بہاولپور گزٹ، تاریخ مراد اور شہامت علی کی کتاب’’ ہسٹری آف بہاولپور‘‘ جیسی کتب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بہاولپور کے اوّلین نوابوں کو ریاست کی بنیادیں اٹھانے اور انہیں مضبوط ستون فراہم کرنے کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑے اور کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کے دوران انہیں کئی زور آور حریفوں اور دشمنوں کا سامنا رہا، جن میں سے کچھ کے ساتھ انہوں نے جم کر بہادری سے مقابلہ کیا اور انہیں شکست فاش دی تاہم کچھ حریف اتنے طاقتور تھے کہ نوابوں کے لیے ان سے صلح کرنے یا ان کے قہر سے چھپنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ امیر صادق محمد خان عباسی اوّل نے 1728ء میں برصغیر پاک و ہند کی دوسری بڑی اسلامی ریاست بہاول پور کی بنیاد رکھنے سے قبل اپنے مخالفین کلہوڑوں سے کئی لڑائیاں لڑیں اور جب اس میں مزید لڑنے کی سکت نہ رہی تو شکار پور کے علاقے کو ترک کرکے ڈیرہ غازی خان کے علاقے بیت ڈبلی اور بعد ازاں اوچ کے بخاری اور گیلانی مخدوموں کی دعوت پر اوچ کے علاقے کو اپنا مرکز بنا لیا جہاں 1728ء میں ملتان کے مغل صوبہ دار نواب حیات اللہ نے امیر صادق محمد خان کو ’چوہدری‘ علاقے میں جاگیر عطا کردی ۔ امیر صادق محمد خان ایک مہم جو اور زمانہ شناس انسان تھا۔ اس نے تحفے میں ملی جاگیر پر اکتفا نہ کیا اور اپنی حیثیت و امارت بڑھانے کے لیے مختلف طریقے سوچنے لگا۔ اس مقصد کے لیے اسے ایک نادر موقع نادر شاہ کی وساطت سے ہاتھ آ گیا جب ایرانی بادشاہ نے 1730ء میں پنجاب کے علاقوں کا رخ کیا ۔ امیر صادق محمد خان نے ڈیرہ غازی خان کے مقام پر نادر شاہ سے ملاقات کی اور اسے اپنی غیر مشروط اطاعت کا یقین دلایا۔ امیر صادق محمد خان کی اہلیت اور اطاعت پسند رویے کو دیکھتے ہوئے نادر شاہ نے اسے نواب کا خطاب دیتے ہوئے شکارپور، لاڑکانہ، سیوستان، چھتر مع چوہدری اور دراوڑ کے علاقے جاگیر کے طور پر عطا کر دیے۔ یوں اطاعت کی صورت میں ملنے والی نوابی کو امیر صادق محمد خان نے اپنے ماتھے کا زیور بناتے ہوئے اس خطے میں اپنی پوزیشن کو مستحکم بنا نا شروع کر دیا۔ یہ وہ دور تھا جب بہاولنگر کے مغرب میں واقع شہر فریدکے علاقوں پر لکھویروں کی حکومت تھی اور اپنی باغیانہ سرشت کی وجہ سے انہوں نے مغل حکومت کے لیے پریشانی کھڑی کر رکھی تھی ۔ فرید خان لکھویرا کی بڑھتی ہوئی ہٹ دھرمی اور مغل حکومت کی کمزور ہوتی ساکھ کے پیش نظر1732ء میں ملتان کے صوبہ دار حیات اللہ نے امیر صادق محمد خان کو مدد کے لیے پکارا جس نے لبیک کہتے ہوئے فرید خان لکھویرا پر چڑھائی کردی اور اسے شکست فاش دی جس کے انعام کے طور پر اسے شہر فرید کے علاقہ کی حکومت بھی مل گئی۔ بعد ازاں نواب نے راول اکھی سنگھ سے قلعہ دراوڑ بھی چھین لیا تاہم نواب ابھی اپنی نوزائیدہ ریاست کی آبیاری میں ہی مصروف تھا کہ 1746ء میں اس کا اپنے ازلی دشمن خدا یار کلہوڑا سے ایک مرتبہ پھر خونیں تصادم ہوا جس میںنواب کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ نواب صادق محمد خان کی موت کے بعد اس کا بیٹا بہاول خان اوّل چار سال دو ماہ کے لیے مسند نشین رہا جس کے بعد بہاول خان اوّل کا بھائی مبارک خان تخت نشین ہوا جس نے لگ بھگ بائیس سال تک حکومت کی۔نواب مبارک خان کو اپنی سلطنت بچانے کے لیے سکھوںسے کئی لڑائیاں لڑنا پڑیں۔ نواب مبارک خان کے بعد نواب بہاول خان ثانی نے جون1772ء میں اقتدار سنبھالا اور جون 1809ء تک تقریباً سینتیس سال تک حکومت کی۔نواب بہاول خان ثانی کی حکومت کا عرصہ جہاں طویل تھا وہاں اسے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے طویل لڑائیاں لڑنا پڑیں۔ مزید تفصیلات کے لیے بہاولپور گزٹ، تاریخ مراد اور شہامت علی کی کتب کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے تاہم یہ بات عیاں ہے کہ بہاولپور کے اوّلین نوابوں کے لیے اقتدار پھولوں کی سیج نہیں تھی اور انہیں مخالفین کی حریص نگاہوں سے اپنے تاج و تخت کو بچانے کے لیے ہمہ وقت چوکس رہنا پڑتا تھااسی بنا پرکمزور حریفوں سے سختی سے نبٹنا اور طاقتور کے ساتھ مصالحت اور دوستی کا رویہ اپنانا نوابوں کی نہ صرف مجبوری تھا بلکہ یہ اُس مستقل حکمت عملی کا مظہر تھا جس کے تحت انہوں نے اپنے اقتدار کو دوام بخشا اور قیام پاکستان تک پنجاب بھر میں ایک واحد مسلمان ریاست کے طور پر ریاست بہاولپور کا وجود بر قرار رکھا۔ نواب بہاول خان ثانی کی طرح نواب صادق محمد خان دوئم (اگست 1809ء تا اپریل1826ئ) اور نواب بہاول خان سوئم(اپریل1826ء تا اکتوبر1852ئ) نے بھی انگریزوں کے ساتھ مصالحت اور دوستی کا رویہ اپنائے رکھا۔نواب صادق محمد دوئم کا عرصہ اقتدار مشکلات سے معمور تھا۔اقتدار میں آنے کے بعد اسے ڈیرہ غازی خان کے مزاری اور بلوچ قبائل کی بغاوت کے ساتھ ساتھ حریف داؤد پوترہ سرداروں کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے نبٹنا پڑا۔خیر پور کے میر سہراب اور حیدرآباد کے رئیس میر غلام علی نے بھی ریاست بہاولپور پر سرحدی حملوں کے ذریعے نواب کی نیند حرام کیے رکھی۔اس دوران نواب صادق محمد خان کو اپنی ریاست کو سندھ کے حریف امیروں سے بچانے کے لیے ولی عہد صاحبزادہ رحیم یار خان کو ایک سال کے لیے بطور یرغمال حیدرآباد بھی بھیجنا پڑا۔ 1818ء کے موسم گرما میں رنجیت سنگھ کے بیٹے کھڑک سنگھ کی زیر قیادت سکھ افواج نے نواب مظفر خان کو شکست دے کر ملتان قلعہ پر قبضہ کر لیا۔دو سال بعد رنجیت سنگھ نے ملتان کا دورہ کیا اور ڈیرہ غازی خان،مظفرگڑھ اور ملتان اضلاع کے علا قے قبضہ کرنے کے بعد اڑھائی لاکھ روپے سالانہ نذرانہ کے عوض نواب صادق محمد خان کے حوالے کر دیے۔نواب نے یہ علاقے اپنی تحویل میں ہنسی خوشی لے تو لیے لیکن طے شدہ نذرانہ دینے میں ناکام رہا۔جس کی بنا پر اسے رنجیت سنگھ کے قہر کا سامنا کرنا پڑا۔ راجا رنجیت سنگھ کی جانب سے مسلسل دھمکیوں اور خطرات کا شکار نواب صادق محمد خان دوئم نے انگریزوں کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن انگریز ٹس سے مس نہ ہوئے اور بلاوجہ راجا رنجیت سنگھ اور بہاولپور کے نواب کے مابین فریق بننے سے احتراز کیا حالانکہ انگریز راجا رنجیت سنگھ کے ساتھ 1809ء میں ایک معاہدہ کر چکے تھے جس کے تحت رنجیت سنگھ کو دریائے ستلج کے بائیں کنارے پر واقع علاقہ جات کی جانب قدم بڑھانے سے روک دیا گیا تھا۔ اسی دوران نواب صادق محمد خان تپ دق کا شکار ہو کر چل بسا۔ رنجیت سنگھ نے نئے نواب بہاول خان سوئم سے سالانہ نذرانہ کی مد میں بقایا جات کا مطالبہ کیا تاہم بہاول خان بھی نذرانہ دینے میں ناکام رہاجس پر راجا رنجیت سنگھ نے اپنے سپہ سالار جنرل ونچھورا کو فوج دے کر بھیجا جس نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے نواب کے دیے گئے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔بعد ازاں رنجیت سنگھ نے شام سنگھ اٹاری والا کی قیادت میں ایک بڑی سکھ فوج کہروڑ بھجوائی جسے ہدایت کی گئی کہ وہ بغیر کسی حیلے یا بہانے بہاولپورپر حملہ کر دے۔بہاولپور گزٹ برائے سال1904ء کے صفحہ نمبر 68 کے مطابق سکھوں کی یلغار اور فتوحات نے نواب کو سخت رنجیدہ کیا۔سندھ، بیکا نیر اورجیسلمیر کی پڑوسی ریاستیں پہلے ہی نواب سے خار کھائے بیٹھی تھیں چنانچہ ان مشکل حالات میں نواب بہاول خان سوئم کے پاس انگریزوں سے مدد لینے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...