بغداد کی تباہی مارچ ۲۰۰۳۔ قدرت کے فیصلے ۔
کل میں ایک صدام حسین پر مارچ ۲۰۰۳ کے امریکہ کے حملوں پر کتاب پڑھ رہا تھا ۔ اس کتاب میں visuals کے زریعے حملوں سے پہلے کا بغداد بھی دکھایا گیا تھا اور بعد کا بھی ۔ میرا وہ ہولناک مناظر دیکھ کر دل دہل گیا ۔ ہر طرف خون ہی خون ۔ آگ ہی آگ ۔
امریکہ میں یہ بحث آج بھی جاری ہے کہ حملہ جائز تھا یا ناجائز۔ صدام حسین کے پاس کیا کیمیکل ہتھیار تھے بھی یا نہیں ۔ اس کا جواب تو شاید نہ مل سکے لیکن ایک بات بہت درست ہے کِہ قدرت کا فیصلہ عراقیوں کے خلاف تھا ۔ عراق میں نا انصافی ، جبر ، کرپشن اور مسلکوں کی بنیاد پر جو ایک بہت وسیع پیمانے پر غنڈہ گردی جاری تھی ، اس نے اپنا رنگ ضرور لانا تھا اور وہ لائ ۔ اور بغداد آج بھی اس آگ میں دھنسا ہوا ہے ۔
ایک دفعہ ۲۰۰۵ میں ، میں ہانگ کانگ سے بنکاک سفر کر رہا تھا تو میرے ساتھ والی سیٹ پر ایک عراقی سفر کر رہا تھا ۔ میں نے اس سے عراق اور صدام حسین کے معاملات پر بحث شروع کی تو اس نے شروع میں ہی مجھے کہا کہ ہم بحیثیت قوم شکست کھا چکے تھے ۔ اگر ہم ایک قوم ہوتے مجال ہے امریکہ تو کیا کوئ اور ہمارا بال بھی بیگا بھی کرتا ۔ اس کے مطابق مال و دولت کے چکر میں ہم سب بٹ چکے تھے ۔ شیعہ ، سنی ، کرد تو ایک عرصے سے اکٹھے رہ رہے تھے لیکن ہمارا ایک دوسرے پر اعتماد بحیثیت انسان کھو چکا تھا ۔ ہم درندوں سے بھی بدتر ہو گئے تھے ۔ فحاشی عریانی عروج پر تھی ۔ مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتی اس نے کہا کہ نجانے اور کتنے سال ہم اس کی سزا بھگتے گیں ۔ یہ قدرت کی طرف سے سزا ہے ۔ امریکہ کا اس میں کوئ لینا دینا نہیں ۔ امریکہ کو تو اللہ ایسا موقع دے ۔ کہ اس کا اسلحہ بھی بکے اور تیل پر بھی قبضہ ۔
اس شخص کے الفاظ آج تک مجھے یاد ہیں ۔ اس کے بعد لیبیا میں بھی یہی ہوا اور پھر شام میں بھی۔ دیکھا جائے تو افغانستان سے بھی اسی طرح جنگ و جدل شروع ہوا تھا اور آپس میں افغانیوں کو لڑا لڑا کر نہ ختم ہونے والی جنگ شروع کی گئ جو ابھی تک اسی زور و شور سے جاری ہے ۔ مسلمان مسلمان کو قتل کر رہا ہے ۔ آبادی بھی کم ہو رہی ہے ۔ باہر کی طاقتوں کا اسلحہ اور مال پانی بھی خوب بک رہا ہے ۔ بہت مزے ہیں ان کے ۔
اچکزئ جیسے لیڈر پاکستان میں بھی بلکل یہی کچھ چاہ رہے ہیں ۔ وہ پھر باہر کی طاقتوں کے اعلی کار ہوں گے اس لڑائ میں ، اور کرزائ اور اشرف غنی کی طرح مامے چاچے ۔
صدام حسین جنرل باجوہ سے زیادہ مطمئن تھا کہ کچھ نہیں ہو گا ۔ اور اس وقت بھی عراق میں اوریا مقبول جیسے بہت لوگ اقوام متحدہ کی عمارت میں ازان دینے کی بڑکیں مار رہے تھے ۔
صدقے جاؤں ان لوگوں کی عقل و فہم پر ۔ پاکستان میں اتفاق نامی کوئ چیز دور دور تک نہیں پائ جاتی ۔ آدھے سے زیادہ باہر موجود پاکستانیوں کی جائدادوں پر ان کے بھائ بہنوں دوستوں نے قبضے کر لیے ہیں ۔ وہ بیچارے ادھر بے خبر محنت مزدوری کی چکی میں پس رہے ہیں ۔
زمینی حقائق سے ہر کوئ واقف ہے ۔ آنکھوں پر پٹیاں باندھی ہوئ ہیں ۔ کچھ کرنا نہیں چاہتے ۔ کیونکہ ایمان رتی بھر نہیں اور صرف زبان پر ‘ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی پر ‘۔ واہ جی واہ ۔ شہزادہ محمد بن سلیمان پچھلے ہفتے مغربی لباس میں یہاں امریکہ کہ ایک ٹاپ نائٹ کلب میں اس کے مالک سے سعودیہ میں اسی طرح کی ڈسکو چین بنانے کی بات کر رہا تھا ۔
بھائ پہلے اپنے لیڈروں سے حساب کتاب لیں ۔ امریکہ پر بعد میں چڑ دوڑیں میں یہاں ڈیڑھ سال سے امریکہ میں رہ رہا ہوں انہیں کوئ دلچسپی نہیں حالانکہ آپ نے تو ان کے گروپ ویزا بھی انٹری پر کر دیے ہیں ۔
اپنے لیڈروں کے پیٹ کاٹ کر پیسہ نکلوائیں اگر اپنا ملک بچانا ہے ۔ فرخ عرفان کہ رہا ہے ‘ہن تے میں داڑھی وی رکھ لئ اے کڈ کے دکھاؤ’۔ کیا یہ تھا اسلام کا نظام عدل؟ اگر زرا سا بھی کسی جج پر الزام لگتا تھا تو وہ اپنے عہدے سے فورا مستعفی ہو جاتا تھا اور ان کی ڈھٹائی دیکھیں ۔ پاکستانی بیریوکریٹ اور جج تو ایسے behave کرتے ہیں جیسے اوپر سے پٹہ لکھوا کے آئیں ہیں ۔
لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں ، بچے بیچ رہے ہیں ۔ زہریلا پانی پی رہے ہیں اور ہمارے لیڈر لندن ، پیرس اور نیویارک میں شامیں گزار رہے ہیں ۔ ان کا گریبان پکڑنے کی ہم میں ہمت نہیں ہزاروں میل دور امریکہ کو للکارا جا رہا ہے ۔ جس کا نہ آپ کی زاتی گندگیوں سے کوئ لینا نہ دینا سوائے ان کے اپنے جغرافیائی مفادات کے ۔
ابھی بھی وقت ہے ہم ہوش کے ناخن لیں ، توپوں کے رخ حکمرانوں کی طرف کر دیں تو شاید نچ جائیں وگرنہ باری اب پاکستان اور ایران کی ہے اور ایک طویل جنگ و جدل شروع ہونے کو ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