"انڈین آرمی" کمانڈر سامنے پڑی لاش کو دیکھ رہا تھا۔ جو "پاکستانی آرمی" کے شہید جوان کی میت تھی۔۔۔اور "انڈین کمانڈر" نے کاغذ کے ٹکرے پر کچھ لکھا اور پاکستانی آرمی کے شہید کی جیب میں ڈال دیا ۔۔اور باقی اپنے ساتھیوں کو بولا کہ اس لاش کو پاکستان بیھجوا دو۔۔
اور وہ میت کسی عام "آرمی جوان" کی نہیں تھی۔ بلکہ ہمارے عظیم نوجوان "کیپٹن کرنل شیر خان" کی تھی ۔۔۔
اور وہ کاغذ جو "انڈین کمانڈر" نے "کرنل شیر خان" کی جیب میں ڈالا تھا اس پر جو لکھا تھا۔ وہ سن کر آپ حیران ہو جائیں گے ۔۔۔ یہ بات ہے 4جولائی 1999ء کی ہے جب پاکستان اور انڈیا کے درمیان کارگل کی جنگ چل رہی تھی۔
اس وقت ہیڈ آفس کی طرف سے کیپٹن کرنل شیر خان کو "ٹائیگر ہل" جانے کا حکم ملا جہاں پر پاک فوج نے "تین مورچے" بنا رکھے تھے جن پر دشمن نے قبضہ کر رکھا تھا جب افسران نے "شیر خان" کو اس کام کے لئے چنا تو "کرنل شیر خان" نے جواب دیا :کہ میں دشمن کو وہاں سے بھاگنے پر مجبور کر دوں گا اور جان پر کھیل کر بھی کامیابی حاصل کر کے واپس آوں گا ۔۔۔
اگلِی صبح ہوتے ہی "کرنل شیر خان" ٹائیگر ہل پہنچا اور فورا دشمن کے مورچوں پر حملہ کر دیا جیسے ہی حملہ کیا کرنل شیر خان کا حملہ اتنا خطرناک طریقے کا تھا کہ پہلے ہی حملے نے دشمن کو بھاگنے مجبور کر دیا ۔۔اور کرنل شیر خان نے وہاں تمام کنٹرول سنبھال کر آفسران کو آگاہ کیا اور مزید آگے بڑھنے کی بات چیت ابھی جاری ہی تھی کہ دشمن آرمی نے دوبارہ پلٹ کر حملہ کر دیا ۔۔
اس وقت پاک فوج کے سپاہیوں کی تعداد بھی بہت کم تھی اور اسلحہ بھی کم بچا ہوا تھا ایک چیز جو "پاک وردی" کے پاس بہت زیادہ تھی، ہے اور رہے گی وہ تھی ہمت اور پاک فوج کے جوان دشمن سے لڑتے رہے اور ایک ایک ہو کر اپنے وطن کیلئے شہید ہوتے گئے اور ساتھ ساتھ دشمن فوج کو بھی موت کے گھاٹ اتارتے گئے۔۔ اس وقت کرنل شیر خان بھی دشمن کے حملے سے زخمی ہو چکے تھے لیکن یہ دشمن کو پتہ نہیں تھا اتنے میں وطن کے بیٹے "کرنل شیر خان" کو دشمن کے ایک فوجی کی دور سے آواز سنائی دی جو گالی دے کر زور زور سے کہہ رہا تھا۔کہ لگتا ہےسب مارے گئے ہیں اور ساتھ "کرنل شیر خان" کے شہید ساتھی کے چہرے پر پاؤں رکھ کر نہ صرف فضول باتیں اور گالی دی بلکہ ان کی بے حرمتی بھی کی گئی ۔۔شیر خان یہ سب سن کر سر اٹھایا اور اپنے ساتھ والے شہید ساتھی کی کی مشین گن اٹھائی اور دشمن فوج پر حملہ کرتے ہوۓ آگے بڑھتے ہوۓ بہادری کا ثبوت پیش کیا ۔۔دشمن فوج کو محسوس ہو رہا تھاکہ شاید پاک فوج کا دوسرا گروپ حملہ کرنے آیا تھا مگر وہ اس بات سے انجان تھے کے پاک کا "کرنل شیر خان" بھی اتنا جگرا رکھتا ہے کہ سب کا مقابلہ کرنے کو تیار ہو گیا تھا ۔۔"کرنل شیر خان" کی بہادری کی وجہ سے دشمن فوج کو ادھر سے بھاگنا پڑا ۔۔شیر خان نے ہمت نہیں ہاری تھی اور نعرا لگاتے ہوۓ دشمن کے کیمپ کی طرف مشین گن کو چلاتے ہوۓ بڑھ رہے تھے ۔۔اور کافی تعداد دشمن فوج کو موت کی نیند سلا دیا مگر آگے دشمن فوج کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے "شیر خان" مقابلہ نہیں کر سکے اور دشمن فوج کے لوگوں نے شیر خان کو گھیر لیا ۔۔ اور ساتھ ہی مشین گن کی گولیاں بھی ختم ہو گئیں دشمن فوج نے اپنی بندوکیں چلانی شروع کر دی اور شیر خان کا سینہ زیادہ گولیاں برداشت نہ کر سکا اور اپنی گن کے سہارے سے گھٹنوں پر گر گیا ۔۔
مگر دشمن آرمی کمانڈر شیر خان کی بہادری پر حیران تھا ۔۔اس نے اپنے ساتھیوں کو شیر خان کی بے حرمتی کرنے سے روک دیا ۔۔جب شیر خان کے چہرے کی طرف دشمن آرمی کے کمانڈر نے دیکھا تو شیر خان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی ۔۔دشمن آرمی کمانڈر خود تعریف کرنے پر مجبور ہو گیا ۔۔اور ساتھیوں کو سختی سے منع کر دیا کہ شیر خان کی لاش کی بے حرمتی نہیں کی جاۓ گی اور عزت اور احترام کے ساتھ پاکستان بھیجا جاۓ گا ۔۔۔
جب شیر خان کی لاش پاکستان پہنچی اور اس کے جیب سے جو کاغذ نکلا اس میں لکھا ہوا یہ تھا:
(کیپٹن شیر خان ایک بہادر انسان ہے اور بہادری اور جگری سے لڑے)
یہ سب سن کر کرنل شیر خان کے نہ صرف گھر والوں کو بلکہ تمام آفسران اور پوری قوم کو فخر محسوس ہوا ۔۔۔
شیر کرنل اور ان جیسے سب عظیم شہیدوں کو ہمیشہ یاد رکھا جاۓ گا اور ان کی بہادری کو سراہا جاۓ گا ۔۔۔
شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے :
شہید کے لہو سے جو زمین سیراب ہوتی ہے بڑی سرسبز ہوتی ہے بڑی شاداب ہوتی ہے ۔۔۔
جزاک اللّه ۔۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...