درست وقت پر درست پالیسی… کامیابی کا یہی راز ہے۔ اور یہ راز حکومتِ وقت نے پا لیا ہے۔
حکومت کے ایک انتہائی معتبر اور بااختیار نمائندے نے کل جو اعلان کیا ہے وہ موجودہ حالات میں درست فیصلہ ہے اور برمحل۔
اندرونِ ملک نگاہ دوڑایئے۔ ہر طرف اضطراب ہے اور بدامنی۔ کراچی سے لے کر پشاور تک مسلح افراد دندناتے پھرتے ہیں۔ قاتل یوں محفوظ ہیں جیسے بتیس دانتوں میں زبان۔ تھر میں قحط نے انسانوں کو یوں نگل لیا جیسے بحرالکاہل کے کناروں پر پڑے ہوئے مگرمچھ پورے پورے آدمی نگل جاتے ہیں۔ چولستان خطرے کی زد میں ہے۔ کوئٹہ سے ہزارہا خاندان ہجرت کر چکے ہیں۔ تازہ ترین اعدادو شمار کے مطابق صرف ایک سال میں پانچ سو کے لگ بھگ اغوا برائے تاوان کے واقعات پیش آئے ہیں اور یہ وہ اعداد ہیں جو رپورٹ ہوئے ہیں۔ اصل تعداد کہیں زیادہ ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ نے لوگوں کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ پانی کی کمی تلوار کی طرح عوام کے سر پر لٹکی ہوئی ہے۔
بین الاقوامی حوالے سے بھی ہم مشکل میں ہیں۔ امریکی انخلا کے بعد جو کچھ بھی ہوگا ہمارے لیے خوشگوار نہیں ہوگا۔ خیبر پختونخوا کے آئی جی پولیس نے کہا ہے اور درست کہا ہے کہ افغان سرحد لمبی ہے اور کھلی ہے۔ ہزاروں لوگ آ جا رہے ہیں‘ کس طرح کنٹرول کیا جا سکتا ہے! بھارت میں وحشی مودی منہ پھاڑے مکروہ داڑھیں دکھا رہا ہے جو پاکستان کو‘ خاکم بدہن‘ چبانے کے لیے بے تاب ہیں۔ امریکی امداد کا بہت بڑا حصہ کاٹ کر یوکرائن کو دیا جا رہا ہے۔ کراچی میں آگ اور خون کا کھیل مسلسل جاری ہے اور موت کا وحشیانہ رقص رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔
ان حالات میں‘ ان دگرگوں حالات میں‘ حکومت نے یہ جو اعلان کیا ہے کہ بجٹ میں سرکاری ملازموں کی تنخواہ اور پنشن بڑھانے کا کوئی پروگرام نہیں ہے تو آخر اس سے زیادہ برمحل فیصلہ کیا ہو سکتا ہے۔ اسے ہی کہتے ہیں درست وقت پر درست فیصلہ۔ حکمرانوں کی رہنمائی کے لیے دانش مندوں نے جتنی کتابیں لکھی ہیں‘ مثلاً گلستانِ سعدی‘ قابوس نامہ‘ طُوسی کا سیاست نامہ‘ اتفاق دیکھیے کہ کسی کو بھی اس تیر بہدف نسخے کا خیال نہیں آیا۔ جو صاحب بھی اس حکومت کی رہنمائی کا کام انجام دے رہے ہیں‘ جب بھی کتاب لکھیں گے‘ حکمرانی کی تاریخ میں انقلاب آ جائے گا۔
بدبخت سرکاری ملازم! کیا وہ نہیں دیکھ رہے کہ عوامی نمائندوں‘ وزیروں اور مشیروں کی مراعات پر کتنا پیسہ خرچ ہو رہا ہے۔ پارلیمنٹ لاجز‘ وزیروں کی رہائشی کالونیاں‘ ایوانِ وزیراعظم‘ وزرائے اعلیٰ اور گورنروں کے اخراجات۔ خادمِ اعلیٰ کے ترکی کے پے بہ پے دورے‘ سندھ حکومت کے عمائدین کا آئے دن دبئی حاضر ہونا‘ ان ساری ضروری مدّات پر پہلے ہی بہت اخراجات اُٹھ رہے ہیں۔ اگر سرکاری ملازموں کی تنخواہ اور ریٹائرڈ ملازموں کی پنشن بھی بڑھا دی جائے تو ظاہر ہے ملک سخت خطرے کی زد میں آ جائے گا۔
سرکاری ملازم وہ واحد طبقہ ہے جو سو فیصد پورا انکم ٹیکس ادا کرتا ہے۔ ان کی تنخواہوں سے ماہ بماہ ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے۔ یہ چُوں بھی نہیں کر سکتے۔ قوم کی تعمیر میں ان کا بہت بڑا کردار ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے طوفان میں‘ سرکاری ملازم اپنی تنخواہیں اور پنشن نہ بڑھنے پر اس بلند مقام کا سوچیں جو ملک کی تاریخ میں انہیں نصیب ہوگا۔ آج اگر ان کے بیوی بچے فاقہ کشی کر رہے ہیں‘ علاج اور تعلیم کے لیے ترس رہے ہیں تو یہ تو سوچیں کہ آنے والی نسلیں انہیں کتنے عظیم نام سے یاد کریں گی!
