::: بہاولپور کا تاریخی عکس : جنوبی پنجاب کا پنجاب سے علحیدگی کی حالیہ لہر :::
بہاولپور کے نوابوں کا دعویٰ تھا کہ ان کا شجرہ نسب خلیفہ بغداد سے ملتا ہے، اس لیے یہ بات انہیں ہندوستان کے دیگر شہزادوں سے منفرد بناتی ہے، انہیں پہلی بار امداد کے طور پر نادر شاہ کی بادشاہت سے زمین ملی، اس کے بعد وہ احمد شاہ درانی کی بادشاہت میں آجاتے ہیں، جب احمد شاہ درانی کی بادشاہت ڈھیر ہوجاتی ہے تو وہ آزاد ہوجاتے ہیں، تاہم جیسے ہی سکھ طاقت میں آتے ہیں تو انہیں 1833 میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ معاہدے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
نواب صادق عباسی صرف 18 ماہ کی عمر میں بہاولپور کے حکمران بنتے ہیں، لیکن 1924 تک ریاست ان کی بڑی بہن کے احکامات پر عمل کرتی تھی ۔
1941 تک ریاست بہاولپور کی اراضی 17 ہزار 449 مربع میل اور آبادی 13 لاکھ تک ہوتی ہے، 1947 میں نواب خرابی صحت کے باعث انگلینڈ میں ہوتے ہیں اور ڈاکٹرز کی جانب سے انہیں وہاں مزید قیام کا مشورہ دیا جاتا ہے، یہ وقت بہاولپور کے لیے نہایت ہی اہم تھا، اس کی سرحدیں ہندوستان اور پاکستان سے ملتی تھیں، اسے کسی ایک ملک کا انتخاب کرنا تھا۔
نواب کی غیر موجودگی میں کوئی فیصلہ نہ ہوپایا، مؤرخ اور بہاولپور ریاست میں پبلک ورکس کے وزیر کے طور پر خدمات سر انجام دینے والے سر پینڈرل مون نے اپنے نوٹ میں لکھا ہے کہ محمد علی جناح کانگریس کے رہنماؤں کی طرح حکمران شہزادوں کو قید کرنا یا ان کی طاقت ختم کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے۔
اپریل 1947 میں یونینسٹ وزیر مشتاق احمد گرمانی پنجاب کے وزیراعلیٰ مقرر ہوئے، اختیارات کی منتقلی کے وقت یہ افواہیں عام تھیں کہ بہاولپور کی جانب سے ہندوستان کے ساتھ الحاق کیا جائے گا۔
15 اگست 1947 کو نواب صادق عباسی نے آزاد حکمران کے طور پر رہنے کا اعلان کرتے ہوئے بہاولپور کو پاکستان کے تحت چلانے کی خواہش کا اظہار کیا، جس کے بعد حکومت پاکستان نے خطرے کو محسوس کرتے ہوئے بہاولپور کو پاکستان کا حصہ بنانے پر کام شروع کردیا اور نواب کے انگلینڈ سے واپس آنے تک بات چیت کا انتظار کیا جاتا ہے۔
مشتاق احمد گرمانی بہاولپور کی جانب سے ہندوستان کے ساتھ الحاق کی افواہوں کے باوجود ان پر الحاق کے لیے دباؤ نہیں ڈالتے، اس معاملے کو حل کرنے کے لیے امیر کے دستخط کافی تھے، جو انہوں نے 3 اکتوبر 1947 کو کیے۔ پاکستان کے ساتھ الحاق سے پہلے نواب صادق خان عباسی بہاولپور ریاست کے آخری بادشاہ تھے، انہوں نے ریاست میں بہترین طرز حکمرانی کے لیے خلیفہ خاندان کی سفری روایات کو برقرار رکھا۔پاکستان میں سرائیکی زبان والے وادی سندھ کے بالائی میدان کے علاقے کو سرائیکستان کہتے ہیں۔ سرائیکی پاکستان کی بڑی زبانوں میں سے ایک ہے۔ سرائیکستان ایک جغرافیائی خطہ ہے۔ اس کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ سرائیکستان میں کل 5 اضلاع شامل ہی،راجن پور، رحیم یار خان، ڈیرہ غازی خانسرائیکستان کے اہم علاقے ہیں۔
انہوں نے اسکول، ہسپتال، پل اور سڑکیں تعمیر کیں، زراعت کے لیے آبپاشی نظام تشکیل دیا، ریاست میں ٹیکس کلیکشن کے سب سے بہترین اور معیاری نظاموں میں سے ایک نظام رائج کیا اور معروف گاڑیاں رولز رائس اور بینٹلیس کی کئی گاڑیاں رکھیں، وہ فائن آرٹس اور کھانوں سے محبت کرنے کے طور پہچانے جاتے تھے۔
