(حیدر آباد ) ادبی ثقافتی تنظیم رابطہ کے زیر اہتمام ایک مذاکرہ مقامی ہوٹل میں زیر صدارت سابق صدر شعبہ اردو سندھ یو نیورسٹی مرزا سلیم بیگ منعقد کیا گیا۔ تلاوت کلام ربانی کے بعد امین جالندھری نے اپنا مضمون “صدا کا سمندر” پیش کیا۔ جس میں متعدد اشعار کے ذریعہ سے حیدر قریشی کی تخلیقی جہات پر مبنی وہبی قوت پر گفتگو کی گئی اور ان کی شاعری کو جدید دور کے عین مطابق قرار دیا گیا۔ اور ان کی مہارت شعری جا بجا چونکا دیتی ہے۔ امین جالندھری نے اپنے مضمون کا اختتام اس ماہیے پر کیا
نہیں ہم نہیں روئے تھے
چاند کی کرنوں میں
کچھ موتی پروئے تھے
پروفیسر عبد اللطیف انصاری نے کہا کہ یہ مضمون سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی ہے۔ حیدر قریشی کی شاعری بلا شبہ سراہے جانے کے قابل ہے۔ پروفیسر عطاء الحق نے کہا کہ میں نے حیدر قریشی کی شاعری سے بہت “حظ” حاصل کیا ہے۔ ان کے یہاں ادبی رچائو نے عجب رنگ باندھا ہے ۔ معروف شاعر رشید شارب نے کہا کہ حیدر قریشی کی شاعری پڑھ کر اندازہ ہوا کہ اصحاب نے ان کی بے جا طرف داری نہیں کی۔ بلا شبہ ان کی شاعری محبت آشنا ہے۔ مجھے ان کا یہ شعر پسند آیا :
تمہارا حسن خداد داد تو نہ رہ پایا
مگر فقیر کا حسن خیال باقی ہے
جناب عارفین نے کہا کہ حیدر قریشی کے فن میں انتہائی قوت اور جاذبیت ہے۔ ان کی شاعری کے پڑھنے کا مزا ساون رت میں ہے۔
پتھر کے لوگ سارے
جادو کے شہر میں ہوں
معروف ادا کار، صدا کار ثقلین رضوی نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ میں نے حیدر قریشی کی شاعری کی کتاب “قفس کے اندر” کو پڑھا ہے۔ ان کے یہاں جذباتی معاملات میں بھی دھیما پن پایاجاتا ہے۔ جو دلوں کو مسخر کرتا ہے۔ میں رابطہ کو اک اچھی تقریب برپا کرنے پر مبارک باد دیتا ہوں۔ استاذالشعراء غیور محمد غیور نے کہا کہ میں نے بڑے اشتیاق سے حیدر قریشی کی شاعر ی کو پڑھا ہے اس میں ندرت خیال، جدت اور تخلیقی ہنر مندکا خاصا خیال رکھا گیا ہے۔ انکی شاعری دلوں کو مسرت اور شادمانی عطا کرتی ہے۔ وہ خاموشی سے قرطاس پر پھول اگاتے ہیں جس پر دل اش اش کر اٹھتا ہے۔
حوصلہ دیکھ اک اسیر خاک
آسماں کی زمین ڈھونڈھتا ہے
صابر ایچ راجپوت نے کہا کہ حیدر قریشی محنت کرنے والے دلوں کے قریب رہے ہیں ۔ ان کی شاعری اثر پذیری کی حامل ہے اندازِ فکر مسرتوں کا امین اور چاند ستاروں کو ان کے فن میں دلکشی اور حسن نظر آئیگا ۔ ان کی شعری بنت توانا اور مضبوط ہے۔ رضا خاں نو جوان علم دوست نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ حیدر قریشی کی شاعری حسن و عشق کے علاوہ بھی بہت سی جہتوں سے ہمکنار کرتی ہے۔ اس لئے ان کی شاعری محبت کا قیمتی اثاثہ ہے۔
پروفیسر حسن راشد صدر شعبہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی نے کہا کہ : میں خود کو ان خوش نصیب لوگوں میں پاتا ہوں جن کو کتاب کے مطالعے سے فرحت اور تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ ان کے ہاں الفاظ و تراکیب کا خوب صورت استعمال موضوعات کا تنوع جذبات کی سادگی ، تجربات کا اظہار مشاہدات کی سلیقہ مندی اور مطالعے کا نچوڑ پیش کیا ہے۔
صدرمجلس پروفیسر مرزا سلیم بیگ نے صدارتی خطبے میں ارشاد فرمایا کہ حیدر قریشی مشرق و مغرب کے سفیر ہیں ان کااردو کلام دونوں تہذیبوں کا سنگم ہے۔ مشر ق کا شاعر مغرب میں بیٹھ کر شاعری کر رہا ہے ااور اسے وہاں پذیرائی ملنا مستقبل کے منظرنامے کو واضح کرتا ہے۔ جرمنی اردو کا اک مرکز ہے۔ رابطہ کی اس نشست میں رابطہ کے روحِ رواں امین جالندھری نے حیدر قریشی جیسے شخص و شاعر کے لئے تقریب سجائی ہے۔ جس سے اردو زبان کی عالمی سطح پر پیش قدمی کا بھر پور تعارف حاصل ہوا ہے۔ میں تمام شرکاء مجلس سے کہوں گا کہ وہ آج کے حاصل مطالعہ کو اپنے اپنے حلقہ احباب میں پیش کریں اور اردو کے عاشق کی ہمہ جہت کارکردگی کو خراجِ تحسین پیش کریں، بلا شبہ حیدر قریشی کی خدمات جلیلہ سے انکار ممکن نہیں ہے، وہ بلا شبہ اک مستند شاعر اور دانش ور ہیں۔ (رپورٹ: امین جالندھری)
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...