بہاول خان ثانی کی مہمان نوازی
انگریزی حکومت کا بہاولپور ریاست کے نوابوں سے پہلا واسطہ 1809ء میں پڑا جب اسی سال موسم سرما کے آغاز پر کابل کی سفارت پر جانے والے انگریزی وفد کے سربراہ ایلفن سٹون اور اس کے دو درجن سے زائد ساتھیوں نے بہاولپور کی حدود میں سفر کیا اور بہاولپور شہر میں قیام کیا۔اس مشن کا مقصد فرانس اور روس کے ہندوستان پر ممکنہ مشترکہ حملے کے خلاف افغانستان کے بادشاہ شاہ شجاع کی مدد حاصل کرنا تھا۔ انگریز مورخ ہورس ہیمن ولسن کی کتابThe History of British India جلد اوّل کے صفحہ نمبر 208 کے مطابق ایلفن سٹون اور اس کے ساتھیوں نے افغانستان جانے کے لیے پنجاب کی بجائے بہاولپور کا راستہ اس لیے اختیار کیا کیونکہ انگریزی حکومت کو خدشہ تھا کہ راجا رنجیت سنگھ اس اہم سفارتی مشن کو افغانستان جانے کے لیے پنجاب کی حدود سے راستہ نہیں دے گا۔چنانچہ اس خدشے کے پیش نظر بیکا نیر اور جیسلمیر سے بہاولپور اور ملتان کا راستہ اختیار کیا گیا۔ ریاست بہاولپور پر ان دنوںبہاول خان ثانی کی حکومت تھی جس نے بہاولپور کی حدود میں انگریزی وفد کی حد درجہ خاطر مدارات کی اور ان کے قیام و طعام کے لیے شاندار انتظامات کرنے کے علاوہ انہیں بیش قیمت تحفے تحائف اور ڈھیر سارا زاد راہ دیا جو انگریزی وفد کے لیے خوشگوار حیرت اور بے پناہ مسرت و انبساط کا باعث بنا ۔واضح رہے کہ نواب بہاول خان ثانی کی جانب سے برطانوی افسران کی خاطر مدارات اُس دور میں کی گئی جب ریاست بہاولپور کو نہ ہی کسی مقامی یا پڑوسی ریاست یا حکمران سے کوئی واضح خطرہ تھا اور نہ ہی انگریزی حکومت کی جانب سے کسی قسم کے دباؤ کا سا منا تھا بلکہ ان دنوں بہاولپور ریاست بذات خود افغان سلطنت کی قلمرو میں شامل تھی تاہم اس کے باوجود بہاول خان ثانی نے ایلفن سٹون اور اس کے ساتھیوں کی خاطر مدارات میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ماؤنٹ سٹوارٹ ایلفن سٹون نے اپنے سفر نامے An Account of the Kingdom of Caubul, and Its Dependencies in Persia جلد دوئم میں ریاست بہاولپور کی حدود میں اپنے مشن کے سفر اور بہاولپور میں قیام کی تفصیلات دی ہیں جن کے مطابق نواب نے مشن کے استقبال کے لیے اپنے افسران کو موج گڑھ بھجوا دیا تھا جبکہ خود نواب نے پایہ سلطنت سے چالیس میل باہر آ کر اس وفد کا استقبال کیا۔ایلفن سٹون نے اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 23تا27 پر بہاول خان ثانی کے ساتھ ملاقات، اس کی مہمان نوازی اور بہاولپور شہر میں اپنے قیام کا تفصیلی احوال لکھا ہے جس میں سے چند منتخب پیراگراف ذیل میں پیش ہیں ۔ ’’اگلے دن بہاول خان ہم سے ملنے آیا اس نے وفد کی عزت و تکریم کی خاطر قصداً چالیس میل کا فاصلہ طے کر کے ہم سے ملاقات کی۔امر واقع یہ ہے کہ اس کی(سلطنت کی)حدود کے قریب پہنچنے کے بعد اس نے ہمارے ساتھ مجموعی طور مہربانی اور مہمان نوازی کا ایسا رویہ اپنایا کہ جس کی مثال ملنا مشکل تھی۔