بیرونِ ملک پاکستانی ووٹ ڈالنے کیلئے تیار ہوجائیں
انٹر نیٹ ووٹنگ کے بارے میں کچھہ معلومات
14 اکتوبر کو 37 حلقوں میں ضمنی انتخابات ہونے ہیں. ان میں پہلی بار تارکین وطن کو بھی ووٹ ڈالنے کا موقع دیا جارہا ہے.اب دیکھتے ہیں کتنے لوگ ووٹ ڈالتے ہیں اور نتائج پر ان کا کیا اثر ہوتا ہے.
یہ انتخابات قومی اسمبلی کے 11 حلقوں این اے 35 بنوں ، این اے53اسلام آباد، این اے 56 اٹک، این اے 60 راول پنڈی ، این اے 63 راولپنڈی،،این اے 65 چکوال، این اے 69گجرات،این اے 103فیصل آباد ،این اے 124لاہور،این اے 131لاہور، اور این اے 243کراچی ، پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی اٹک3،پی پی 27 جہلم،پی پی 87 میانوالی، پی پی 103 فیصل آباد ،پی پی 118 ٹوبہ ٹیک سنگھہ،پی پی 165 لاہور، 164 لاہور، پی پی 201 ساہیوال،پی پی 222 ملتان،پی پی 261 رحیم یار خاں،پی پی 272 مظفر گڑھہ،پی پی 292 ڈیرہ غازیخاں اور پی پی 296 راجن پور، خیبرپختونخوا اسمبلی کے حلقہ پی کے 3 سوات، پی کے 7 سوات،پی کے 44صوابی، پی کے 53 مردان، پی کے 61 نوشہرہ، پی کے 64 نوشہرہ، پی کے 78 پشاور،پی کے 97 ڈیرہ اسماعیل خاں اور پی کے 99 ڈیرہ اسماعیل خاں ،سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس 87 ملیراور پی ایس 30 خیر پوراور بلوچستان اسمبلی کے حلقہ پی بی 35 مستونگ اور پی بی 40 خضدار میں ہوں گے۔
ہمارے کولیگ ارشد وحید چودھری بتاتے ہیں ۔۔۔ الیکشن کمیشن نے اوور سیز پاکستانیوں کے انٹرنیٹ کے ذریعے تجرباتی بنیادوں پر انتخابات میں حصہ لینے کیلئے 15 کروڑ روپے کی لاگت سے ایک خصوصی سافٹ ویئر ڈیزائن کیا جس کی سپریم کورٹ میں پریزنٹیشن بھی دی۔ پٹیشنز کی سماعت کے دوران اس سسٹم کے ٹیکنیکل آڈٹ کیلئے سپریم کورٹ کے حکم پر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین پر مشتمل ایک ٹاسک فورس قائم کی گئی جس نے انتیس صفحات پر شتل رپورٹ میں نہ صرف متعدد نقائص کی نشان دہی کی بلکہ اس خطرے سے بھی آگاہ کیا کہ مجوزہ انٹرنیٹ ووٹنگ کے نظام کو ہیک کر کے انتخابی نتان میں تبدیلیاں کی جاسکتی ہیں۔ عدالت عظمیٰ کو یہ بھی بتایا گیا کہ اس نظام میں بیلٹ پیپر کو خفیہ رکھنا یقینی نہیں بنایا جا سکے گا جو کہ آئین پاکستان اور انتخابی قوانین کا تقاضا ہے جبکہ پاکستان مخالف حکومتیں اور انٹیلی جنس ایجنسیاں اس سافٹ وئیر پر سائبر حملے بھی کرسکتی ہیں۔ یہ خدشات بھی ظاہر کئے گئے کہ اس سسٹم میں ووٹوں کی خرید وفروخت ہوسکتی ہے اور الیکشن کمیشن ایسے کسی عمل کی تحقیقات بھی نہیں کر سکے گا، رپورٹ میں یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا کہ مجوزہ سافٹ وئیر میں درکار سیکورٹی فیچرز بھی موجود نہیں ہیں جس کے باعث نہ صرف مقامی سیٹ پر ہیکنگ ہوسکتی ہے بلکہ ووٹنگ کے نتائج کو بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اس ٹاسک فورس نے انٹرنیٹ ووٹنگ کے نظام کونا قابل اعتماد قرار دیتے ہوئے اوورسیز پاکستانیوں کے رائے شماری میں حصہ لینے کیلئے پوسٹل بیلٹ یا متعلقہ سفارتخانوں میں بیلٹ پیپرز کے ذریعے ووٹ ڈالنے کا انتظام کرنے کی سفارش کی۔ سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران بھی شعبے کے ایک ماہر نے معزز عدالت کو یہ بھی بتایا تھا کہ امریکہ، آسٹریلیا، ہالینڈ، فرانس، جرمنی اور ناروے میں اس طرح کے سافٹ وئیر کے استعمال کے دوران ہزاروں کی تعداد میں آن لائن ووٹوں کے ہیک ہونے کی وجہ سے انٹرنیٹ ووٹنگ کو متروک کر دیا گیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے عدالت عظمیٰ میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ اگرچہ وہ اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کی حامی ہیں لیکن جلد بازی میں اس نظام کو عام انتخابات 2018ء میں استعمال نہ کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے ماہرین کی رپورٹ ، الیکشن کمیشن، نادرا اور سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کی آرا سننے کے بعد 25 جولائی کے عام انتخابات میں اس تجربے کی اجازت دینے سے گریز کیا تھا تاہم اب متعلقہ پٹیشنز پر فیصلہ جاری کرتے ہوئے نادر اور ایکشن کمیشن کو متعلقہ نظام میں تمام نقائص دور کر کے 14 اکتوبر کومنعقد ہونیوالے ضمنی انتخابات میں انٹرنیٹ ووٹنگ کے پائلٹ پروجیکٹ پرعمل کرنے کرنے کی ہدایات دی ہیں۔ الیکشن کمیشن نے انہی ہدایات کی روشنی میں اوور سیز پاکستانیوں کے چودہ اکتوبر کے ضمنی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کویقینی بنانے کیلئے نادرا اور وزارت خارجہ کی معاونت سے کئے جانیوالے اقدامات کی ٹائم لائن مقرر کر لی ہے۔ اس کے تحت پولنگ ڈے سے پہلے ٹاسک فورس کی سفارشات پرعمل در آمد الیکشن کمیشن کے سامنے سافٹ وئیر کے استعمال کے تجربے، انٹرنیٹ ووٹنگ کیلئے متعلقہ علاقوں اور بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کی نشان دہی ، ووٹر فہرستوں کی دستیابی، اوورسیز پاکستانیوں کی رجسٹریشن، اوورسیز ووٹرز کیلئے آگاہی مہم، متعلقہ ہائی کمشنرز کے سامنے سافٹ وئیر کا تجربہ ووٹرز کیلئے آئی ووٹنگ ٹیسٹ اور کال سینٹر سپورٹ کے قیام جیسے اقدامات کئے جائیں گے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“