سرکاری ملازم تین قسم کے ہیں۔ ایک وہ جو حرام کھاتے ہیں۔ دوسرے وہ جو حرام نہیں کھاتے لیکن کام پورا نہیں کرتے اور ہڈحرام ہیں۔ تیسری قسم وہ ہے جو حرام نہیں کھاتی اور پوری دیانت اور محنت سے فرائض سرانجام دیتی ہے۔ اکثریت تیسری قسم سے تعلق رکھتی ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو ملک کی گاڑی کو چلا رہے ہیں۔ اس میں نائب قاصد اور خاکروب سے لے کر اعلیٰ ترین عہدیداروں تک‘ سب شامل ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو آخرت میں انشاء اللہ کامیاب ٹھہرائے جائیں گے۔ اب اگر ان کی تنخواہ اور پنشن‘ اس خاکی دنیا میں‘ بڑھا دی جائے تو بالکل اچھا نہیں لگے گا۔ اس تیسری قسم کو چاہیے کہ حرام کھائے نہ ہی کام میں ہڈحرامی کرے۔ نہ تنخواہ بڑھانے کا مطالبہ کرے۔ صبر سے ا ور شکر سے کام لے اور پانچوں وقت وزیراعظم‘ صدر‘ کابینہ اور صوبائی حکام کی مالی خوشحالی کے لیے دعا کرے۔
بہت دن ہوئے سرکاری ملازم پر ’’بَیل‘‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی تھی۔ آج یاد آ رہی ہے۔
چلا جا رہا ہے
کبھی دُم ہلا کر
کبھی جھرجھری سے
کبھی سر جھٹک کر
ہرے‘ کچے زخموں پہ بیٹھی ہوئی
مکھیوں کو اڑانے کی ناکام کوشش میں ہے
کہیں کوئی راحت نہیں ہے
نکلتے ہوئے دن کی خنکی سے لے کر
گئی رات کی سرد‘ بے مہر‘ پہنائی تک
کڑی چلچلاتی ہوئی دوپہر کی اذیت سے لے کر
لہو چوستے پِسّوئوں‘ مچھروں سے بھری شام تک
کہیں کوئی راحت نہیں ہے
کسی دور افتادہ راحت کے نزدیک آنے کا امکان نہیں ہے
کوئی کھال سے جیکٹیں‘ بیگ‘ جوتوں کے تسمے بناتا ہے
کوئی کسی کُند مقراض سے جسم کی اُون
(ٹانگوں کے نیچے دبا کر)
کترتا ہے‘ پھر پشت پر بیٹھ کر ہانکتا ہے
کوئی جوت کر ہل میں کانٹوں بھری قمچیاں مارتا ہے
چراگاہ میں بھی کبھی لے کے جائیں تو اک سنگ آتا ہے
اور ساتھ دشنام اور گوشت کھانے کی دھمکی
جگر اور گردے جو شاداب تھے ایک اک
کر کے ناکارہ ہونے لگے ہیں
جو تھوڑی بہت گھاس کھاتا ہے معدے سے اٹھتی جلن
صبح تک مضطرب رکھتی ہے
دل اور اس کی رگیں جانے کس حال میں ہیں
کمر درد کرتی ہے
ٹانگیں جو فولاد کی طرح تھیں کانپتی ہیں
…………
کہیں کوئی راحت نہیں ہے
کسی دور افتادہ راحت کے نزدیک آنے کا ا مکان نہیں ہے
بس اک آس ہے
کسی دن
کسی کھیت میں ہَل کے نیچے
کسی شام سامان ڈھوتے ہوئے
کسی رات تنہائی میں تھان پر
سانس کا سلسلہ ختم ہو جائے
اور گر پڑے!!