اس کی مہربانیوں کا سلسلہ اس کے علاقے سے ہمارے نکل جانے کے بعد بھی جاری رہا ۔ہم سفر کرتے ہوئے دریائے سندھ تک عبور کر گئے تھے لیکن اس کی جانب سے ہمیں اطلاعات ملتی رہیں اور اس کی جانب سے ہماری دلنوازی کے لیے تمام ممکنہ کو ششیں جاری رہیں ۔جب اس سے ہمارا پہلی دفعہ سامنا ہوا تو ہم نے اسے دینے کے لیے تحائف کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔ہمارا خیال تھا کہ ہمیں اس کے متوقع ندیدے پن جو کہ عمومی طور پر ایسے موقعوں پر ہندوستان کے اکثر علاقوں میں دیکھنے کو ملتا ہے ،سے نبٹنے کے لیے طویل محنت درکار ہو گی تاہم ہمیں جلد ہی معلوم ہو گیا کہ اس دفعہ ہمیں ایک مختلف قسم کی مشکل سے نبٹنا ہو گا۔بہاول خان نے بغیر حیل و حجت کے ہم سے کوئی بھی چیز لینے سے انکار کر دیا جبکہ وہ خود اپنی فیاضی طبع اور سخاوت کے مظاہرے میں اس حد تک جانے کو بے چین تھا کہ جسے قبول کرنا ہمارے لیے ممکن نہ تھا ۔ ’’بہاول خان نے اپنی آمد کے دن ہمارے لیے اسّی بھیڑیں،ایک سو من آٹا اور اسی نوعیت کی دیگر اشیاء بھیجیں۔ اگلے دن اس نے ہمارے لیے مٹھائی کے بھرے ہوئے ایک سو برتن،سنگتروں سے بھرے بے شمار ٹوکرے،باداموں اور کشمش سے بھری دس بوریاں اور نوکروں میں تقسیم کرنے کے لیے پانچ تھیلے جن میں سے ہر ایک میںایک ہزار روپے (ایک سو بیس برطانوی پاؤنڈز کے برابر) تھے، بھیجے۔مہمان نوازی کے اس آخری اظہار سے مجھے کسی قدرخجالت سی محسوس ہوئی تاہم میں نے اس شرط پر اسے قبول کرنے پر آمادگی ظاہر کی کہ اُس کے نوکروں کو بھی مجھ سے اِسی طرح کی امداد قبول کرنا پڑے گی۔‘‘ ’’انتیس(نومبر 1808ء کی) تاریخ کو جناب سٹریچی اور کیپٹن ریپر (بہاول)خان سے ملاقات کے لیے گئے اور اپنا شائستہ اورگرمجوشانہ استقبال کیے جانے پر بڑے شاداں و فرحاں واپس آئے ۔اِن سے گفتگو کے دوران اُس (نواب) نے شہنشاہ کابل کی تعریف کی تاہم یہ بھی بتایا کہ اس نے شہنشاہ کو کبھی نہیں دیکھا تھا۔اسے کابل کی برف باری سے خدشہ لا حق تھا اور وہ ویسے بھی صحرا نشین تھا جو اتنے بڑے حکمران کے سامنے پیش ہونے کا مستحق نہیں تھا‘‘۔یکم اکتوبر کو وہ(نواب)مجھ سے ملنے میرے خیمے میں آیا۔وہ ایک سادہ، کھلے مزاج کا اور خوش اطوار انسان تھا۔ اس کی عمر پینتالیس یا پچاس کے لگ بھگ تھی۔اس نے سونے کے چھوٹے چھوٹے بٹنوں والا سفید رنگ کا کرتا پہن رکھا تھا جس کے اوپر اس نے چوڑا سا بہت قیمتی اورخوبصورت سنہری چوغہ لپیٹا ہوا تھا۔اس کے سر پر چوغے کی ٹوپی تھی جس کے اوپر اس نے لنگی (یا ریشمی پگڑی) ڈھیلے انداز سے بل دے کر لپیٹی ہوئی تھی۔اس کے ساتھ آنے والے مصاحبین میں سے چھ بیٹھ گئے جبکہ باقی گول دائرے میں کھڑے رہے۔ ان سب کے لباس بہت عمدہ اور حلیے میں بڑے معزز دکھائی دیتے تھے۔‘‘
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“