محمد تغلق نے اردو کو دکن میں مستحکم کرنے میں اہم حصہ ادا کیا۔
حقیقت ہے اردوکا آغاز شمالی ہند سے ہوا وہاں 3 سو سال تک نشوونما پانے کے بعد اس نے دکن کا رخ کیا۔ علاؤالدین خلجی کی سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے اردو زبان کو پھلنے پھولنے کا موقعہ ملا۔ 1297میں علاؤ الدین خلجی نے گجرات کو فتح کرکے اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیا۔
1310میں علاؤالدین خلجی نے دکن اور مالوہ پر حملہ کرکے انھیں بھی فتح کرلیا۔ ہر موضہ پر ایک افسر مقررکیا جو امیر صداہ کہلاتا تھا۔ وہ اپنے اہل و عیال اور متعلقین کو بھی ساتھ لے آئے دکن اور گجرات کو اپنا وطن بنالیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ جب بول چال کی زبان کے ساتھ گزرکر ادبی سطح پر استعمال میں آئی تو صوفیوں شاعروں نے اسے اپنے اظہار مقصد کا ذریعہ بنایا تو گجرات میں اس کے ادبی روپ کو ’’کجری‘‘ نام دیا گیا اور دکن میں ’’دکنی‘‘ کہلائی۔
محمد تغلق نے اردو کو دکن میں مستحکم کرنے میں اہم حصہ ادا کیا، دہلی سے دکن کی دوری کا اندازہ بھی خلجی کو تھا وہ انتہا پسند بادشاہ تھا اس نے یہ اندازہ کرلیا تھا کہ خود امیران صدہ اس کے خوابوں سے نکل سکتے ہیں۔ دکن پر اپنی گرفت مضبوط بنانے کے لیے اس نے دہلی کی آبادی کو دولت آباد منتقل کردیا۔ 1327کو دہلی کی ساری آبادی دولت آباد منتقل ہوگئی اس سارے عمل سے دکنی زبان کو پھلنے پھولنے کا موقعہ مل گیا۔
1347میں عظیم الشان بہمنی سلطنت کی بنیاد پڑی بہمنی حکومت میں سیاست کو فروغ اور دکنی تہذیب و ثقافت کے بارے میں جمیل جالبی ’’ تاریخ اردو ادب ‘‘ میں لکھتے ہیں ’’ اب دکن کے سلطنت شمال سے آئے ہوئے ان ترک خاندانوں کے ہاتھوں آگئی تھی جو خود کو دکنی کہنے پر فخر محسوس کرتے۔ دکنی ان کی زبان تھی جس پر انھوں نے کئی قومیت اور تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھی‘‘ بہمنی سلطنت کی زبان خانی خان سے معلوم ہوتا ہے ’’ہندوئی‘‘ تھی۔
بہمنی خاندان کا شہنشاہ اول علاؤ الدین حسن شاہ بہمنی عہد حکومت 1385سے 1525رہی۔ بہمنی عہد میں اردو اور ادب کو غیر معمولی فروغ حاصل ہوا۔ دکن میں ’’دراوڑی ‘‘ قوم کی زبانیں کئی تھیں ، تلگو، کناٹری، ملیالم اور تامل۔ یہ زبانیں ہند آریا زبانوں سے اپنی الگ اور مختلف تھیں ان میں سے کوئی بھی زبان بنیادی زبان نہیں بن سکتی تھی۔ اسی وجہ سے قدیم اردو جس کو بولتے ہوئے خلجی اور تغلق کے زمانے میں دکن کے حاکم مقرر ہوئے۔ انھوں نے اس کو رابطے کی زبان بنایا اس کے علاوہ قدیم اردو بھی دکنی جو سرکاری اور درباوری حیثیت حاصل ہوئی اس کا اہم سبب سیاسی تھا۔
جس طرح آزاد ملک اپنی شناخت بناتے ہیں اسی طرح بہمنی سلطنت نے بھی اپنی شناخت بنانے کے لیے مغلیہ سلطنت سے اختلاف کیا۔ جھنڈا اور سکہ پر ایک ہوئے لیکن اور دیگر بہت سی چیزوں پر اختلاف ہوا وہ ’’زبان‘‘ کے سلسلے میں بھی مغلیہ سلطنت سے بہمنی سلطنت نے اپنے آپ کو الگ کیا۔ مغلیہ سلطنت میں فارسی نہ صرف سرکاری اور درباری زبان تھی بلکہ علمی و ادبی اغراض کے لیے بھی صرف فارسی استعمال ہوتی تھی۔ حد یہ کہ اردو کے بڑے شاعر بھی شاعری کے سوا جب کوئی علمی و ادبی کام انجام دیتے تو وہ فارسی ہی استعمال کرتے نیز مصحفی، میر حسن، قائم چاند پوری اور اس زمانے کے تمام شعرا حضرات جو لکھا فارسی میں لکھا بہمنی عہد میں قدیم اردو دکنی پر زیادہ توجہ دی گئی۔
