ہمارے معاشرے میں سائنس کو محض ایک پاس ہونے کا سبجیکٹ سمجھا جاتا ہے۔ آپ میٹرک سے لیکر کالج و یونیورسٹی کے لیول تک یہ دیکھیں گے کہ سائنس کو سنجیدگی سے پڑھنے اور پڑھانے والے بہت کم ہونگے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ روزمرہ کی کم و بیش ہر شے میں سائنس کا عمل دخل ہے مگر ہمارا بیشتر طبقہ اکیسویں صدی میں رہ کر بھی سائنس کی نت نئی معلومات، ایجادات اور دریافتوں کے بارے میں نہیں جانتا۔۔ آپ نے کبھی غور کیا کہ ہم جانوروں پر تصرف کیسے حاصل کرتے ہیں؟ اس لئے کہ ہم اُن سے زیادہ علم اور زیادہ عقل و شعور رکھتے ہیں۔ ایک جانور کو نہیں معلوم کہ اُس نے کب آپکے ہاتھوں ذبح ہونا ہے۔
فرض کیجئے آپ کو پہلے سے علم ہو جائے کہ آپکا دوست کسی امتحان میں فیل ہو گیا ہے مگر آپکے دوست تک یہ خبر ابھی نہ پہنچی ہو۔ اب آپ اپنے دوست سے اگر شرط لگائیں گے تو آپ سو فیصد جیتیں گے کیونکہ آپکے پاس محض کچھ علم زیادہ ہے۔ گویا تھوڑے سے علم سے آپ نے کسی اور پر قابو پا لیا۔ یہی صورتحال قوموں کی ہے۔ آج ہم پیچھے کیوں ہیں اور دیگر ممالک ہمیں استعمال کیوں کرتے ہیں۔ اس لئے کہ اُنکے پاس ہم سے زیادہ علم ہے۔ وہ سائنس میں ہم سے آگے ہیں۔۔ہر نئی تحقیق، ہر نئی ایجاد ، ہر نئی دریافت وہاں ہو رہی ہے۔ تیسری دنیا کے مسائل جیسے کہ روٹی کپڑا، مکان وغیرہ سے وہ بہت آگے کا سوچ رہے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ وہ یہ سب کر سکتے ہیں۔ آپ صرف اس پر تنقید کر سکتے ہیں مگر آپ تنقید کرنے کا حق بھی کھو چکے ہیں کیونکہ آپ دنیا کو کچھ نہیں بیچتے؟
یہ انسانی فطرت ہے کہ ہم کائنات کے بارے میں کھوجتے ہیں۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہر شے کا مقصد ڈھونڈیں۔ ہمیں ہر چیز کی سمجھ آئے۔ کیونکہ جستجو انسان کی بقاء کے لئے ضروری ہے۔
ماضی میں ہمارے آباؤ اجداد اپنے محدود علم کے مطابق کائنات کو سمجھنے کی کوشش کرتے تھے۔ مثال کے طور پر کئی قدیم تہذیبوں میں یہ مانا جاتا تھا کہ زمین پر زلزلے اس لئے آتے تھے کہ ایک بیل نے اسے ایک سینگ پر اُٹھا رکھا ہے جب وہ تھک جاتا ہے تو اسے دوسرے سینگ پر رکھ دیتا ہے۔ آج ہم جانتے ہیں کہ ایسا ہرگز نہیں، زمین پر زلزلے زمین کی اوپری سطح کے نیچے ٹیکٹانک پلیٹس کی حرکت سے آتے ہیں۔ مگر ہمارے آباؤ اجداد یہ نہیں جانتے تھے اّنکی کوششوں پر کوئی شک نہیں کیونکہ وہ اپنے محدود علم کے مطابق دیانتداری سے یہ سب کہتے تھے۔ مگر اگر آج ہم نئے علم کو جانتے بوجھتے مصر ہوں کہ زلزلے بیل کے سینگ سے ہی آتے ہیں تو یہ علمی بددیانتی اور خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہو گا۔
جدید دنیا میں ہم نے سائنسی طریقوں سے کائنات کو سمجھنے کی کوشش کی۔ ہم نے معلوم کیا کہ کائنات کے مختلف مظاہر کے پیچھے کونسے اُصول کار فرما ہیں۔ مثال کے طور پر نیوٹن کا تیسرا قانون کہ ہر ایکشن کا ایک ری ایکشن ہوتا ہے۔ گیند کو دیوار پر ماریں تو وہ کم و بیش اُسی قوت سے واپس آئے گی۔ نیوٹن کے اس اُصول کو ہم آج بھی دیکھ سکتے، ثابت کر سکتے ہیں۔ اور اسکا استعمال راکٹ ٹیکنالوجی ، گاڑیوں، کاروں، عمارات کی تعمیر وغیرہ میں استعمال کرتے ہیں۔ یہ قانون پوری کائنات میں کہیں بھی جائیں لاگو ہو گا۔
انہی سائنسی طریقوں سے آج ہم کائنات کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ کوئی بھی سائنسدان فطرت کے اُصولوں کے خلاف اپنے اُصول نہیں بنا سکتا۔ نوبل انعام یافتہ رچرڈ فائنمن کے مطابق ہم فطرت کو بیوقوف نہیں بنا سکتے۔
سو ایک سائنسدان کسی بچے کیطرح مکمل دیانتداری سے کائنات کو کھوجتا ہے اور کسی نتیجے پر پہنچتا ہے۔۔اُسکا مقصد کائنات کو سمجھنا ہوتا ہے۔ کائنات اُسکے سامنے وہی راز کھولے گی جو کائنات کے ہیں۔سائنس کا مقصد کائنات کو سمجھنا ہے، انسانی علم میں اضافہ کرنا ہے۔ ثبوت، منطق اور عقل کی کسوٹی پر، مفروضوں پر نہیں۔ سائنس کو سائنس ہی رہنے دیجئے، اسے سیکھئے، اسے سمجھئے۔
اگر آپ اس دنیا پر اپنی دھاک بٹھانا چاہتے ہیں تو علم و جستجو کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔موجودہ صدی میں رہتے ہیں تو دماغ بھی اسی صدی میں رکھئے۔ ورنہ آپ دنیا کے لئے بھیڑ بکری سے کم نہیں جسے قصائی جب چاہے، جیسے چاہے ذبح کر دے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...