکل ختم نہیں کر پائے تھے بالکل اِسی طرح اِس شہر پر جِس کا بھی قبضہ رہا ہو یا رہے گا وُہ پچھلی تہذیبوں اور ادوار کے نشانات ، تہذیب و تمدن کو کبھی بھی مکمل طور پر ختم نہیں کرسکتے ۔ سیاسی یا مذہبی جو بھی ایجنڈا ہو سچ کو دبایا یا چُھپایا نہیں جا سکتا ۔
ویکسلر کے مُطابق یروشلم پر جِس کی بھی حُکمرانی رہی ہے اُس نے یہی کِیا ہے ، اُس نے اپنی تعمیرات کی ہیں اور اپنا جھنڈا اُونچا کِیا ہے لیکن سب سے خاص بات اور یاد رکھنے والی چیز یہ ہے کہ اِس شہر پر جِس کا بھی قبضہ ہو وُہ اپنے قبضے سے پہلے کے ماضی کو مِٹا نہیں سکتا ۔