سرائیکی خطہ لاکھ مربع میل سے زائد رقبے پرمحیط پنجاب کی آبادی کا 60 فیصد نفوس پرمشتمل ہے۔ 2002ء کی مردم شماری کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سرائیکی اضلاع کی آبادی 3 کروڑسے متجاوز تھی۔ تاریخی اور انتظامی اعتبار سے سرائیکی خطہ 1947ء کے ملتان ڈویژن، میانوالی اور ڈیرہ اسماعیل خان اضلاع اور بہاولپور ریاست پر مشتمل ہے۔ ریاست بہاولپور کے پاکستان کیساتھ الحاق کے کچھ عرصہ بعد اسے صوبائی اسٹیٹس ملا، تاہم 1955ء میں ون یونٹ کے نفاذ اور پھر 1970ء میں ون یونٹ کی تحلیل کے بعد بہاولپور ریاست کو پنجاب کا انتظامی حصہ بنا دیا گیا۔ جس کے ردعمل کے طور پر بہاولپور صوبہ بحالی تحریک کا آغاز ہوا۔ سرائیکی قوم برسوں سے قومی تشخص و خوداختیاری سے محروم اور معاشی استحصال کا شکار ہے۔ عالمی ترقیاتی اداروں کی متعدد رپورٹیں اور سروے جنوبی پنجاب کے معاشی استحصال، پسماندگی اور سماجی بدحالی کی صورتحال کی تصدیق کرتی ہیں۔ مثلا اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے (یو این ڈی پی) کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق راجن پور اور مظفرگڑھ ملک کے پسماندہ ترین اضلاع میں شامل ہیں جبکہ جنوبی پنجاب کے اضلاع میں سماجی و معاشی پسماندگی کی شرح صوبے کے دیگر حصوں کے مقابلے کہیں زیادہ ہے۔ انسٹیٹیوٹ آف پبلک پالیسی 2012ء کے مطابق پنجاب میں علاقائی عدم مساوات کے حوالے سے صوبے کے بالائی اضلاع کے مقابلے میں جنوبی اضلاع میں معاشی و سماجی ترقی کا لیول انتہائی کم تر ہے۔ صوبہ بہاولپور کی تحریک کے بانیوں ریاض ہاشمی ایڈووکیٹ اور سیٹھ عبیدالرحمن نے سرائیکی قومی جدوجہد میں شرکت کیلئے بہاولپور صوبہ محاذ کو سرائیکی صوبہ محاذ میں ضم کر دیا۔ سرائیکی صوبہ محاذ کی سیاسی اور عوامی مقبولیت نے مارشل لاء حکومت کے اوسان خطا کر دئیے۔ اولین مرحلہ میں سرائیکی صوبہ محاذ کا حصہ بننے والی سیاسی ومذہبی جماعتوں میں سے کچھ نے فوجی حکومت کی خوشنودی کیلئے محاذ کی پشت میں خنجر گھونپا۔ جے یو آئی (س) کے قاری نورالحق قریشی ایڈووکیٹ اپنی جماعت کی ناراضگی کے باوجود سرائیکی صوبہ محاذ کیساتھ چلتے رہے۔ یہ وہ حالات تھے جنہیں مدنظر رکھتے ہوئے تاج محمد خان لنگاہ نے دوستوں اور ہم خیالوں کے مشورے سے پہلی سرائیکی قوم پرست جماعت' سرائیکی پارٹی کی ملتان میں بنیاد رکھی اور قومی جدوجہد کا نئے جذبے سے آغاز کیا۔ تاج محمد خان لنگاہ شرافت اور دیانت میں اپنی مثال آپ تھے۔ پیپلز پارٹی سے سرائیکی پارٹی کے قیام تک کے سفر میں انہوں نے موروثی جائیداد فروخت کرکے سیاسی عمل میں شرکت کی پچھلی دہائی میں جب ان کا انتقال ہوا تو ایک مکان، دو اڑھائی ایکڑ زرعی اراضی ہی باقی بچی تھی۔ پاکستانی سیاست کے جس دور میں لنگاہ میدان سیاست میں اترے وہ سیاست برائے خدمت کا دور تھا اور سیاسی کارکنوں ورہنماؤں کی غالب اکثریت اپنی جیب سے خرچ کرکے سیاسی عمل میں کردار ادا کرتی تھی۔ لگ بھگ 40برس میدان سیاست میں سرگرم عمل رہنے والے تاج محمد خان لنگاہ نے سیاسی سفر اور جدوجہد کے اخراجات پورے کرنے کیلئے اپنی چار مربع اراضی فروخت کر ڈالی۔ ان کی شرافت' دیانت اور پُرعزم جدوجہد سیاسی کارکنوں اور سرائیکی قوم پرستوں کیلئے مشعل راہ ہے۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو سرائیکی پارٹی سرائیکی قومی تحریک کی بانی جماعت ہے اس جماعت نے وفاق پاکستان کے اندر اپنی قومی شناخت کے حصول اور صوبائی اکائی کے قیام کیلئے جو جدوجہد کی وہ ہمیشہ یاد رہے گی۔ سرائیکی قوم پرست سیاست کے میدان میں آج سرگرم عمل شخصیات اور جماعتوں کیلئے تاج محمد خان لنگاہ رہبر کا درجہ رکھتے ہیں۔ وضع دار' دوست نواز' ترقی پسند' صاحب مطالعہ اور اُجلے قوم پرست تھے۔ اپنی قوم اور وسیب کا مقدمہ انہوں نے ہر اس جگہ پیش کیا جہاں انہیں موقع ملا۔ طالب علم کو یہ شرف حاصل ہے کہ مرحوم تاج محمد خان لنگاہ ذاتی دوست اور مہربان تھے۔ ہم نے کچھ عرصہ عوامی جمہوری پارٹی میں اکٹھے کام کیا۔ انہوں نے اپنی قوم اور وسیب کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ ہمارے ایک اور مشترکہ مرحوم دوست سید حسن رضا بخاری کہا کرتے تھے کاش سرائیکی جماعتوں نے نئی نسل کے سیاسی کارکنوں کی تربیت کیلئے کوئی باقاعدہ ادارہ قائم کیا ہوتا تاکہ قوم پرست سیاست کو تربیت یافتہ نوجوان کارکن دستیاب رہتے۔ کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے سابق بہاولپور ریاست کے تینوں اضلاع یعنی بہاولپور،بہاولنگر اور رحیم یار خان اگرچہ سرائیکی پٹی پر واقع ہیں لیکن اس صوبے کےقیام کے حامی کہتے ہیں کہ وہ نہ تو پنجاب اور نہ ہی جنوبی پنجاب کا حصہ رہناچاہتے ہیں۔ اگرچہ سرایئکی تحریک اپنے آغاز سے لے کر آج تک پُرامن تحریک رہی ہے کیونکہ یہ اُس سطح تک آج تک منظم نہیں ہو سکی جہاں یہ اپنے زور بازو سے سرائیکی مخالف قوتوں کا مقابلہ کر سکتی۔
اب یہاں پر ایک بہت ہی بُنیادی اور اہم سوال جنم لیتا ہے کہ بہت بڑی آبادی، جغرافیہ اور قدرتی وسائل کی فراوانی کے باوجود یہ تحریک ریت کی دیوار کیوں ثابت ہوتی رہی؟
اس کا جواب دینا کافی جوکھم بھرا ہو سکتا ہے مگر ہمیں تاریخی واقعات اور اس تحریک سے جُڑے اہم کرداروں کی سیاسی حکمت عملی کو تنقیدی نظر سے دیکھنا ہو گا تاکہ حقائق سے پردہ اُٹھ سکے۔ سب سے بڑا سوال ہے جنوبی پنجاب کو لسانی یا انتظامی بہنادوں پر تقسیم کیا جائے، کدش یہ بھی ہے کہ موجدہ جنوبی پنجاب کی تحریک میں پٹیے ہوئے بد نام زمانہ جاگیردار اور سرمایہ دار نظام " مابعد سراَئیکی جاگیرداریت" کی شکل میں پھر ابھر کر یہاں کے عوام پر مسلط ہوکر بھر ظلمو ستم نہ ڈھائیں اور اسٹمبلشمنٹ کے ساتھ مل کر پہلے کی طرح اس علاقے کو مزید جہنم نہ بنا دیں اور خدشہ اس بات کا بھی ہے کہ 50 کی دہائی میں سابقہ مشرقی پاکستاں میں ایسے ہی حالات کے تحت " جگتو فرنٹ " کو کھڑا کیا گیا تھا اور اس کی باقیات نے 1971 میں اپنا رنگ دکھایا اور " بنگلہ دیش بن گیا۔ معاشی طور ہر پس ماندہ اور مسائل میں گھری قومین کو اس قسم کی تحریکوں سے نقصان بھی ہوسکتا ہے۔ اور اس کی متحمل نہِیں ہوسکتی۔ اس سے ملکی سالمیت بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے لہذا پاکستان بناو مزید صوبے نہ بناو۔ اس کے بہت سے " سنو بال ایفیکٹ" {Snow ball effect} ہوں سکتے ہیں۔ مگر کچھ کا کہنا ہے کہ جنوبی پنجاب کو صوبہ بنا کر " پنجاب کو رنجیت سنگھ کے پنجاب " سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔{احمد سہیل} :::
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