پنجابی زبان اور پنجابی شاعری کی روایت بہت پرانی ہے۔ ناتھ جوگیاں کی پنجابی شاعری ایک ہزار سال پہلے سے تعلق رکھتی ہے۔ حضرت بابا فریدؒ (شیخ فرید الدین معسود گنج شکرؒ) کا عارفانہ کلام 800 سال پرانی پنجابی کا شاندار نمونہ ہے۔ پنجاب سے باہر پنجابی زبان کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ سندھ میں شاہ عبدالطیف بھٹائی نے روحیل فقیر، سچل سرمست، حمل فقیر ان کے علاوہ کئی دوسرے اور صوفی شاعروں نے سندھی زبان کے علاوہ پنجابی زبان میں بھی اپنے عارفانہ کلام پیش کئے ہیں۔ گجرات کاٹھیا واڑ میں گجری اور دکھنی بھارت میں اردو میں، پنجابی رنگ صاف طور پر نظر آتا ہے۔ ولی اور لکھنو کے اردو شعراء بھی پنجابی میں شعر کہنا باعث عزت سمجھتے تھے۔ کئی شعراء کے کلام میں پنجابی زبان کا استعمال کیا گیا ہے۔ ان میں مرزا محمد رفیع سودا، سعادت یار خاں رنگین اور مغل خاندان کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر شامل ہیں۔ بہادر شاہ ظفر کو شاعری کا شوق ورثے میں ملا تھا۔ وہ پنجابی زبان، پنجابی روایات سے بھی آگاہ تھے۔ بہادر شاہ ظفر خالص پنجابی میں بھی شاعری کرتے رہے وہ پنجاب کی مشہور لوک کہانیاں اور لوک گیتوں سے بھی پوری طرح آگاہ تھے۔ انہوں نے کئی جگہ پر ہیر رانجھا کے پیار و محبت کے قصے کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ جیسا کہ
دے نشانی اب تو چھلا اپنے سیدھے ہاتھ کا
کہا نے گل رانجھا بھی تا اے ہیر سیدھے ہاتھ سے
ایک اور جگہ کہا کہ
اکھاں اساڈیاں ڈھونڈن انہاں نوں
ہائے او کتھے لوگ گئے
جن کی نگاہ سوں پیارے
گلاں لگری دل نوں بھلیاں
اس شعر سے احساس ہوتا ہے کہ انہیں کس قدر پنجابی زبان سے لگاؤ تھا۔ ظفر کی پنجابی شاعری نہ جاننے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پنجابی زبان سے ناواقف اور کم علم رکھنے والے کاتبوں نے ان کے کلام کو نقل کیا اور پھر پنجابی شاعری کا حلیہ بگاڑ دیا گیا اور یہ کوشش کی گئی کہ پنجابی لہجے کو اردو کا رنگ دے دیا جائے جس کی وجہ سے املا بگڑ گئی۔ ان ہی باتوں کی وجہ سے ان کی پنجابی شاعری کو جاننے میں مشکل پیش آتی ہے لیکن پھر بھی اصل عبارت کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ظفر نے اپنے روحانی پیشوا حضرت فخر الدین دہلوی کی شان میں مسدس کی ایک صنف میں ایک مدح لکھی ہے جس میں خالص پنجابی زبان اور پنجابی محاورہ استعمال کیا گیا ہے۔ جس طرح:
ہِک اشارے نال تساڈے کھلدے عقدے سارے
ڈھل نہ کرالے فخر پیا، سلطان نظام دے پیارے
ظفر کی ایک پنجابی اردو مثلث:
لکھاں پتیاں لکھ چکی
لکھ لکھ تھک گئے بات
پہنچیں ہیں یا نہ پہنچیں
ایہہ کیتوں پچھاں بات
وہ وہاں سے ایک پرچہ،
لکھ کے بھجواتے ہیں
ان کی ایک مشہور غزل میں پنجابی رنگ اور اسلوب صاف ںظر آتا ہے۔
جن گلین میں پہلے دیکھیں
لوگن کی رنگ رلیاں تھیں
پھر دیکھا تو ان لوگاں بن
خالی پڑیں وہ گلیاں تھیں
ایک اردو پنجابی مثلث کی ایک اور مثال پیش خدمت ہے۔
نیکی دی گل کوڑی ہوندی، سوچ سمجھ پہچان
بری گل مٹھی لگدی، توں ہیٹی مت جان
کہ آخر زہر قاتل ہے، اگرچہ ہے شکر پہلے
اکھیاں میری ڈھونڈن اوہنوں بیکل رہندی جان
نظر نہ آوندا سوہنا مینڈا مینوں اوہدا دھیان
میں تو لاکھوں میں کہوں، اس سے سرو کار بھی ہے۔