1347 میں علاؤالدین حسن بہمنی شاہ نے خودمختار حکومت قائم کی۔ پہلے پہل اس کاپایہ تخت دولت آباد تھا لیکن جلد ہی اس نے گلبرگہ پایہ تخت بنایا اور اس کا نام حسن آباد رکھا۔ بہمنی خاندان کے کل اٹھارہ حکمران ہوئے ان میں نہایت قابل اور علم دوست بادشاہ گزرے ہیں۔ جنھوں نے دکن میں نئی تہذیبی روایات کو ترقی دی اور نئی ادبی لسانی روایات کی بنیاد رکھی۔
علاؤالدین خلجی کے دکن فتح کرنے سے قبل کئی بزرگ دکن آئے انھوں نے بڑی خاموشی کے ساتھ نئی تہذیب اور نئی لسانی روایات کو فروغ دینے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ جن بزرگان کے نام ملتے ہیں ان میں حاجی رومی، سید شاہ مومن، بابا سید مظہر عالم، شاہ درہ گنج رواں، سید احمد، قدیم حیات قلندر، بابا شرف الدین اور بابا شہاب الدین خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
انھوں نے یہاں ایک نئی زبان کو ترویج دینے میں اہم کارہائے نمایاں انجام دیا۔ علاؤالدین خلجی کی فتح دکن کے بعد روحانی پیشوائی کے اس سلسلے کو اور فروغ حاصل ہوا پیر مقصود پیر جمن شاہ ، فتح الدین، زرزی بخش، میر مٹھے، پیربندہ نوازگیسو دراز کے والد شاہ راجو قتال، شاہ برہان الدین غریب، شیخ ضیا الدین اور بہت سے دوسرے صوفیہ کرام دکن کے مختلف علاقوں میں دینی، اخلاق و مبلغ دین میں رونق افروز ہوئے۔ ان بزرگان نے یہاں کی مقامی زبان کے الفاظ استعمال کی زبان میں ایک ایسا ہیولا تیارکیا جس سے اظہار کی مشکل حل ہوگئی۔
اردو زبان کی ابتدائی ترقی میں ان لوگوں کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں۔بزرگان دین کے ملفوضات جو ہم تک پہنچے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زبان پر ہندوستانی زبانوں کے مختلف اثرات پڑ رہے تھے۔ ان کی زبان کسی ایک زبان تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔
جمیل حاجی نے شاہ برہان الدین غریب، زین الدین قلا آبادی، شاہ کوچک ولی کے ملفوضات کے بارے میں کہا ہے، یہ جملے خالص پنجابی نہیں نہ خالص سندھی، سرائیکی، اردو میں مختلف زبانوں کے اثرات ان میں ملے جلے نظر آتے ہیں۔
عبدالقادر سبزواری اردو کی ادبی تاریخ میں لکھتے ہیں ’’عوام حتیٰ کہ بادشاہوں کے ادب و اخلاق پر نظر رکھنے اور جب ضرورت پڑی اس کی اصلاح کی ہمہ تن کاوش کرتے۔ حضرت زین الدین کے کہنے سے محمد شاہ نے نشہ کرنا چھوڑ دیا تھا اور حدود سلطنت میں نشہ فروخت کرنے والی دکانیں بند کرا دیں۔ حضرت زین الدین کا کام بھی عوام کی رشد و ہدایت کرنا تھا اور وہ دکن کے لوگوں کو پرانی اردو ہی میں احکام دین سمجھاتے۔
محمد شاہ کے بعد مجاہد شاہ اس کے بعد داؤد شاہ تخت نشین ہوئے اس زمانے میں امرا کی کشمکش کی وجہ سے سلطنت کا سکون متاثر ہوگیا۔ بعدازاں محمد شاہ ثانی جب تخت نشین ہوا تو شورش کم ہوگئیں اور سکون بحال ہوا۔ محمد شاہ ثانی نے علما و کرام کو اپنے دربار میں مدعو کیا محمد شاہ کے انتقال کے بعد پھر سلطنت میں اضطراب پیدا ہوگیا اور اقتدار کے لیے رسہ کشی شروع ہوگئی۔
ایک سال کے بعد بادشاہ غیاث اور شمس الدین تخت پر بٹھائے گئے اور اتارے بھی گئے۔ فیروز شاہ کی تخت نشینی کے بعد ہنگامے سے ختم ہوگئے۔ فیروز شاہ بہمنی خاندان کا آٹھواں بادشاہ تھا اس کے عہد میں تہذیب، علم و فن، شان و شوکت عروج کو پہنچ گئی۔
حضرت بندہ نواز گیسو دراز اردو تصانیف میں مراج العاشقین، شکارنامہ، تمثیل نامہ خلاصہ توحید اور تلاوت الوجود آپ کی اردو کی اہم کتب ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...